زوال آمادگی۔۔ مجید امجد کی تضحیک تک

راحت ملک
زوال کسی شعبے میں در آئے تو تنزلی و انحطاط کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں زوال کے دو قابل ذکر پہلو ہیں ایک قسم یا پہلو کوتاہی و غفلت سے متعلق ہے جبکہ دوسرا شعوری نوعیت رکھتا پہلی صورت میں تنزلی کے نمایاں ہوتے پہلوؤں سے چشم پوشی برتی جاتی ہے کہ جو کچھ رونما ہو رہا ہے اسے اپنی غلطی کا سبب تسلیم کرنے کی بجائے ناگزیر وقوع قرار دے دیا جاتا ہے یا پھر زیادہ دانش مندی دکھائیں تو انحطاط کو ذیلی نقصانات قرار دے کر صرف ٍ نظر کر لی جاتی ہے میں اسے شعوری زوال کے زمرے میں شمار کر رہا ہوں صرف وضاحت کی خاطر وگرنہ اس منفی رویے کا شعور و عقل سے دور دور کا تعلق وابستہ بھی نہیں ہوتا اور اس طرز عمل کو درست طور پر زوال آمادگی کہا جاتا ہے چنانچہ آمادہ زوال معاشرے سنبھلنے کی کوشش ہی نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے زعم ٍخرومندی میں مستانہ وار بربادی کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں مجموعی طور پر مذکورہ صورتحال جس معاشرے میں ہمہ گیر جہت کے ساتھ نمودار ہو تو سارا سماج گم کر دہ راہ ہو جاتا ہے کسی دوسرے کے بات سمجھنے کی استعداد باقی نہیں رہتی بلکہ آوازیں سنائی ہی نہیں دیتی بے ہنگم شور میں پہلا قتل خود تنقیدی کا ہوتا ہے اور پھر ہر شئے مسمار ہونے لگتی ہے
تہذیبی ساختیات کے پیچیدہ اور باہم الجھے ہوئے اعمال کی تحلیل کے نتیجے میں ان اعمال کلی کا ایک جزو” خیالیات ” سے متعلق ہے جو تدبر دانش و حکمت کے ہمہ گیر زاویوں پر محیط ہے اور اجتماعی شعور کی آواز ہوتا ہے چنانچہ تہذیب کی تخلیق و تشکیل و تدوین میں اس کا حصہ نمایاں اور اہم ہوتا ہے
مغربی دنیا کی خیالیات میں ادب فلسفہ انتقادی و تجربی علوم اور سائنس کے دیگر شعبے یکجان ہو چکے ہیں بد قسمتی سے ہمارے سماج کی خیالیات کا بڑا اور بلاشبہ دقیع حصہ تاحال حسی و جذباتی تصورات و تجربات کے فنی اظہار تک محدود ہے فلسفہ اور نظریہ سازی یا اشیاء کی تخلیق کے عمل نے تاحال ہمارے علمی عمل میں جگہ نہیں بنائی ہمارا نظم فکر، تقعل کے اسباب و عوامل پر مباحث سے بھی گزیریا ہے۔
تقلیدی رجحان نے عقائد کی طرح دیگر علوم و فنون میں بھی حوالہ جاتی دانش یا پیروی مغرب کی روایت کو مضبوط بنایا ہوا ہے سماج کی تعمیر و ترقی کے متعلق مختلف خواب اور نعرے گھڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پایے۔ یہاں تک کہ ریاست کے نظم و نسق کیلئے بھی اپنے قومی وجود اور امنگوں کے مطابق نو آبادیاتی دور کے نظم و نسق میں تخلیقی ترمیم و تبدل کی اہلیت کا مطاہرہ کرنے میں بھی ناکام ہیں یا ہچکچاہٹ کے شکار۔۔۔
تمہید کی طوالت پر معذرت۔ مسئلہ زیر بحث یا موضوع معقولیت پسند معنوی ترسیل کا ہے کہ کسی کی تضحیک یا ڈاتیات پر تنقید کا الزام نہ لگ سکے۔
سابق جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈیجیٹیل میڈیا یا الیکٹرونک میڈیا کے عہد کا آغاز ہوا تو ذرائع ابلاغ کی معنویت اور اثر آفرینی میں انقلاب آ گیا ٹی وی چینلز پر اطلاعات کی ترسیل و سیاسی مباحث کا آغاز ہوا ہر گزرتے دن چینلز کی تعداد اور ان پروگراموں کے انداز اور مقدار بدلنے لگے سنجیدہ؟ سیاسی مباحث کی بڑھتی لہر نے حکومت کیلئے مشکلات پیدا کیں تو خود ذرائع ابلاغ کیلئے مباحث کے موضوعات کی قلت سامنے آنے لگی۔کیونکہ وہ خود بہت سے اہم موضوعات درپیش مسائل اور تاریخ کے درست استدلالی تجزیات سے گریزاں و خوف زدہ تھے یہ داخلی رکاوٹ تھی جسے سطور بالا میں زوال آمدگی سے تعبیر کیا گیا ہے چنانچہ سرکاری بدعنوانی کے انکشافات اور سازشی تھیوریز پر مبنی مباحث پر انحصار کیا جانا ہی ممکن تھا مگر اس انداز طرز و فکر نے ناظرین کو جتنی شدت سے اپنی گرفت میں لیا تھا اسی نسبت سے ان کے اذھان میں بیزاری بھی پیدا کی جو دوری و بیگانگی میں بدلنے لگی چونکہ سیاسی نظریات کا سیاسی معاشرتی ثقافت میں فقدان رہا تھا چینلز نے ناظرین کو متوجہ رکھنے کیلئے غیر سنجیدہ انداز میں ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ پروگراموں کی نئی ریت اپنائی ابتداء تو ایک آدھ چینل نے کی مگر اب صورتحال یہ ہے کہ ہر چینل مزاح کے نام پر سیاسی سماجی موضوعات کا ملغوبہ بنا کر پروگرام پیش کر رہا ہے ان پروگراموں میں نظر آنے والے کامیڈین کی قلت کا طرفہ تماشہ ہے کہ ہر دوسرے چینل پر آپ کو وہی دوچار چہرے نظر آتے ہیں جگت بازی میں مصنوعی لطافت کے ساتھ انسباط کا عنصر بھی موجود ہونا لازم ہے اور جگت بازی پنجابی زبان کی اہم ذو معنی صں ف ہے جگت بازی کی حدود ہیں۔ لیکن بے معنی جملوں سے ناظرین کیلئے قہقے کا سامان تو پیدا ہو جاتا ہے مگر اس انداز و اطوار اور جگتوں کی تکرار کرداروں کی یکسانیت سیفنی ادبی حس و لطافت ختم ہوتی جا رہی ہے اور اسکی جگہ بھکڑپن زیادہ دکھائی دیتا ہے۔
بعض پروگراموں میں تواتر کے ساتھ سیاسی ادبی شخصیات شعراء کی نقلیں اتاری جاتی ہیں ان کی ڈمی کے ذریعے تنقید اوران کہی کو کہی میں بدلنے کی سعی بھی ہوتی ہے جب سے ان پروگراموں کی بہتات ہوئی ہے تو ان کے معیار میں تیزی سے گراوٹ بھی آئی ہے زوال اور انحطاط کا یہی پہلو خبرناک جیسے اہم پروگرام میں شدت سے محسوس ہوتا ہے جس کی میزبان محترمہ عائشہ جہانزیب نفیس دیدہ زیب فہم و فراست کی مالک تعلیم یافتہ سنجیدہ مزاج خاتون ہیں اگر انہیں اس پروگرام سے الگ کر لیا جائے تو پروگرام کی ناک گم ہو جائے خیر اس پروگرام میں جناب انور مقصود اور جون ایلیاء کی ڈمی تواتر سے پیش ہو رہی ہے جناب انور مقصود کے اپنے انداز بیان میں جملے کے پایا جانے والا ہلکا سا وقفہ جو ان کے جملے میں معنویت اور مزاح کا دریا بہاتا ہے۔ خبرناک میں ہدف طنز بنایا جاتا ہے کہ جیسے انور مقصود بولتے کم اور ہکلاتے زیادہ ہیں جناب انور مقصود کے ساتھ یہ سلوک ان کی شخصیت کی تضحیک کا تاثر نہیں چھوڑتا البتہ ناظرین کی بڑی تعداد جو انور مقصود کے علم و کمال کی معترف ہے کی دل شکنی ضرور ہوتی تھی۔
جون ایلیاء ملک کے نامور شاعر تھے ان کی شخصیت و مزاج کے کئی پہلو تھے بے خودی و شرساری افسردگی و بے باکی یہ تمام خصائص ان کی شخصیت کے گرد چاند کے ہالے کی ماند تھی جن پر تنقید و توصیف کا سلسلہ ان کی زندگی میں بھی چلتا رہا مگر کسی نے کسی بھی مجلس میں جون ایلیاء کے شخصی انداز کی بناء پر ان کی توہین نہیں کی تھی افسوس جیو جیسے معتبر ادارے اور ایک تعلیم یافتہ میزبان کی موجودگی میں بے شمار پروگراموں میں جون ایلیاء کو ہونق خود ستائشی کا مجسم اور اپنی توقیر سے بے پرواہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے میں نے ابتداء میں عرض کیا تھا کہ سماج جب زوال آمادگی کی زد میں آ جائے تو پھر بہت سی حماقتوں کو سمجھنے ان پر گرفت کرنے اور احتجاج کرنے سے عاجز ہو جاتا ہے مذکورہ دو نامور ادبی شخصیات کے ساتھ ہونے والے سلوک پر معاشرے کی خامشئی اسی بات کی عکاسی کرتی ہے چنانچہ جولائی کے پہلے ہفتے میں ایک پروگرام چلایا گیا جس میں نظم و غزل کے انتہائی معتبر بلند قامت شاعر اور مرکزی ادبی دھارے سے الگ شہرت سے بے پرواہ جناب مجید امجد کا کردار زیر بحث آیا ایک ڈمی مجید امجد پروگرام میں بیٹھے دکھائے گئے جو بدحواس مفلوک الحال فہم سے عاری کم علم کم گوئی کا مجسمہ تھے پروگرام کے شرکاء نے مجید امجد کی ذاتی زندگی اور ان فن شعر گوئی کے اچھے پہلوؤں کا ذکر کیا مگر دودھ میں مینگنیاں ڈالنے سے باز نہ رہے اور ان کی کمزوریوں کا تضحیک آمیز ذکر کیا کسی جرمن خاتون کے ساتھ ذہنی وابستگی اور اس کے ہمراہ بلا ٹکٹ عالم بے خودی میں کوئٹہ کا سفر کرنا پھر انتہائی توہین آمیز طور پر مجید امجد کی رحلت کا ذکر کرتے ہوئے انتظامیہ و اہل ساہیوال کی بے حسی پر تنقید کے ساتھ ساتھ ان کی میت کچرا اٹھانے والی گاڑی میں لے جانے کا دلخراش ذکر کیا گیا یہ سب کچھ مزاح اور ادب کے معیار سے گرا ہوا عمل تھا میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ شعراء دباء ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں کیونکہ خدشہ ہے کہ اس طرح کا جملہ حکومت کی معاشی ٹیم نے سن لیا تو خدانخواستہ اس اثاثے کو بھی نجکاری کمیشن کے حوالے کیا جا سکتا ہے البتہ یہ بات تو نوشتہ دیوار ہے کہ اہل قلم ادیب و دانشور شاعر افسانہ نگار کی تخلیقات کسی بھی زندہ معاشرے کا اجتماعی شعور و اثاثہ ہوتی ہیں جن کی تضحیک برداشت کی جا سکتی ہے نہ ان کی نجکاری ممکن ہے مجھے یہ کہنا غیر ضروری لگتا ہے کہ جیو اور خبرناک کی ٹیم اپنے ان اعمال کی اصلاح اور معذرت خواہی بھی کہ یہ تو کامن سینس کی بات ہے جس کی توقع ہر سنجیدہ مزاج انسان جیو سے بہر طوررکھنے کا حق رکھتا ہے۔

زوال آمادگی۔۔ مجید امجد کی تضحیک تک” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں