تاریخی ایکتا
تحریر: انور ساجدی
وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو تابڑ توڑ انٹرویو دئیے ہیں۔اپنے کچھ انٹرویوز میں انہوں نے نادانستگی ،معصومیت یا جان بوجھ کر پاکستانی عوام کے سامنے یہ مسئلہ رکھا کہ بلوچ ناراض نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی شناخت کے ساتھ اپنی آزاد ریاست بنانا چاہتے ہیں جس دن ماہ رنگ بلوچ کا قافلہ ریاستی طاقت کا مقابلہ کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچا تھا کاکڑ صاحب بہت غصے میں تھے وہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنا اصل موضوع بھول گئے اور انہوںنے بلوچ تحریک پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور پاکستانی عوام پر زور دیا کہ وہ بلوچوں سے دور رہیں جو ان کے وطن کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔چونکہ انوارالحق کے خطاب اور انٹرویوز کروڑوںپاکستانیوں کی نظر سے گزرے اس لئے پنجاب کے عوام کو پہلی مرتبہ مسئلہ کی سنگینی کا پتہ چلا ورنہ اس سے پہلے نیشنل ایکشن پلان کے تحت میڈیا کو پابندیوں اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے بلوچ تنظیموں کی خبروں پر پابندی کے بعد پنجاب کے عوام تک بلوچستان کی خبریں نہیں پہنچ رہی تھیں اور وہ صحیح صورتحال سے آگاہ نہیں تھے۔جناب انوارالحق کاکڑ کا شکریہ کہ انہوں نے آسان زبان میں پاکستان کے عوام کو سمجھا دیا کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ کیا ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں۔ اسلام آباد میں بلوچ ماﺅں بیٹیوں اور بچوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ ظاہر کرتا تھا کہ اس ریاست میں بلوچوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ان کا وجود ان کی زندگیاں اہمیت نہیں رکھتیں۔جب قاضی فائز عیسیٰ نے خبروں پر پابندی لگائی تھی تو اس وقت سوشل میڈیا کا استعمال عام نہیں تھا گاہے بگاہے لوگ اس پاور فل میڈیم کا استعمال کرتے تھے لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قیام کے بعد سوشل میڈیا کے استعمال نے طوفان برپا کر دیا۔کمیٹی کے قیام میں بانک فریدہ بلوچ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے بلوچوں کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن گیا۔وقتی سیاست سے دور پارلیمانی مراعات سے پرے یہ بنیادی انسانی حقوق کی تحریک ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ کئی سال پہلے یہ تجویز دی گئی تھی کہ انسانی حقوق کی بنیاد پر ایک تحریک کی ضرورت ہے جوپرامن مزاحمت کا راستہ اختیار کر کے دنیا کے سامنے اپنے مسائل پیش کرے۔بلاشبہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے یہ ٹاسک بخوبی پورا کر دیا ہے اور بلوچوں کے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ اس تنظیم کو بہت ہی فعال باصلاحیت اور باکردار قیادت میسر ہے۔ماہ رنگ بلوچ نے تربت سے اسلام آباد تک ایک بے مثال مارچ کی قیادت کر کے اپنا لوہا منوایا اور ان کی جو کامریڈ سمی دین اور بیبو کی صورت میں ہیں وہ بھی قوم کی قیادت کرنے کی صلاحیت سے معمور ہیں۔جب اسلام آباد کے حکمرانوں نے بلوچ ماﺅں بیٹیوں اور بچوں کو دھتکارا تو اپنے الوداعی خطاب میں ماہ رنگ نے کہا کہ حکمرانوں نے ہم سے کہہ دیا ہے کہ واپس بلوچستان جاﺅ۔ سو ہم اپنے وطن اور اپنی گلزمین بلوچستان جا رہے ہیں۔ہم اپنے عوام کو بتائیں گے کہ ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوا اور ہمارے بارے میں ان کے ارادے کیا ہیں۔چنانچہ یہ قافلہ واپس کوئٹہ پہنچا تو شال پہنچنے پر ناقابل یقین مناظردیکھنے کو ملے۔ایسا لگتا تھا کہ سارا شال خیرمقدم کے لئے امڈ آیا ہے۔بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے ہزاروں لوگ جمع تھے۔بلا کا ڈسپلن تھا۔ماہ رنگ نے جو خطاب کیا وہ تاریخی خطاب تھا۔انہوں نے کہا کہ دارالحکومت میں ہمارے سروں کے دوپٹے کھینچے گئے کپڑے تار تار کئے گئے۔ہمیں ہر طرح سے تضحیک اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اس تاریخی موقع پر لوگوں نے ماہ رنگ کے سر کو بلوچی دستار سے سجایا۔یہ دستار اس سے پہلے تاریخ میں خان بانڑی اور گل بی بی نے اپنے سروں پر رکھا تھا۔یہ ایک علامتی عمل ہے یعنی دستار اس سر پر رکھا جاتا ہے جو قیادت اور رہنمائی کے قابل ہو۔نہ صرف یہ بلکہ دستار پہننے والی شخصیت اس دستار کی فضیلت اور اہمیت سے واقف ہو۔
عام بلوچوں کو یہی توقع ہے کہ ماہ رنگ یہ دستار گرنے نہیں دے گی بلکہ سرکٹوا سکتی ہے لیکن جھک نہیں سکتی۔یہ بہت بڑی توقع امید اور مان ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ماہ رنگ ہر طرح کے حالات وواقعات کے باوجود ثابت قدم رہے گی۔بلوچ دعا کرتے ہیں کہ خدا اس سر کو سلامت رکھے لیکن جنگ بہت بڑی ہے یہ بہت قربانیاں مانگتی ہے۔اس راہ میں ہزاروں لاکھوں سر جاسکتے ہیں لیکن آنے والے لوگ اگر اس جدوجہد کو برقرار رکھیں تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
مجھے معلوم نہیں کہ ماہ رنگ نے میڑھ اسلام آباد لے جانے کی بات کی تھی کہ نہیں کیونکہ میڑھ برابر کے مرتبہ والوں اور”سیال“ کے پاس لے جایا جاتا ہے۔طاقت سے مغلوب لوگوں کے پاس نہیں لے جایا جاتا چلو اگر انہوں نے میڑھ کی بات کی ہے تو بھی ٹھیک کیونکہ حکمرانوں نے یہ میڑھ رد کر کے دھتکار دیا اور خود ہی مزاحمت کومہمیز دینے کا راستہ کھول دیا۔انہیں شاہوانی اسٹیڈیم کے بے مثال جلسے سے عوامی جذبات کا اندازہ ہونا چاہیے کم وقت اور اچانک نوٹس پر ہزاروں لوگوں کا جلسہ میں آنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔کوئٹہ کی تاریخ میں آج تک اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا یہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ عوام نے روایتی سیاست اور اس میں حصہ لینے والے خیراتی لوگوں کو مسترد کر دیا ہے۔وہ صرف ایک نکتہ پر ایک ہوئے اور وہ ہے بلوچ قوم اور گلزمین کا مستقبل۔یقیناً اس ایکتا اوراتحاد کے خلاف بہت سازشیں ہوں گی ہر طریقہ سے میر جعفر اور میر صادق استعمال ہوں گے لیکن قیادت ثابت قدم اور پرعزم ہوئی تو یہ سازشیں ناکام ہوں گی۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ مردلیڈر موجود ہوتے تو خواتین آگے نہ آتیں 75 سال کے حالات نے نامردوں کی فوج اور ظفرموج پیدا کر دی ہے۔اس لئے پرعزم خواتین کو آگے آنا پڑا ہے۔اس کے نتیجے میں بلوچستان واحد علاقہ ہے جس میں صنفی امتیاز ختم ہوگیا ہے۔یہاں پر کوئی مرد کوئی خواتین نہیں ہیں بلکہ سب ایک ہیں۔
تمام تر صورتحال میں یہ بات واضح طور پر نظر آرہی ہے کہ اسلام آباد کے حکمران بلوچ مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔زمینی حقائق کے باوجود وہ بلوچ مزاحمت کو مذاق سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ بلوچستان اور بنگال کی صورتحال میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔بلوچستان چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے اور یہ کہ آبادی بہت کم ہے۔ان کے خیال میں اس آبادی کو طاقت کے ذریعے زیرنگوں کیا جا سکتا ہے لیکن یہ تو مسئلہ کا ایک پہلو ہے دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر مزاحمت بڑھتی ہے اور ریاستی مشینری ناکام ہو جاتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ کیا آخری حربے کے طور پر اسمارٹ بم یا کارپٹ بمباری کر کے بلوچوں کی پوری آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا فی زمانہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ بلوچ مسئلہ دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکا ہے۔لہٰذا اسلام آباد کے حکمرانوں کو اس معاملہ کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی جانب پیش رفت کرنی چاہیے اگر ایسا نہ کیا گیا تو پہلے مرحلے میں یہ مطالبہ سامنے آ سکتا ہے کہ بلوچستان کو مکمل خودمختاری دی جائے۔بے شک وہ پاکستانی وحدت کا حصہ رہے لیکن مرکزی سرکار اپنا دائرہ اختیار ختم کرے۔اس کی ایک مثال عراقی کرد ستان ہے جہاں کردوں کو مکمل خودمختاری دے دی گئی ہے حالانکہ کردوں اور بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت میں فرق ہے۔ کردوں کا کبھی آزاد وطن نہیں رہا جبکہ بلوچستان1948 تک آزاد وطن تھا۔
خود مختار علاقہ تسلیم کئے جانے کے بعد وفاق تمام وسائل بلوچستان کو واگزار کردے اور کہہ دے کہ آپ جانو آپ کا کام جانے۔وفاق کوئی وسائل مہیا نہیں کرے گا آپ اپنے وسائل سے گزارہ کرو۔اگر خودمختار علاقہ کی شرط تسلیم نہیں کی گئی تو بات کہاں تک پہنچے گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔