سعودی خواتین کے لیے نقاب کی جگہ ماسک

شاید ایک عرب شاعر جو تقریباً 1300 سال قبل اموی دور میں رہتے تھے، اپنی شاعری کرونا (کورونا) کی موجودہ وبا کے بعد تبدیل کرلیتے۔ان کا مشہور مصرعہ ‘سیاہ پردے کے پیچھے موجود ملیحہ سے کہو’ یوں بدل جاتا

سعودی عرب میں فیشن ڈیزائنرز نے اب کھلتے رنگوں سے ماسک ڈیزائن کرنا شروع کردیے ہیں۔ ان پر سنہری اور چاندی جیسی کڑھائی کی فرمائش بھی کی جاتی ہے۔

سعودی فیشن ڈیزائنرز کے بقول خواتین اسے نقاب کا متبادل بھی سمجھنے لگی ہیں۔
سعودی مصنف اور قانونی محقق علی العلويط سمجھتے ہیں کہ ماسک نقاب کی جگہ نہیں لے گا۔ ان کے خیال میں ‘ماسک پہننا عارضی ہے اور کرونا کی وبا ختم ہونے کے بعد یہ معمول ختم ہوجائے گا۔’

لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ کرونا نقاب کے بارے میں بہت سے معاشرتی رویوں کو بدل دے گا۔

اگر لمبی مدت تک مختلف اور خوبصورت اشکال والے یہ ماسک پہننا پڑے تو کیا یہ خواتین میں مقبول ہو کر ایک ‘مذہبی رواج’ یا مقبول ثقافت نہیں بن جائیں گے؟

علی العلويط اس مفروضے کی بھی تردید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وقت کسی معاشرے میں لوگوں کا نظریہ یا ثقافت تشکیل دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ نسل در نسل منتقل ہوا تو شاید کوئی ایسا امکان پیدا ہو سکے، جس کے فی الوقت کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

آج کے سعودی عرب میں نقاب کی پابندی متنازع بات نہیں ہے۔ پردہ کرنا، نہ کرنا، سر پر سکارف اوڑھنا یا ایسی ترجیحات نہ رکھنا حکومت کی طرف سے کچھ لازم نہیں ہے۔

حکام خواتین کو اس بات کا پابند نہیں کرتے کیونکہ یہ معاشرے کی آزادی پر منحصر ہے۔ یہ بات سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مارچ 2018 میں امریکی چینل ‘سی بی ایس’ پر ایک پروگرام ’60 منٹ’ میں دوران گفتگو بھی کہی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘ملک کے قوانین خواتین کو کالی چادر یا سر پر کالے رنگ کا سکارف پہننے پر واضح طور پر پابند نہیں کرتے۔’

انہوں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ خواتین پر کوئی بھی مہذب لباس پہننے اور ان کے احترام اور شائستگی کے تناظر میں چھوڑا گیا ہے۔

کرونا کے بعد خواتین کے لباس میں میچنگ ماسک تب آیا جب انہوں نے دنیا بھر کی متعدد اہم عہدوں پر فائز خواتین کو لباس کی مناسبت سے ماسک پہنے ہوئے دیکھا۔

جیسے امریکی ہاؤس کی اسپیکر نینسی پیلوسی، سلواکیہ کی صدر سوزن کپوٹووا یا اس طرح بہت سی خواتین میڈیا میں مختلف مواقع پر لباس سے میچنگ کے ماسک پہنے دکھائی دیں۔ کچھ فیشن ڈیزائنرز کے لیے یہ سنہرا موقع تھا، انہوں نے اسے عالمی سطح پر ایک فیشن ٹرینڈ بنانا شروع کر دیا۔
تو پھر ایسے معاشرے میں جہاں چہرہ ڈھانپنا پہلے ہی ثقافت کا حصہ تھا، کیا وہاں یہ فیشن جلدی نہیں اپنایا جائے گا؟

عریج المقبل جو برانڈ ‘ماي كوين للأزياء’ کے مالک ہیں اور فیشن کی دنیا میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے فیشن میں شامل ہوگا۔ ہمارے پاس سلور اور سنہری کڑھائی شدہ خصوصی ڈیزائنوں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ کئی لوگ ماسک پر خطاطی کے انداز میں کڑھائی سے اپنا نام لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ 20 ریال سے شروع ہوکر 50 ریال (15-5 امریکی ڈالر) تک قیمت کے ہوتے ہیں۔
امل الاحمدی جن کی عمر 33 برس ہے، وہ کہتی ہیں کہ ثقافتی طور پر کہیں بھی باہر جاتے ہوئے جیسے تفریحی مراکز ہوں، بازار ہوں یا کوئی سماجی موقع، تو وہ نقاب پہنتی تھیں۔ یہ ماسک ان کے اور ان کی دوستوں کے لیے نقاب سے زیادہ آرام دہ ہیں، لیکن ان کے مطابق کچھ خواتین ماسک پہننے کے باوجود بھی نقاب کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔

عالمی برانڈ لوئی وٹاں کی سابق مشیر، فیشن ڈیزائنر اور سٹائلسٹ ہند السیف کا کہنا ہے کہ ‘نقاب کے ساتھ پردے کی روایت میں تبدیلی ایک قابل غور چیز ہے۔ ‘میں نے اس پر غور کرتی ہوں تو مجھے یہ بلاشبہ ذاتی آزادی کی ایک شکل لگتی ہے۔’

‘مجھے لگتا ہے کہ یہ مغرب میں زیادہ فیشن بن جائے گا کیوں کہ وہاں موجود سعودی خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی نقاب پہنتی ہے۔’

انہوں نے کہا کہ سعودی فیشن ڈیزائنر بشار الکنیبیت کا خیال ہے کہ اگر ملک میں حالات کرونا کے بعد معمول پر آتے ہیں اور معاشرتی تقاریب کا سلسلہ بحال ہوتا ہے تو خواتین میں ماسک پہننا زیادہ خوبصورت روایت ہوگی۔ خاص طور پر اس لیے کیونکہ وہ ایک روایت پسند معاشرے میں رہتی ہیں۔ ‘کرونا سے پہلے اس طرح کے ماسک فیشن میں شامل تھے، ریاض آرٹ فیسٹیول میں بھی کئی خواتین نے پہنے تھے۔’

اس سوال کے جواب میں کہ اگر صرف نقاب پہنا جائے تو کیا ماسک سے منہ ڈھانپنا پھر بھی ضروری ہو گا؟ سعودی وزارت صحت اور دیگر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر نقاب میں کپڑے کی ایک سے زیادہ تہیں ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں