بلوچستان یونیورسٹی، مالی مسائل اور ان کا حل

تحریر: عبدالباقی جتک
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یونیورسٹی آف بلوچستان اس نہج پر کیوں پہنچی کہ وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں تک دینے سے قاصر ہے، وجوہات جانناناگزیر ہے، اس وقت ملکی اقتصادی حالات دگرگوں ہیں جسکے منفی اثرات سے کوئی شعبہ محفوظ نہیں، اس سلسلے میں اعلیٰ تعلیم شدید متاثر ہوا ہے اور جامعہ بلوچستان مکمل طور پر اسکی لپیٹ میں آچکی ہے، نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ ملازمین کو دو ماہ کی تنخواہ ادا نہیں کی گئی، یوں تو ملک کی بیشتر یونیورسٹیزمالی مشکلات کا سامنا کررہی ہیں لیکن بلوچستان یونیورسٹی کے مالی حالات انتہائی ابتر ہیں اور غالباً یہی حالت بیوٹمز کے بھی ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد مرکزی حکومت نے HEC کی فنڈنگ میں پچاس فیصد سے زائد کی کٹوتی کی گئی ہے جو 110 ارب روپے سے گھٹ کر 58 ارب روپے رہ گئے ہیں جس سے جامعات کو تنخواہوں کی ادائیگی اور تحقیق کے میدان میں مشکلات پیش آرہی ہیں جو کہ دور جدید میں انتہائی کم ہے اور ہمسایہ ممالک اس سلسلے میں ہم سے آگے ہیں۔ ایچ ای سی جامعہ بلوچستان کو سالانہ 98 کروڑ روپے دے رہی ہے جس سے 1600 ملازمین اور 700 پنشنرز کو پینشن دینا ادرہ کیلئے مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
اٹھارویں ترمیم (2010) کے بعد اعلیٰ تعلیم صوبائی سبجیکٹ بن گیاہے لیکن صوبائی حکومتوں اور بلوچستان بیوروکریسی کی عدم دلچسپی کے باعث بلوچستان ہائرایجوکیشن کمیشن جیسا اہم ادارہ وجود میں نہیں لایا جاسکا، حالانکہ 2010 کے بعد ساتویں NFC ایوارڈ کے تحت بلوچستان DIVISIBLE POOL سے خاطر خواہ بجٹ وصول کررہا ہے اور مالی وسائل بھی ماضی کے مقابلے میں بڑھ گئے لیکن فنڈز کا درست استعمال اور منصفانہ و صحیح تقسیم و مالی نظم و ضبط کے فقدان کی وجہ سے اعلی تعلیمی ادارے خصوصاً بلوچستان یونیورسٹی جیسے اداروں پر مالی مشکلات کا بوجھ بڑھ گیا، باوجودیکہ 17-2016 سے تعلیم کا صوبائی بجٹ 24 فیصد مختص کیا گیا جو تقریباً 83 ارب روپے بنتا ہے، جسمیں سے اعلیٰ تعلیم کیلئے صرف 2.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو صوبے کی 11 یونیورسٹیوں کیلئے نامناسب اور انتہائی کم ہے اور اسمیں سے جامعہ بلوچستان کا حصہ 38 کروڑ روپے رکھا گیا ہے، تعلیم کا بجٹ صوبے کے بجٹ کا کل حجم میں سے بمشکل 0.1 فیصد بنتا ہے، دوسری جانب ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ بلوچستان میں 50 فیصد سے زائد اسکول چار دیواری، صاف پانی، بیت الخلا حتیٰ کہ اساتذہ سے بھی محروم ہیں بصورت دیگر اخلاص اور نیک نیتی سے ان پیسوں سے صوبے میں بین الاقوامی معیار کے اسکول اور کالج بنائے جاسکتے ہیں اور یونیورسٹیوں کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے کیلیے اس رقم کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ مزید برآں بلوچستان میں افسر شاہی و حکومتوں (موجودہ وسابقہ) کی نااہلی کیوجہ سے گزشتہ چند سال سے 40 سے 50 ارب سالانہ لیپس ہوکر واپس مرکز کو جارہے ہیں، حالانکہ اس رقم کو مناسب منصوبہ بندی سے صوبے کی اعلیٰ تعلیم کے مراکز کیلئے استعمال کیا جاسکتا تھا۔
یونیورسٹی آف بلوچستان کے اساتذہ، آفیسران اور ملازمین اپنی تنخواہوں اور جائز بنیادی حقوق کے حصول کیلئے احتجاج کا ہر جائز اور قانونی طریقہ استعمال کیا لیکن بجائے تنخواہوں کی ادائیگی کے معمولات کو بگاڑکیطرف لے جایا گیا۔ اس سلسلے میں گرینڈ ڈائیلاگ کا انعقاد بھی کیا گیا جسمیں قومی و صوبائی پارٹیوں کے نمائندوں نے مرکزی و صوبائی حکومت کو مالی مشکلات کے حل پر زور دیا۔ اور ساتھ ساتھ علامتی طور پر اپنے کتب فروخت، بھیک مہم اور سبزی بیچنے جیسے احتجاج کو بھی ریکارڈ کروایا۔ عدالت و حکومت بلوچستان کے دروازوں پر بھی دستک دی گئی لیکن مسئلہ حل نہ ہوسکا حتیٰ کہ اعلیٰ عسکری قیادت سے اساتذہ کا ایک وفد ملاقات کرکے مالی و انتظامی مسائل و بے قاعدگیوں کی بابت بات بھی پہنچائی مگر معاملات ہنوز جوں کا توں ہیں اور ادارہ دو مہینوں سے مکمل طور پر بند ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں طلباء کا نہ صرف قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے بلکہ انکا مستقبل بھی تاریکی میں ڈوبتا دکھائی رے رہا ہے جسکو بچانے کیلئے سنجیدہ سیاسی و حکومتی حلقوں کی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔
مالی و انتظامی مسائل کا حل

  1. جامعہ بلوچستان کو تنخواہوں و پنشن کی ادائیگی کیلئے فوری طور پر 2 ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج دے کر درس و تدریس کے لیے کھول دیا جائے۔ HEC بھی ایک ارب فوری جامعہ بلوچستان کو کھولنے کیلیے جاری کرے۔
  2. جلد سے جلد صوبائی HEC کا قیام عمل میں لاکر آنیوالے بجٹ میں 10سے 15 ارب روپے اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص کیا جائے۔
  3. کفایت شعاری (OSTERITY MEASURES) کے زریں اصولوں پر عمل کرکے صوبے کے ایسے تمام محکموں کو ختم کیا جائے جس سے عوام کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ اسطرح سالانہ تقریباً 3سے4ارب روپے کا بچت کیا جاسکتا ہے اور یہ رقم اعلیٰ تعلیم کیلئے استعمال کیا جائے۔
  4. وزراء اور سرکاری افسران کی شاہ خرچیوں کو کم کرکے معقول رقم بچائی جاسکتی ہے اور اسے طلباء اور اعلیٰ تعلیم کی بہتری کیلئے خرچ کیا جائے۔
  5. سالانہ ترقیاتی اسکیموں کی درست اور دیرپا منصوبہ بندی کے تحت سیاسی نوعیت کے غیر ضروری سکیموں کا PSDPسے خاتمہ کرکے بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کیلئے مالی مدد و تعاون کو ترجیح دی جائے۔
  6. درجن بھر غیر ضروری مشیروں اور سپیشل اسسٹنٹس کی تعداد میں کمی کرکے ایک ماہر تعلیم کو اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی بہتری کیلئے فوری اور دیرپا پالیسی مرتب کرنے کیلئے رکھا جائے۔
  7. حکومت بلوچستان کی قائم کردہ یونیورسٹیز ریفارمز کمیٹی کو وسعت دے کر اسمیں اساتذہ کرام کو شامل کرکے یونیورسٹیوں میں مالی اصلاحات کا نفازاوراطلاق یقینی بنایا جائے۔
  8. طویل مدتی پالیسی مرتب کرکے ریکوڈک اور گوادر (CPEC) کے محصولات میں سے اعشاریہ 1 سے اعشاریہ 2 فیصد کا ایک انڈومنٹ فنڈ بنایا جائے اور 50 فیصد گوادر و رخشان ڈویژن اور 50 فیصد بقیہ بلوچستان کے طلباء و اساتذہ کیلیے بلوچستان برائٹ اسکالر شپ اسکیم کا انعقاد کیا جائے اور ساتھ ساتھ اس رقم میں سے ایک مخصوص حصہ تحقیق کیلئے مختص کیا جائے۔
  9. ایک اعلیٰ سطحی کمیشن کا قیام عمل میں لاکر ایچ ای سی اور سروس رولز کے خلاف حاصل کیے گئے یا عطا کردہ فوائد کا خاتمہ اور گزشتہ 10 سال کا انتظامی و اکیڈمک آڈٹ کرایا جائے۔
  10. صوبے کی تمام یونیورسٹیز خصوصاً جامعہ بلوچستان میں میرٹ اور قوانین کے مطابق نظم و ضبط پر سختی سے عمل کروایا جائے جس کی مسلسل پامالی سے ادارہ زبوں حالی کا شکار اورمعیار تعلیم گررہا ہے مزید یہ کہ انتظامی گرفت کمزور پڑگئی ہے۔
  11. بلوچستان یونیورسٹیز ایکٹ 2022 میں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ضروری ترامیم کرکے اساتذہ، آفیسران اور طلباء یونین کو منتخب نمائندگی کا حق دیا جائے جو اس دانش گاہ کے مین سٹیک ہولڈرز ہیں۔
    یونیورسٹیاں چونکہ کمانے والے ادارے نہیں ہوتے بلکہ ملک و قوم کو قابل انسانی وسائل فراہم کرتی ہیں جو صوبہ اور ملک کے نظم و نسق کو چلاتے اور سنبھالتے ہیں اور یہی ادارے بہتر مستقبل کا ضامن ہوتی ہیں اس لیے مرکزی و صوبائی حکومت میں شامل تمام پارٹیاں اپنا اہم کردار ادا کرکے جامعہ بلوچستان کو مالی مشکلات سے نکالنے میں مدد کرکے صوبے کے ہزاروں طلباء کا مستقبل بچائیں اور اساتذہ کی عزت و احترام کو بحال کریں بقول بینجمن فرینکلن
    تعلیم پر سرمایہ کاری کے بدلے ہی مستقبل میں سب سے زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں