غیرمتحرک ادارے اور سماج پر ان کے منفی اثرات کا تاریخی پس منظر

تحریر: محمد صدیق کھیتران

جن جن معاشروں میں ادارے غیر متحرک ہیں وہاں جمود کی کیفیت ہے۔ایسے معاشرے غربت،بدحالی اور انتہا پسندی کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔1980ءکی دہائی اور خاص کر سرد جنگ کے بعد مشرق بعید، چین، ہندوستان، برازیل اور مشرق وسطءمیں بڑی بڑی انڈسٹرالائیزیشن ہوئی ہے۔ ان خطوں میں ٹیکنالوجی آئی۔متوسط طبقے نے گلوبل ترقی میں اپنی جگہ بنائی۔ مگر یورپ اور مغرب میں بیروزگاری بڑھی۔وہاں پر درمیانہ طبقہ سکڑگیا ہے۔ آ جکل فرانس اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ہڑتالیں اور لاکھوں کے جلوس وہاں پر اٹھنے والی بے چینی کا مظہر ہیں۔ یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد طویل ترین روس اور یوکرین کی جنگ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔اس کی وجہ سے پوری دنیا تیل کے بحران کا سامنا کررہی ہے، تنظیم برائے معاشی تعاون و ترقی” Organisation for Economic Co-operation and Development ” کے مطابق اگلے دو سال تک 9 فیصد اضافی مہنگائی اس جنگ کی وجہ سے دنیا بھگتے گی۔ عالمی معاشی پھیلاﺅ اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے کچھ ثمرات ہمارے جیسے معاشروں میں ضرور در آئے ہیں۔ جاپان، چین اور یورپ کی اسکریپ "Out Dated” مصنوعات کے کنٹینرز اور پرانی گاڑیوں جیسے کابلی گاڑیاں کوہ سلیمان کے ہر ٹیلے پر نظر آتی ہیں۔ اس غیر قانونی تجارت سے کالادھن پیدا ہوا ہے جس کی بدولت ہاﺅسنگ سوسائیٹیاں شہروں میں کہیں کہیں نظر آتی ہیں۔ ایک عام اوسط طبقے کا فرد پانچ دس ہزار روپے کا لباس اور پوشاک زیب تن کرتا دکھائی دیتا ہے۔اس کی جیب کو اگر ٹٹولا جائے تو ستر اسی ہزار کا اسمارٹ فون بھی 30 سے 40 فیصد آبادی کے پاس سے مل جائے گا۔ یہ جدیدیت تو ہے مگر ترقی ہرگز نہیں ہے۔ اس کو سادہ زبان میں ترقی بغیر ذہن کے ” Moderation with out Development” کہہ سکتے ہیں۔ ایسی ترقی کبھی بھی معاشی ترقی میں نہیں بدل سکتی۔ یہ زیادہ سے زیادہ "Urbanization” ہے جس کی کوئی معاشی جڑیں نہیں ہیں۔ اس کو گملے میں سجا ایک مصنوعی پودا کہا جاسکتا ہے جو صرف نمائش کے لئے ہے۔
"It is an urbanisation without sustainable growth”. اس مصنوعی ترقی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ بحیثیت قوم اور گلوبل برادری کا حصہ ہونے کے ناطے ہماری شعوری ترقی "intellectual Growth ” رک گئی ہے۔ ہم ذہنی طور پر من حیث القوم 2000 سال پرانے ذہن کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اس 20ویں صدی پرانے ذہن سے یونیورسٹیوں، ہسپتالوں، بازاروں، اسمبلیوں، انصاف کے اداروں، سیاسی جماعتوں اور سیکرٹریٹس کو بھر دیا گیا ہے۔ گوشت پوست کے انسان نما اس سماجی جانور کی سوچ اپنی جیب، گھر اور قبیلے سے باہر تک جا ہی نہیں رہی۔ اس پر ان کی رکھوالی ایسے بندوق برداروں سے کروائی جارہی ہے۔ جس کی تربیت صرف اطاعت اور اپنی ملازمت کی ترقی کی رپورٹ” Annual Confidencial Reports” تک ٹکی ہوئی ہے۔ آج اگر ہر ادارے میں چوری، دھکم پیل، نفسانفسی، چھینا جھپٹی اور بے صبری پائی جاتی ہے تو اس کے پیچھے غیر یقینی اور کل کا علم نہ ہونے جیسی نفسیاتی الجھنیں ہیں کیونکہ ہمارے ادارے اب نہیں بچے اور اگر وہ ہیں بھی تو بانچھ ہوکر جمود کا شکاربن گئے ہیں۔ ان کے پاس پائیدار ترقی کا کوئی وژن ہی نہیں ہے۔ عمران خان نے چند کٹ اینڈ پیسٹ ” Cut and paste” تارکین وطن ماہرین کو بلاکر ترقی کا ماڈل بنانے کی کوشش کی۔جو ظاہر ہے فیل ہونا تھا۔ ملک کی 22 کروڑ کی آبادی کی ترقی کی خواہش دس سالہ صوبہ پختون خواہ سمیت، چار سالہ سب سے بڑے صوبہ پنجاب اور وفاق کے اقتدار میں صدا باصحرا رہا۔ سماجی ترقی کا تعلق تہذیب، شناخت Identity ، وقار Dignity ,عوامی رویوں اور حکومتی اداروں کے مربوط مقاصد سے جانا جاتا ہے۔
براعظم ایشیا کے پندرھویں اور سترھویں صدی کے تین بڑے واقعات کا حوالہ ضروری ہے تاکہ اداروں اور حکمرانی کے میعار کا تاریخی پس منظر جانا جاسکے۔
خاندان سانگ ” Song ” چین میں 960 سے 1279 عیسوی تک حکمران رہا۔اس وقت یہ دنیا کی سب سے طاقتور اور ترقی یافتہ قوم تھی۔ تب چین گھڑی، قطب نما، بارود، کاغذ ، کاغذ کی کرنسی،لوہا پگھلانے والی بھٹی اور چینی کے برتن بنا چکا تھا۔اس کے 140 سال بعد 1422 عیسوی میں ایڈمرل زینگ "Zheng ” نے 6 بحری بیڑوں سے جنوبی ایشیا، مشرق وسطئی اور افریقہ میں تجارت کھولی۔اس کے بیڑے میں 27,800 افراد ملازم تھے۔بحری بیڑے کے ساتھ 62 جہاز خزانہ اور مال برداری کیلئے ہوتے تھے۔190 کشتیاں حفاظت کیلئے معمور تھیں۔اس سے قوموں کے درمیان تجارت کو نئی جہتیں ملیں۔عام آدمی امیر ہونے لگے تو بادشاہ کو خوف لاحق ہوگیا۔ عوام کی خوشحالی بادشاہوں کو کبھی بھی ہضم نہیں ہوتی چنانچہ اس نے 1433 میں ناصرف بحری تجارت پر پابندی لگادی بلکہ بحری جہاز بنانے کو قابل سزا جرم قرار دیا۔
جاپان میں ٹاگووا شوگونٹ ” Tokugawa Shogunate” خاندان 17 صدی میں حکمران تھا۔اس کے دور میں بھی بحری تجارت پھیل گئی تھی۔کیونکہ چین نے تو 1433 میں بحری ٹیکنالوجی پر پابندی لگادی تھی۔ ایجاد کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے تجرے اور مشاہدے کا نچوڑ ہوتی ہے۔جب کوئی چیز ایجاد ہوتی ہے تو وہ کم ہی فنا ہوتی ہے۔بلکہ کسی دوسرے مناسب ماحول میں مزید پروان چڑھتی ہے۔ بحری ٹیکنالوجی کو یورپ میں پنپنے کا موقع ملا تو 1491 میں ہسپانیہ کے کرسٹوفر کولمبس کا بحری بیڑہ امریکہ کے دو براعظم دریافت کر چکا تھا۔دنیا کی تجارت سمندری راستوں سے چل پڑی۔فوجی طاقت گھوڑوں،اونٹوں اور ہاتھی کی پیٹھ سے اتر کربحری بیڑوں پر سوار ہوگئی۔ جاپان کا ساحل بحر اوقیانوس پر واقع ہے۔اسلئے اس تجارت کا سب سے زیادہ فائدہ وہاں کے جزائر پر رہنے والوں کو ہونے لگا۔ عام عوام کی خوشحالی ہمیشہ حکمران خاندانوں پر بجلی بن کر گرتی ہے۔چنانچہ وہاں کے حکمران نے بھی 34000 مربع کلومیٹر جزیروں پر رہنے والے شہریوں کو 17 میل ساحل سے دور رہنے کا حکم دے دیا۔اور ساتھ ہی اپنے ملک کی سمندروں کے ذریعے تجارت اور جہاز سازی پر پابندی لگادی۔ بلکہ حکم ہوا کہ کسی بھی غیر ملکی مصنوعات دکھائی دینے کی صورت میں شہری کو جیلوں میں ڈال دیا جائے۔
وقت نہیں رکتا آخر کار 4 سوسال بعد تین سالہ 1839 – 1842 کی افیون کی پہلی جنگ پر برطانیہ کی فوج نے چین پر حملہ کیا۔ چین کو شکست ہوئی اور وہ مجبور ہو افیون کی بلاروک ٹوک اجازت کے ساتھ ہانگ کانگ کو بھی بطور ضمانت دے بیٹھا۔اسی طرح امریکہ کی بحریہ کے کمانڈر میتھیو پیرے” Mathew Perry” نے "ایڈو Edo ” موجودہ ٹوکیو پر 1853 پر حملہ کرکے اس کو سبق سکھا دیا کہ سائنس اور اقتصادی ترقی کا راستہ روکو گے تو باہر کی قومیں آکر تمہاری سرزمین پر قبضہ کرینگی۔
1445 میں جرمنی کے جونز گٹنبرگ "Johannes Gutenberg "نے چھاپہ خانہ یعنی پرنٹنگ پریس ایجاد کی۔ہمسایہ ہونے کے ناطے اس کا سب سے بڑا فائدہ سلطنت عثمانیہ کو اٹھانا چاہیئے تھا۔مگر سلطان بایزید دوئم نے اس چھاپہ خانہ کو ترکی لانے پر پابندی لگادی۔جواز یہ پیش کیا کہ ہمارے علما ( پھر جاہل کون تھے ) کا اسرار ہے کہ اس طرح تو قرآن میں نیا مواد شامل کیا جائے گا۔ علما کہنے لگے ہمارے پاس ایک کتاب پہلے سے موجود ہے اب کسی اور کتاب کی ضرورت ہی نہیں ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1800 عیسوی تک سلطنت عثمانیہ میں خواندگی کا تناسب صرف 3 فیصد تھا جبکہ اس کے مقابلے میں برطانیہ میں مردوں کی شرح خواندگی 60 فیصد اور عورتوں کے اندر اس کا تناسب 40 فیصد تک جا پہنچا۔ ہالینڈ اور جرمنی تو اس سے بھی آگے تھے حتیٰ کہ پرتگال کی شرح خواندگی بھی 20 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ آخر کار 1798 میں مصر میں جاکر اس وقت چھاپہ خانے نے آزادی سے کام شروع کیا جب وہاں پر فرانس کے نیپولین نے قبضہ کیا۔
جب ریاستیں اور ان کے حکمران اپنی ذات سے آگے کا نہیں سوچ سکتے۔تو سب سے پہلے وہ اپنے اداروں کو مفلوج کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کے تباہ کن نتائج ہوتے ہیں جن کو آنے والی نسلوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے آگے چل کر ان مظالم اور جبر و استعداد کا ذکر کرینگے جن کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنے اپنے ملکوں میں آج تک غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ (جاری)

اپنا تبصرہ بھیجیں