نواب خیر بخش خان مری سے پہلی ملاقات؟

تحریر: سید امان اللہ شادیزئی
جس دور کی بات کرنا چاہتا ہوں وہ میرے کالج کے ابتدائی سال کا دور تھا اور میرے ایک دوست فیاض علی نے مجھ سے ایک دن پوچھا کہ آپ اخبار پڑتے ہیں اس سے کہاں ہاں پڑھتا ہوں جنگ اخبار میں ٹارزن کہانی پڑھتا ہوں اور روزنامہ انجام میں بہرام ڈاکوں کی کہانی پڑھتا ہوں اس نے پوچھا کہ کیا اور چیزیں بھی پڑھتے ہو اس سے کیا نہیں اس نے کہا خبریں پڑھا کریں اس طرح اخبار میں خبریں بھی پڑھنا شروع کردیں ۔میرا دوست انگلش فلموں کا شوقین تھا اس طرح اس کے ساتھ ان فلموں کو دیکھنا شروع کیا اور ایگل سینما میں انگلش فلمیں دیکھتا تھا اسطرح بعض بہت اچھی فلمیں دیکھیں ،ہفتہ میں یا دو ہفتہ میں انگریزی فلمیں دیکھتا تھا جو تاریخی بھی تھیں اور بعض انگزیزی ناولوں پر بھی فلمیں بنائی گئیں اس کا کبھی آگے چل کر ذکر کروں گا میں اب جس دور کا ذکر کرنا چاہتا ہون وہ میرے کالج کے بالکل ابتدائی دور کا تھا گرمی کا موسم تھا فلم کے درمیان میں وقفہ ہوتا تھا اس عرصہ میں لوگ چائے پیتے تھے اور آرام کرلیتے تھے ،گپ شپ مار لیتے ایک دن فلم کے وقفہ کے درمیان گیلری سے باہر نکلا تو میرے لئے بڑ ا دلچسپ منظر تھا ایگل سینما کے باہر گیٹ کے سامنے والے حصہ میں کچھ لوگ کھڑے تھے یہ کوئی 4یا5لوگ تھے دن میں ایک انگریز خاتون بھی کھڑی تھی قد اس کا لمبا تھااور اس کے ساتھ ایک خوبصورت شخص بھی تھا اور یہ انگریزی میں باتیں کررہے تھے۔
ان کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا ہے میری توجہ ان پر تھی درمیان میں ایک شخص ملیشاءکے کمرے میں تھا دراز قد تھا اور خوب صورت تھا ان سب کو حیرت سے یکھ رہا تھا خوبصورت شخصیت ،بلوچی چپل پہنے ہوئے تھے میں کبھی اس کو دیکھتا اور کبھی اس کے سادہ لباس اور کبھی اس کی انگلش میں باتوں کی طرف متوجہ ہوتا ایک شخص قریب کھڑا تھا اس سے پوچھا کہ یہ کون ہے اس نے کہا یہ نواب خیر بخش خان ہے جو اپنے قبیلے کا سردار ہے اس طرح پہلی بار نواب مری کو دیکھا اس کے بعد ان سے گورنمنٹ ڈگری کالج مختلف مواقعوں پر دیکھتا ایک دن عصر کے بعد کالج میں فنکشن تھا اور نواب مری اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ نوجوان بلوچی چاپ،(ڈانس) کررہے تھے اور ڈھول کی آواز پر گونج دار تھی اور تالیاں بج رہی تھیں اور نواب مری بڑے اطمینان سے اس سے لطف اندوز ہورہے تھے اور بڑے اطمینان سے بیٹھے ہوئے تھے یہ منظر بھی حیرت انگیز تھا یوں نواب مری سے تعارف ہوگیا نواب مری تو کتنے لڑانے کابڑا شوق تھا میر ا گھر میکانکی روڈ پر تھا یہ گھر ہزارہ امام بارگاہ اور اسلامیہ ہائی اسکول کے درمیان میں تھا ایک دن گھرسے باہر کھڑا تھا نواب مری نے اپنی جیپ روکی اور اس سے اتر گئے وہ ایک بلٹیر یا کتےکو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے کتے کا مالک ایک قندہاری تھا اور وہ کتوں کا شوقین تھا اور ان کو لڑاتا تھا قندہاری سے واقفیت تھی اس لئے قریب ہوگیا نواب نے کہا اس کتے کو بیچتے ہو اس نے کہا نہیں مجھے اس کا بڑا شوق تھا نواب کی دلچسپی بڑھ گئی یعنی اس نے جب نواب کو دیکھا اور اس کے شوق کو دیکھا تو اس نے کتے کا پٹہ ہاتھ سے لیا اور نواب کو دے دیا۔نواب نے قیمت دینے کی کوشش کی اس نے پیسے لینے سے انکار کردیا اور پھر نواب نے اس کا شکریہ ادا کیا اور س کے گارڈ نے کتے کو اٹھا لیا اور جیپ میں رکھ لیا اس منظر کو بڑے شوق سے دیکھ رہا تھا مالک نواب کو نہیں جانتا تھا لیکن اس کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کوئی بڑا شخص ہے اس کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اس نے بغیر قیمت کے دے دیا۔
نواب مری کی شخصیت بڑی پرکشش اور دلچسپ تھی یوں اب نواب کو دوسری بار دیکھا ۔1970 کے انتخابات میں نواب مری کا مسلم لیگ کے جمالی خاندان کے فرد سے مقابلہ تھا اور نواب نے اس کو بڑے اکثریت سے شکست دی اور نواب خیر بخش خان مری اسمبلی کے ممبر بن گئے 1970سے 1972کا دور نواب کے لئے مشکل کا دور شروع ہوچکا تھا بھٹو اور نیپ کی کشمکش شروع ہوچکی تھی جب نواب مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی سے اجلاس میں شریک ہوئے تھے مشرقی پاکستان کے ممبران نواب کی شخصیت کو دیکھ کر متاثرہوئے1972ءنواب کی شخصیت کا عروج تھا نواب مری سے جب تعلقات بن گئے تو ان سے ان موقعوں پر ضرور ملتا جب وہ ملک سے باہر جاتے تو واپسی پر خود ملتا میرے ساتھ مرزا رشید بیگ‘ماجد فوز‘صباءالدین ضیائی میرے ساتھ ہوتے تھے انہوں نے کہا جب ہم بھٹو کے ساتھ چین گئے تو ہمارا شاندار استقبال کیا گیا وہ نعرے لگا رہے تھے اورکہہ رہے تھے ماﺅ زے تنگ زندہ رہے نواب نے کہا میں ایک نعرے لگارہا تھا اس کے قریب گیا اور اس سے پوچھا جب تم خدا کو نہیں مانتے ہو تو یہ دعا کیسے مانگ رہے ہو ماﺅزے تنگ زندہ رہے ،اس نے منہ کھوے حیرت سے دیکھا اور جواب نہ دے سکا جب نواب مری یہ بتا رہے تھے ہن رہے تھے یہ واقعہ ہمیں چین سے واپسی پر سنا رہے تھے جب نواب مری‘ عطاءاللہ مینگل اور بھٹو کے درمیان اختلافات ہوگئے تو میر غوث بخش بزنجو اس کے حق میں نہیں تھے اور وہ چاہتے تھے کہ حکومت سے ٹکرانے کی پالیسی درست نہیں تھے ہمیں مل کر کام کرنا چاہےے ۔میر غوث بخش بزنجو نے کہا وہ شرقی پسند ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہےے ٹکراﺅ کی پالیسی درست نہیں ہے نقصان ہوگا۔
سردار مینگل فون پر بھٹو سے بہت سخت جملوں میں گفتگو کرتے تھے بھٹو میر صاحب سے کئی بار گلہ کیا میر غوث بخش بزنجو نے کہا کہ تصادم سے بچنا چاہےے نواب خیر بخش نے کہا کہ اگر متصادم کی طرف گئے تو پھر اس بات چیت بالکل نہیں کروں گا صلح بھی نہیں کرونگا۔بزنجو نے کہا کہ ہمیں تصادم سے بچناہے مگر مینگل کی پالیسی سے نتائج بہت تکلیف دہ نکلے اور ہزاروں مریوں نے افغانستان کارخ کیا ۔شیر محمد مری نے بھی وہاں پناہ لے لی اور پھر نواب مری سے راستہ جدا ہوگئے نواب مری اور مینگل کے اختلافات نواب بگٹی سے اختلافات پیر اس تصادم کے نتائج بڑے خوفناک نکلے اور ابھی تک بلوچستان اس بہنور سے نکل نہیں سکا
نواب خیربخش خان سے ایک دلچسپ اور تاریخی ملاقات تھی جو نواب عبدالقادر کاسی کے بنگلہ میں ہوئی جس میں انہوں نے مجھے کہا کہ نواب مری بھی آرہے ہیں میرے ساتھ رشید بیگ ،صباءالدین ضیائی،سید حسام الدین بھی تھی یہ بڑی دلچسپ ملاقات تھی جو مغرب کے بعد کھانے کے بعد شروع ہوئی ،مرزا رشید بیگ نے نواب مری سے کہا ملک میں بڑی بیداری آگئی ہے نواب نے اتنا پوچھا یہ بیداری سے آپ کی کیا مراد ہے اور پھر خود مسلسل4گھنٹے سے زیادہ اس ایک نکتہ پر بولتے چلے گئے ،رشید بیگ میرے ساتھ بیٹھے تھے ان کے ہاتھ کو دبایا اور اشارہ کیا کہ نواب کو بولنے دے اور سوال نہ کریں تو ان کی فلسفانہ گفتگو سنتے رہے۔
پھر جب اختلافات مچھ جیل سے شروع ہوئے اس نے ان سب کو تتر بتر کردیا ور دوری اتنی بڑھ گئی کہ پھر ماضی خوشگوار دور میں خواب میں نہیں لوٹ سکے اور افغانستان میں کمیونسٹ سویت یونین کو شکست ہوئی اور اس کے بعد سب خواب ہوا میں خزاں کے پتوں کی طرح بکھر گئے اب صرف کہا نیاں رہ گئی ہیں اور اب جو قوم پرست رہ گئے ہیں وہ مسلم لیگ کے دربار میں دست بستہ کھڑے ہوئے ملیں گے کیا عبرتناک انجام ہوا ان سب کا۔