اقتدار کی جنگ
تحریر: نصیر عبداللہ
معروف صحافی و دانشور انور ساجدی سے انتخاب آفس کراچی میں ملاقات ہوئی، اس دوران کافی موضوعات زیرِ بحث آئے ملکی سیاسی صورتحال پر بات ہوئی چونکہ انور ساجدی اور میرا تعلق بلوچستان سے تو یقیناً زیادہ تر موضوعِ بحث بلوچستان رہا۔ انورساجدی نے کہا آپ کی رائے میں بلوچ نوجوانوں کا رجحان بلوچستان کے کس سیاسی پارٹی سے ہے۔ جس کا منطقی جواب میں نے یہ دیا کہ بلوچ نوجوان موجودہ سیاسی جماعتوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ پہلے کچھ تعلیم دوست نوجوان جو صوبے کی بہتری میں نئے نئے سیاسی میدان میں اتر آئے تھے ان کا لگاو نیشنل پارٹی کی طرف تھا اور شاہد اب بھی نئے آنے والے نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد نیشنل پارٹی کو اپنے حقوق کی پاسدار سمجھتی ہے۔ لیکن قوم پرستی کے نام پر وفاق کی سیاست کرنے والے ان تمام سیاسی جماعتوں کا چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے، اور نوجوانوں کی اکثر و بیشتر بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی کے اصل چہروں سے بخوبی واقف ہیں۔اس لیے نوجوان میں سیاسی لیڈر پیدا کرنے کا ایک رجحان پایا جاتا ہے۔ طلبا تنظیمیں بلوچ لیڈر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ قوم پرست جماعتیں نہیں بلکہ قوم پرستی کے دعویدار سیاسی پارٹیاں ہیں جن کا سیاسی بیانیہ اب بے سود ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کسی حد تک لاپتہ افراد کے مسلے پر سنجیدہ ہے لیکن وہ بے اختیار ہے اسے معلوم ہے کہ اسے اقتدار مل بھی جائے تو وہ لاپتہ افراد کے مسلے پر کچھ نہیں کرسکیں گے۔ بقول ہمارے ایک دوست نما استاد حسن خان آزاد بی این پی مینگل آج دن تک اپنے سیاسی جماعت پر لگے مینگل کو ہٹا نہیں سکی تو وہ کس طرح قوم پرستی کا دعوہ کرسکتا ہے۔ بلوچستان حکومت کا کیا کہنا میرے خیال سے وہ پورے بلوچستان کو آواران کی طرح مزید پستی کی جانب دھکیلنے کے سوا اور کچھ کرنے کے اہل نہیں جس کے حلقہِ انتخاب میں ترقیاتی کام صفر ہوں اس کو وزیر اعلی بلوچستان بناکر پورے بلوچستان کو پیرس بنانے کا توقع کرنا احمقانہ ہوگا۔ ساجدی صاحب نے میرے ان خیالات سے انتفاق رائے کیا۔ وفاق اور مقتدہ کی طرف سے بلوچستان میں ایک الگ ہی پالیسی ہے خواہ جس کی حکومت آئے یہ پالیسی تسلسل کے ساتھ جاری رہے گا فی الحال مقتدرہ کی طرف سے بلوچستان کے متعلق کچھ بہتر لائحہ عمل نہیں طے کیا جاسکا ہے۔ عمران خان نے اپنے انا کی جنگ سے پورے ملک کو یرغمال بنارکھا ہے۔ اس وقت عمران خان نے ملکی عدلیہ کو متنازع کر رکھا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے تین معزز ججز نے کھلم کھلا عمران خان کے موقف کا دفاع کیا اور اس پر ڈٹے رہے۔ گزشتہ کوئی ایک ہفتے سے کے پی کے اور پنجاب کے انتخابات کا زیر التوا کیس میں فیصلہ لٹکا ہوا تھا جس سے ملک میں شدید آئینی بحران پیدا ہوا ہے۔ عمران خان کو فرق نہیں پڑتا کہ ملک ڈیفالٹ کرجائے انہیں بس کسی بھی طرح دوبارہ اقتدار میں آنا ہے۔ اگر ملک ر ہے گاتو اقتدار رہے گا لیکن خان صاحب انا کی جنگ میں اتنے گھس چکے ہیں کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ کسی نے بڑا سادہ سا سوال کیا کہ عمران خان کی جھوٹ و کرپشن کی داستانیں صاف عیاں ہیں پھر بھی نوجوان نسل کیوںکر خان صاحب کے دیوانے ہیں؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم اور توجہ طلب ہے۔ اس کی دو اہم وجوہات سامنے آتی ہیں ایک تو خان صاحب ڈیجیٹل دور کی اہمیت و افادیت سے خوب واقف ہیں اور مخالف پر سوشل میڈیا پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں جس سے خان صاحب کی مقبولیت اور عوام میں حکومت کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ دوسری وجہ حکومت اراکین کی اپنی نااہلی سمجھی جاسکتی ہے کہ خان صاحب کے خلاف اتنے پختہ ثبوت ہونے کے باوجود وہ کارروائی تو دور ایک ٹھوس و مضبوط بیانیہ تک نہیں بنا سکے۔ اس لیے حکومت قبل از وقت الیکشن کے لیے تیار نہیں۔ اگر حکومت نے عمران خان کے خلاف اہم ثبوت اکھٹے کرکے ان پر مقدمات درج کراکر انہیں جیل نہ بھجوایا تو انہیں ڈر ہے کہ عمران خان الیکشن بھاری اکثریت سے جیت سکتے ہیں۔ رانا ثناءاللہ نے باہمی مشاورت سے ریفرنس پر ریفرنس دائر کرنے کا مشورہ دیا ہے تاوقتیکہ وہ ان کے خلاف ٹھوس ثبوت اکھٹے کرکے انہیں مچھ جیل بھیج دیں۔ اقتدار کی اس جنگ میں کسی ایک سیاسی جماعت کو ملک کی معیشت کا خیال نہیں۔ ملک ڈیفالٹ کرنے جارہا ہے جبکہ سیانے اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔