میرگل خان نصیر بحیثیت شاعر

تحریر۔ ڈاکٹرزاہد دشتی
تاثیرِ سوزِ دل سے سدا بے قرار ہوں
پروانہ وار شمعِ وطن پر نثار!(نصیر)
آج کا انسان ترقی کے ثمرات سے بہرہ ور ہورہا ہے یا پسماندگی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔دونوں صورتوں میں درست رہنمائی،علم اور فکر کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ جس معاشرے نے جدّت،حقیقت اور سچائی کو مان کر سفر کو آگے بڑھایا تو وہ ترقی کے منازل طے کرتا رہا۔ اگر ماضی کے الجھنوں اور علم اور فکر سے دور یا حقیقتوں سے انکار کرتا رہا تو پسماندگی، غربت، افلاس اور الجھنیں اُن کا نصیب بن گیا۔
انسانی سماج ابتدائی ادوار سے دو ہی سوچ و فکر کا پیروکار رہا ہے۔ ایک وہ جو مختلف عقیدوں کے تحت سورج، چاند، ستارے، آگ،ہوا اور مختلف مافو ق الفطرت قوتوں کی پوجا کرتا رہاہے اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مختلف رسومات کو جنم لیا جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی شکل اور ہیئت بدلتے رہے۔ انہی افراد کے درمیان ایسے بھی لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی سوچ اور فکر سے خداﺅں، دیوتاﺅں، پری، جنوں کی خوف اور خوشنودی کا خیال نہیں رکھا بلکہ انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ان سے گلو خلاصی کر لی۔صدیوں کے سفر کے بعد جب ریاستیں وجود میں آئی تو معاشرہ بھی طبقوں میں تقسیم ہوتا گیاایک وہ طبقہ جو تمام مراعات اور سہولت کا مالک ٹھہرا اور ایک طبقہ محرومی اور استحصال کا شکار ہوتا رہاہے۔
ہر دو طبقے کے لئے ساہوکار یا رہنما پیدا ہوتے رہے ایک اشرافیہ یاسامراج قرار پایا دوسر ا جو مزدوروں، کسانوں اور عام عوام کا نمائندہ بنا وہ ترقی پسند کہلایا۔اشرافیہ اور سامراج نے اپنی مفادات کے تحفظ کے لئے جتھے بنائے اُن کے ذریعے ظلم اور جبر کا بازار گرم کیا تو دوسری جانب جدوجہد،مزاحمت ، علم او رشعور کا پیغام بلند کیاگیا۔
میر گل خان نصیر نے اپنے معاشرے میں ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان بنالی انہوںنے انگریز سامراج کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا انہوں نے ہر وہ طریقہ اور راہ اختیار کیا جس سے نچلے اور پسے ہوئے طبقات کی ترقی اور خوشحالی کا سامان کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے شاعری شروع کی یہ 1930ءکی دہائی تھی جب انہوں نے شاعری شروع کی۔ انہوں نے چار زبانوں میں شاعری کی جن میں بلوچی، براہوئی، اردو اور فارسی شامل ہیں۔ان کے شاعری بالخصوص بلوچی شاعری کے متعلق محققین اور نقادوں نے بہت کچھ کہا ہے۔اس حوالے سے میر گل خان نصیر نے بھی بلوچی شاعری کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ
”بلوچی شاعری کی پشت پر صدیوں کی ایک ادبی تاریخ ہے۔ جس پر تفصیلی بحث تو کجا اگر اجمالی طورپر بھی کچھ کہاجائے تو جلدیں مرتب ہوں۔ لیکن اس وقت چونکہ ہمارے پیش نظر بلوچی کی صرف رزمیہ شاعری ہے اس لئے اس طویل بحث کو سمیٹ کر ہم صرف ان رزمیہ کے بیان پر اکتفا کریں گے جو کسی نہ کسی طرح بلوچستان اور بلوچوں کی تاریخ پر اثر انداز ہوئے ہیں اور جو نہ صرف سبق آموز ہیں بلکہ ہماری قومی تحریک کے منازل کو آج بھی نمایاں اور روشن کرتے ہیں“(1)
جس طرح بلوچی زبان و ادب کا دامن انتہائی وسیع ہے اس میں میر گل خان نصیر،عطا شاد اور دیگر نامور شعراءکا بھرپور حصہ شامل ہیں ۔ موجودہ دور میں جو شاعری ہورہی ہے اس میں ماضی کے عظیم شعراءکا رنگ نمایاں طورپر نظر آتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک روایت ہے کہ جس قوم کے ماضی میں جس مزاج اور طرز کی شاعری ہوئی اُسے اگلی نسلیں اور معاشرہ اُسی رنگ یا اُس میں جدید یت کے رجحانات کے تحت آگے بڑھایا۔تاہم اِس دور کے مقابلے میں ماضی یا یہ کہیں کہ میر گل خان نصیر کا دور ایک ایسا پُر آشوب دور تھا جس میں تعلیمی اداروں کی کمی اور تعلیم کی طرف رغبت کی کمی اور کتب او رشاعری کی ترسیل کے مراحل انتہائی ناپید یا مشکل تھے۔بغاوت اور شعور ی سوچ رکھنے والے افراد یا تو پابند سلاسل کئے جاتے تھے یا اُن کی زندگی کسی اور طریقے سے اجیرن بنا دی جاتی تھی۔ مگر میر گل خان نصیر نے اپنے عوام کو استحصالی طاقتوں کے خلاف اور اپنے آباءاجداد کی آزاد اور خوشحال زندگی کے تصور کو ودیعت کی۔
”میر گل خان نصیر کی شاعری کی کل نو (9) کتب چھپی۔ پانچ اُن کی زندگی میں اور چار بعد اَز مرگ۔ سب سے پہلے ”گلبانگ“ چھپی1952ءمیں اور پھر اپنی نازک خیالی اور عوامی زبان سے بھرپور ”شپ گروک“ انہوں نے 1964ءمیں چھپوائی۔ ”گرند“ 1971ءمیں آئی۔ ”ہون ئِ گوانک“ 1988ءمیں۔ ”پرنگ“ 1988ءمیں اور ”گل گال“ 1993ءمیں ظہور پذیر ہوئی۔ ان کی دو طویل جنگی نظمیں ”داستان دوستین وشیرین“ 1964ءاور ”حملئِ جیند“ 1969ءمیں چھپیں۔ ”ھپت ہیک و جنگانی زراب“ 1990ءمیں چھپی جس میں بھی دو طویل جنگی نظمیں ہیں“(2)
ان کتب اور دیگر شاعری میں گل خان نے جمہوریت، اعلیٰ اخلاقی قدروں اور انسانی عظمت کے لئے شاعری کی اُس دور میں کئی دیگر شعراءبھی موجود تھے مگر چونکہ گل خان نصیر پڑھے لکھے اور سیاسی طورپر بالغ تھے انہوں نے سوویت یونین کے مزدو ر انقلاب (اکتوبر انقلاب) کے اثرات سے بھی خوب واقف تھے اس لئے انہوں نے اپنی شاعری میں ظالم اور جابروں کو للکارتے رہے۔اس سلسلے میں مختصر اً آگے جاکر اُس کے شاعری کے کچھ نمونے آپ کے سامنے پیش کریں گے جس کو پڑھ کر آپ انداز ہ لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح استحصالی قوتوں کے خلاف شعور اُجاگر کیا انہیں بلوچ اور بلوچستان سے ایمان کی حد تک محبت تھی۔ انہیں اپنے خانہ بدوشوں اور مفلوک الحال عوام کی زندگی میں مسائل اور جبر برداشت کرنے کے بجائے انہیں جدوجہد کا راستہ اپنانے کا شعور دیا۔اُن کی شاعری میں ترقی پسندرجحانات کے علاوہ جرات اور بے باکی بہت ہے۔ لال بخش رند نے ”میر گل خان نصیر، شاعر انقلاب“ کے عنوان سے ایک تحریر میں اُن کے شاعری کے مزاج کو بیان کیا ہے جسے نور محمد شیخ نے ”میر گل خان نصیر (شخصیت، شاعری اور سیاست) کے موضوع پر تحریر کر دہ کتاب میں شامل کیا ہے ذرا ملاحظہ کریں۔
”بلوچی زبان کے عظیم انقلابی شاعر میر گل خان نصیر کی شاعری میں جرات اور بے باکی بہت ہے۔ ان کا طبقاتی شعور پختہ او رقومی شاعری بلند آہنگ ہے۔ ان کی شاعرانہ گھن گرج ہر پڑھنے والے کے دل کے تاروں کو چھیڑتی اور احساس کو حیات نو بخشتی ہے۔اُن کی شاعری کا مطالعہ پڑھنے والے میں جوش و جذبے کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔ اس خصوصیت کے علاوہ میر گل خان نصیر اپنے ہم عصر بلوچی شعراءسے یوں بھی مختلف ہیں کہ اُن کی شاعری کی لے سیاسی رنگ و آہنگ لئے ہوئے ہے۔ وہ بلوچی زبان میں عوام اور وطن دوست شاعر ی کے بلندآہنگ نئے طرز کے اولین نقیب ہیں“(3)
اُس عہد میں شعری موضوعات بہت ہی محدود تھے یعنی کہ بلوچ، بلوچستان، غربت، سامراج اور سردار۔۔۔۔۔مگر میرگل خان نصیر نے ان موضوعات میں جدت اور آفاقیت کا آمیزش شامل کیایہ آمیزش گل خان کی ذہنی صلاحیت اور قابلیت کا ثبوت ہے۔ کسی بھی دور کے ادیب، محقق اور شاعر کا مثبت پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے حالات کے علاوہ پوری دنیا میں ہونے والی سیاسی او ر ادبی حالات پر نظر رکھتے ہیں اور ان میں سے اپنے معاشرے سے جڑے حالا ت اور واقعات کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ اس طرح کے بہت ساری مثالیں آج بھی موجود ہے کہ شاعر، مورخ او رادیب حتیٰ کہ سیاست دان نے اپنے معاشرے کے علاوہ دیگر محکوم اور مظلوم اقوام کے لئے آواز بلند کی اور اُن کے موقف کی حمایت کی اور اُن کی جدوجہد اورہمت افزائی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں میر گل خان نصیر بھی ایسے ہی شاعروں میں شامل ہیں جنہوں نے پوری دنیا کے مظلوم اور محکوم اقوام کے لئے بھی آواز بلند کیا۔
میر گل خان نصیر کے زمانے میں بھی علاقائی او ر عالمی حالات روز بروز بدل رہے تھے جن کا اثران کے سوچ اور فکر پر پڑا انہوں نے علاقے میں سفر کے دوران ان اثرات اور مشاہدات کو مزید مستحکم کیا۔نصیر کی عالمی نقطہ نظر کا ذکر عبدالصبور بلوچ نے ”ورثہ“(نصیریات) میں کیا ہے وہ لکھتے ہیں:۔
”نصیر نے یہ گیت اس وقت تخلیق کئے جب روئے زمین پر عہد پارینہ اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی ایک اورعہد اس کی جگہ لینے کے لئے آگے کی طرف رواں تھی۔ تاریخ میں نئے اور بڑے انقلابات جنم لے رہے تھے۔ روس کے عظیم انقلاب کی ہوا تازہ تھی۔ نیند گراں میں ڈوبے ہوئے چینی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ہندوستان میں نئی صبح کی ظہور کے لئے حالات سازگار تھے۔ افریقہ کے لوزدہ سر زمین کے شعلوں نے وہاں کے لوگوں کے دلوں میں شعور کا دیا جلا دیا تھا۔ غلے کی سر زمین لاطینی امریکہ آزادی کے متوالوں کے پیروں تلے لرد ہوچکی تھی۔ انقلابات کے اس دور میں نصیر نے اپنی بے چین دل اور تپتی ہوئی روح کی آواز کو اشعار کے قالب میں ڈھال لیا اور اپنی چھینی گئی آزادی کا مطالبہ کیا او ربلوچوں کو للکارکر انہیں جگایا“ (4)
اس پس منظر میں ذرا ان اشعار کا جائزہ لیں۔
”آگیا وقتِ امتحانِ بلوچ
اب ہے کچھ اور آسمانِ بلوچ
قید سے کیوں انہیں ڈراتے ہو
طفلِ ناداں نہیں جوانِ بلوچ
خوفِ زنداں نہیں بلوچوں کو
جان پر کھیلنا ہے شانِ بلوچ
ملک و ملت کے واسطے قربان
مال و دولت، عزیز و جانِ بلوچ
ہوئے گی آخر ایک دن آزاد
آج گر بند ہے زبانِ بلوچ
زورِ باطل سے دب نہیں سکتا
دیکھ لے! آزما….!! کمانِ بلوچ
کچھ نہیں ہے مگر خدا کے سوا
جب سے قائم ہے آن بانِ بلوچ
رکھ توقع نصیر خالق پر
ہے وہ خلاق پاسبانِ بلوچ“(5)
یا
”ستم! ستم!! یہ ہمیں آج کیوں رلاتے ہیں
دکھے ہوئے دلِ مضطر کو کیوں دکھاتے ہیں
ہمارے شور و فغاں سے جو ہوتے ہیں بیدار
پکڑ پکڑ کر انہیں جیل میں بٹھاتے ہیں
جو پوچھتے ہیں بھئی کس لئے یہ ظلم و ستم
یہ کس جہان کے قانون یوں سکھاتے ہیں
جواب ملتا ہے بس! بس!! زیادہ ٹھیک نہیں
ہمارے عیب یہ غیروں کو جا سناتے ہیں
کرو نہ ہم پہ ستم راہِ راست پر آ?
یہ ٹھیک بات ہے تم کو ابھی بتاتے ہیں
وگرنہ ہم بھی کوئی اور راہ دیکھیں گے
کسی طریق سے امن و رفاہ دیکھیں گے“(6)
یہ ہے گل خان نصیر کی شاعری کا مزاج انہوں نے اس میدان میں اپنے دور کی سچائیوں کوبیان کیا یہی وہ عمل تھا جس میں انہوں نے معاشرے خاص طورپر بلوچوں کے قومی، سماجی اور معاشرتی حالات کو قلم کے ذریعے سامنے لاتے رہے۔انہوںنے شاعری کے ذریعے ان تمام مسائل کو بیان کیا اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے تہذیبی اور ثقافتی رنگوں او ربلوچی شعری اسلوب او رروایات سے آگاہ کرتے رہے انہوں نے نہ صرف اس عمل کو جاری رکھا بلکہ اس میں جدت لاتے رہے اور قوم کو ایک نئی زندگی بخشی اُس کے دور اور بعد کے شعراءنے اسی سخن کو جاری رکھا۔
”میر گل خان نصیر کا ادبی نقطہ نظر ترقی پسندانہ تھا۔ اس لئے وہ ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے نظریئے کے قائل تھے۔ اس لئے انہوں نے اسے سماجی تبدیلی کی جدوجہد او رزندگی کی اصل مسائل کے ساتھ جوڑ دیا۔ ان کے فن کا مقصد زندگی کو خوبصورت بنانا، حرارت بخشنا اور غلاظتوں سے پاک کرنا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کے حصول کی خاطر ادب سے بھرپور کام لیا اور جدید بلوچی ادب میں ترقی پسندانہ رجحانات کو مزید فروغ دے کر اسے ایک نئی جہت عطا کر دی۔ ظلم و جبر کے خلاف بھرپور مزاحمتی شاعری کی اور اپنے فن کے ذریعے ایک تحریک کو جنم دیا۔ اپنے عہد کو متاثر کیا۔ عوام کی روحوں کو گرمایا او ر سماجی تبدیلی کے لئے ان کی قیادت کی“ (7)
میر گل خان نصیر کی اردو شاعری کے نمونے تو آپ نے پڑھ لئے اب ذراا ُن کے براہوئی، بلوچی اور فارسی شاعری کے نمونے بھی پڑھ کر اندازہ لگالیں کے اُن کی شاعری میں کتنی جدت، کتنی ترقی پسندی اور شعوری سوچ موجود ہیں۔
براہوئی(خطاب نوجوانان تے تون۔۔۔چند مصرے)
ہتم نا ہُرک کارواں بسنے
کہ جنت نا پھلاتیان ایسے
کہ گواڑخ دسوک پھل و سنبل ارے
بہشت نا مثالٹ جہاں کل ارے
جہاں ڈکنگا پردہ ٹی رنگ نا
زمینا ارے پھل ہر رنگ نا
کر انصاف اینو نی دا راز تن
کنجشکے نی جنگ ایت شاہین تن
زمانہ نا ڈولاک بدل مسنو
دا مڑداتہ قولاک بدل مسنو“(8)
ترجم۔۔۔۔”دیکھو بہار کا کارواں آیا ہے
جنت کے پھول ساتھ لایا ہے
جن میں گل لالہ، سنبل اور دیگر پھول ہے
جنت نظیر دنیا ہے
دنیا چُپ گئی رنگوں کے پردے میں
زمین پر ہر رنگ کے پھول ہیں
کرو انصاف اس راز کے ساتھ
پرندے کو لڑاﺅ شاہین سے
زمانے کے اطوار بدل گئے ہیں
بہادروں کے قول و قرار بدل گئے ہیں“(9)
بلوچی
”او دربارانی شاعراں بیا ات، بل ات شاہ و وزیرارں
بیا ات گوں ما، براساں! مانی زیملے نوکیں زیراں
سنگت بہ بیت گوں وار و غریباں، بل ات حان و امیراں
مزدوراں گوں، دھقاناں گوں، سرینا بندو بچارت
نوکیں شعرے سنگتاں، نوکیں گٹے بیار ات“(10)
ترجمہ….(درباری شاعرو آﺅ، شاہ و وزیروں کو چھوڑو
ہمارے ساتھ آﺅ، بھائیو! اب ہم نئی طرز لائے ہیں
غریبوں اور بے کسوں کے دوست بنو، خان و امیروں کو چھوڑو
مزدوروں سے، کسانوں سے، کمر کس کے پھر دیکھو
نئی شاعری دوستو، اک نیا آہنگ لاﺅ“(10)
فارسی (پیغامِ عمل)…. (چند مصرعے)
”چشم بالا کرد شاہے داستان
صورتے از مقبلانے پاستان
گفت اے جویندہِ رازِ بلوچ
حدف و صوتت نغمہِ سازے بلوچ
چیز کے گفتی تو از قوم و وطن
آتشے افرو ختنی اندر بدن“(9)
نتائج:۔
میر گل خان نصیر ہو یا بلوچ سماج کے دیگر مزاحمتی شاعر انہوں نے کبھی بھی درباری شاعری نہیں کی بلکہ انہوں نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود حق اور سچ کا ساتھ دیا۔جہاں تک میر گل خان نصیر کی شاعری اور اُس دور کے حالات کی بات ہے تو انہوں نے دونوں ادوار دیکھے انگریز وں کے زیر نگین زندگی گزاری اور بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد کے بھی زندگی کے تجربات ۔۔۔۔ انہوں نے ہر دور میں اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔ دونوں ادوار میں انہیں سچائی اور حقیقت کا بیان کرنے کے پاداش میں قید و بند اور اذیتیں سہنا پڑا۔مگر یہ تو حقیقت ہے کہ جب آپ سچائی اور حقیقت کا ساتھ دیں گے تو آپ کے لئے مشکلات ضرور پیدا ہوں گے۔مگر چونکہ زمانہ اس بات کا گواہ ہے کہ ہر دو رمیں کچھ ایسے دیوانے ضرور پیدا ہوئے جنہوں نے مظلوموں اور محکوموں کے حقوق کے لئے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔میر گل خان نصیر کوترقی پسند شاعر کی حیثیت سے زمانہ آج اور آنے والی صدیوں میں بھی یاد کرتا رہے گا۔ آج کے شاعری کے موضوعات حسن، زلف کے مقابلے میں میر گل خان نصیر نے ’قوم دوستی وطن دوستی، قبائلیت بے زاری، سردار دشمنی، حریت پسندی، رجائیت، عوام دوستی، سیکولر فکر، سماجی حقیقت نگاری، آفاقیت کے موضوعات کے تحت شاعری کی۔
رہیں گے ہم گرفتارِ بلائے آسماں کب تک
جلائیں گی ہماری جھونپڑی کو بجلیاں کب تک
حوالہ جات ۔
1۔ دشتی زاہد حسین/ بلوچ حامد علی ”میر گل خان نصیر ”شاعر، مورخ، صحافی، سیاست دان“2014ءگل خان نصیر چیئر یو او بی، ص۔55
2۔میر،عابد ”نصیر خوش کلام“ 2015ئ”میر گل خان نصیر چیئر، جامعہ بلوچستان، کوئٹہ ص 88۔
3۔شیخ، نور محمد”میر گل خان نصیر، شخصیت، شاعری اور سیاست“ 1993ءعوامی ادبی انجمن کراچی ص۔60
4۔ بلوچ، عبدالصبور”ورثہ“ (نصیریات) 2005ئ، بلوچی اکیڈمی کوئٹہ،ص23۔
5۔مری شاہ محمد، ڈاکٹر ”کاروان کے ساتھ“ 2015ئ،گل خان نصیر چیئر جامعہ بلوچستان کوئٹہ، ص۔34-35
6۔ایضاً ص 36-37
7۔بادینی، یار جان/بلوچ،طاہرحکیم ”میر گل خان نصیر:زندگی اور فن“ 2014ئ، بلوچی لبزانکی دیوان، کوئٹہ ص 2
8۔ گچکی، یوسف عزیز ”چِرک“ براہوئی ادبی سوسائٹی پاکستان کوئٹہ،2021ءص۔21-22
9۔مری، ڈاکٹر شاہ محمد”کاروان کے ساتھ“ 2015ئ،گل خان نصیر چیئر جامعہ بلوچستان کوئٹہ، ص۔241
10۔شیخ، نور محمد”میر گل خان نصیر، شخصیت، شاعری اور سیاست“ 1993ءعوامی ادبی انجمن کراچی ص۔63

اپنا تبصرہ بھیجیں