سیاست درباں سے ڈر گیا

تحریر : قادربخش بلوچ
یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ دنیا کے مایہ ناز ترقی یافتہ ممالک ایک دور میں بڑی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن وہاں جان ایف کینڈی اور لوتھر کنگ جیسے انسان پیدا ہوے اور تاریکی دھیرے دھیرے روشنی کی حسین کرنوں کے اجالوں میں ہمیشہ کے لئے غائب ہوئی یہودیوں اور کافروں کے ملک میں جانوروں تک کی مکمل حفاظت کی جاتی ہے ہاں یہ بات نہیں کہ حادثات نہیں ہوتے۔ لیکن ان کا ردعمل بھی دیدنی ہوتا ہے مملکت خداداد کی باگیں ایسے لوگوں نے تھامی ہیں یا تھما دی گئی ہیں جنہیں منزل کا علم نہیں، اکیسویں صدی میں ایسی کوئی ریاست کسی کو کہیں بھی نظر نہیں آتی کہ وہ حکمرانی جنوبی ایشیا میں کریں اور اپنے خاندان سمیت یورپ میں مقیم ہوں اور شاہانہ انداز میں زندگی بسر کریں۔ مملکت خداداد کے رہنما یورپ میں شاندار زندگی بسر کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری وساری ہے اور پوری شدت سے رو بصحت ہے، یہ الگ بات ہوگی کہ امریکہ بہادر بشمول دینی بھائیوں کے اپنی ادائیں بدلیں اور ہمارے رہنماؤں کا وہی حشر کردیں جو رضا شاہ پہلوی کا کردیا تھا۔رضا شاہ پہلوی اپنی آپ بیتی ۔شہنشاہ کی عروج زوال کی کہانی رضا شاہ پہلوی کی اپنی زبانی۔ میں لکھتے ہیں بیورو کریسی جسے خدائی تازیانہ کہنا چاہیے ہمارے ملک ایران میں ایک باقاعدہ ادارے کی حیثیت اختیار کرچکی ہے، سرکاری رقوم کا غبن رشوت ستانی بدعنوانیاں ایک عرصے سے ہمارے معاشرے کا شعار بن گئی تھیں، ان کی اصلاحات کے لیے ہم نے اس ضرب المثال پر عمل کیا کہ علاج سے پرہیز بہتر ہے۔ یہ تھے رضا شاہ کے فرمان لیکن دنیا نے دیکھا نہ پرہیز کام آیا اور نہ علاج ہوسکا البتہ جو ہوسکا وہ یہ تھا کہ تاریخ نے خود کو دہرایا، شاہ ایران بہادر شاہ ظفر کی طرح دربدر ہوا لگتا ہے، ہمارے حکمران مطالعہ کے ذوق سے عاری ہیں، انہیں تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں، یا یہ اس نوع کے بندے ہی نہیں، انہیں کون سمجھائے کہ لیڈر کروڑوں کے عالیشان محلات میں نہیں رہتے بلکہ ملکی عوام کے ساتھ زیست بسر کرتے ہیں اور جن حکمرانوں نے اپنی عوام سے مختلف طرز زندگی بسر کرنے کی کوشش کی ان کا بھیانک انجام تاریخ کے صفحات پر رقص کرتا نظر آتا ہے۔ رہی بات بلوچستان کی۔ بلوچستان کی پسماندگی میں سب سے بڑا ہاتھ خود بلوچ رہنماؤں کا ہے یہ کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور بلوچستان کے بیشتر بلوچ۔گزیر بننے کے بعد خود کو سردار یا ھپت پشتی نواب سمجھنے لگتے ہیں ان کے نام کے آگے میر ضرور لگے گا، حالانکہ انہیں یہ بالکل نہیں معلوم کہ بلوچ کن لوگوں کو اور کس طرح کے لوگوں کو میر کا درجہ دیتے ہیں۔ پھر یکا یک انکے گاٹ پریٹ اور چلنے کا انداز ہی بدل جاتا ہے، یہ منرل واٹر کے علاوہ اور پانی نہیں پیتے، بلوچ سے متعلق مشہور ہے کہ انہیں کسی کی برتری بالکل نہیں بھاتی، بلوچ کے جد امجد چاکر اور گہرام ہیں ان دونوں کی پہچان گہرام لاشاری اور چاکر شیہک ہے۔ بلوچ اب بھی جہالت کی گہری کھائیوں میں ہچکولے کھا رہا ہے، بلوچستان اسمبلی کے اکثر گزیر کسی بھی زبان میں ایک سطر لکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ مکران کے سارے گزیر اپنے اپنے علاقوں سے نقل مکانی کر کے تربت کے پر تعیش علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، انہیں بلکل نہیں علم کہ ان کے علاقوں میں بجلی اسکول اور شفاخانے ہیں کہ نہیں اکیسویں صدی میں بھی ان گزیروں کے علاقوں میں عوام سڑکوں کے نام سے نا آشنا ہیں۔اگر تربت کے مالک بلوچ کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی، مالک بلوچ بلوچستان کے واحد سیاست دان ہیں جو سیاست کے نشیب وفراز کو خوب جانتے ہیں، مالک بلوچ نے ہمیشہ بلوچ کے مفاد کو ترجیح دی ہے، ڈاکٹر مالک نے بلوچ کے لئے علمی میدان میں جو کچھ کیا وہ تاریخ کے درخشاں باب ہوں گے مکران میں خواتین 70ءکے عشرے تک گھروں سے نکلنے کو عیب سمجھتی تھیں ڈاکٹر مالک نے انہیں اسلام آباد، لاہور یہاں تک کہ امریکہ تک پہنچایا، تربت کے خواتین امریکہ میں عالمی بینک میں ملازمت کرتی ہیں، یہ مالک بلوچ کی بدولت ممکن ہوا۔ مالک بلوچ گھنٹوں بھر اپنے ورکروں سے گپ شپ کرتے ہیں، ڈاکٹر مالک ولی برانٹ اور گولڈا میئر کی طرح بزلہ سنجی بھی خوب کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو بڑی لائق، قابل اور وفادار خاتون تھیں جب انہیں اقتدار ملا تو انہوں نے ملیحہ لودھی کو سفیر لگا دیا لیکن بلوچستان میں نہ نرگس بلوچ کو صوبائی نشر و اشاعت ملی اور نہ انجینئر حمید بلوچ کو کوئی ذمہ داری اور وہ بھی مالکی ادوار میں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں