بھارت کے اعتراض کے باوجود کشمیر میں چین کا پاور پلانٹ

چین نے بھارتی اعتراضات کے باوجود پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ہزار سے زیادہ میگاواٹ کے ایک نئے پاور پلانٹ کے منصوبے پر اتفاق کیا ہے۔

یہ نئی پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب مشرقی لداخ اور سکّم میں سرحد پر بھارتی اور چینی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ چین نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ہزار 124 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت والے ہائیڈرو پاور پلانٹ بنانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق پاکستان میں توانائی کے وزیر عمر ایوب نے اس نئے منصوبے سے متعلق کہا ہے کہ کوہلا ہائیڈرو پاور پلانٹ کے منصوبے پر چینی کمپنی ‘تھری گارجیز کارپوریشن’، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی انتظامیہ اور پاکستانی بورڈ ‘پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر’ نے اتفاق کر لیا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ تقریباً ڈھائی ارب امریکی ڈالر کا بڑا پروجیکٹ ہے جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی پیدا کرنے کے لیے تعمیر کیا جائے گا۔ سی پیک کا مقصد چین کو پاکستان کی معروف بندرگاہ گوادر کو روڈ اور ریل کے ذریعے مربوط کرنا ہے۔ اس سے چین کو بحیرہ عرب تک براہ راست رسائی حاصل ہو جائے گی۔ یہ راہداری پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے گزرتی ہے اور بھارت اس کی مخالفت کرتا رہا ہے۔

بھارت نے اس راہداری کے تعلق سے چین پر کئی بار اعتراض کیا ہے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایسی کسی بھی کارروائی کا مخالف ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان نے جب گلگت بلتستان میں ایک ڈیم بنانے کے پروجیکٹ پر چین کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، تب بھارت نے سخت اعتراض کیا تھا۔ بھارت کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا پورا علاقہ بھارت کا ہے اور پاکستان نے اس پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔

پاکستان کا موقف ہے کہ در اصل بھارت کشمیر کے ایک حصے پر جابرانہ طور پر قابض ہے اور کشمیری عوام کی مخالفت کے باوجود فوجی طاقت کے ذریعے بھارت کشمیری عوام پر اپنی مرضی مسلط کر رہا ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اس وقت تقریبا ًدس لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے

اور وادی کشمیر گزشتہ تقریباً دس ماہ سے لاک ڈاؤن اور کرفیو جیسی بندشوں کی زد میں ہے۔

گلگت بلتستان میں پاکستان نے چین کے ساتھ 442 ارب ڈالر کی لاگت کے دائیمیر بھاشا ڈیم بنانے کا معاہدہ کیا ہے۔ بھارت نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ جموں، کشمیر، لداخ سمیت تمام علاقے بھارت کے حصے رہے ہیں، ہیں اور مستقبل میں بھی رہیں گے۔ ”ہم پاکستان اور چین دونوں کو پاکستان کے زیر قبضہ بھارتی علاقوں میں ایسے پروجیکٹس سے متعلق اپنے اعتراضات اور تشویشات سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔”

حال ہی میں جب گلگت بلتستان میں پاکستان نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کیا تھا تو اس پر بھی بھارت نے سخت اعتراض کیا تھا۔ بھارت نے اس کے رد عمل میں موسم سے متعلق اپنے یومیہ بلیٹنوں میں گلت بلتستان اور مظفرآباد کو بھی شامل کرنا شروع کردیا ہے۔

لیکن چین اور پاکستان بھارت کے ان بیانات پر کوئی توجہ دیے بغیر سی پیک کے تحت اس پورے علاقے میں ترقیاتی منصوبوں کا جال پھیلاتے جا رہے ہیں۔

تجزیہ کارں کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اس طرح کے بڑے پروجیکٹ سے کافی پریشان ہے لیکن چونکہ معاملہ چین کا ہے اس لیے بیان بازی کو علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں