جیرا بلیڈ

تحریر: انور ساجدی
پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات اور ترجمان رﺅف حسن پر منگل کے روز چار خواجہ سراﺅں نے اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون میں ایک ٹی وی سینٹر کے باہر اجتماعی حملہ کیا۔فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پہلے ایک بھاری بھرکم خواجہ سرا پی ٹی آئی کے رہنما کا راستہ روکتی ہے اس کے بعد اس کے چار دیگر ساتھی اچانک ہلہ بول دیتے ہیں۔وہ رﺅف حسن پر بلیڈ سے مکوں سے اور لاتوں سے حملہ کرتے ہیں اور زمین پر گرا دیتے ہیں۔خواجہ سرا کامیاب حملہ کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر کامیابی کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔حملہ کے بعد رﺅف حسن کا چہرہ بلیڈ کے حملے سے لہولہان ہوتا ہے اور وہ کسی طرح اسپتال پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔خواجہ سراﺅں نے اس سے پہلے ایک ٹی وی اینکر سمیع ابراہیم پر بھی حملہ کیا تھا۔پاکستان میں خواجہ سراﺅں کا غالباً یہ پہلا سیاسی استعمال ہے آئندہ چل کر اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔یہ تو سب کو پتہ ہے کہ خواجہ سرا ایک خطرناک طبقہ ہے جو مختلف وارداتوں میں حصہ لیتا ہے۔کئی ڈکیت ہیں، متعدد اغواءکار ہیں جو کمسن بچے اغواءکر کے اپنی کمیونٹی میں اضافہ کرتے ہیں ان میں جیرابلیڈ ٹائپ کردار بھی ہیں۔خواجہ سراﺅں کی بہت پرانی تاریخ ہے۔بنیادی طور پر یہ ایک مظلوم طبقہ ہے۔خاندان اور معاشرے کا ٹھکرایا ہوا۔خواجہ سراﺅں کی تاریخ انسانی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ان میں ایک طبقہ قدرتی اور پیدائشی ہے جبکہ دوسرا طبقہ ظلم و جبر کا نتیجہ ہے۔ماضی میں بادشاہوں نے اپنے زنان خانہ اور حرم سرا کے انتظامات سنبھالنے کے لئے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو جبراً”آختہ“ کر کے خواجہ سرا بنایا۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کئی بادشاہوں کے درباروں میں کئی خواجہ سرا بڑا اثرورسوخ رکھتے تھے۔ہندوستان میں مسلمان حملہ آوروں کے آنے کے بعد خواجہ سراﺅں کی تعداد میں یکایک اضافہ ہوگیا۔مغل بادشاہ بھی اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے خواجہ سراﺅں کو حرم سرا میں متعین کرتے تھے۔یہی حال عثمانی سلطنت کے دورمیں تھا۔آغا سنبل نامی خواجہ سرا بادشاہ اور اس کی چہیتی ملکہ حورم سلطان کے بہت قریب تھی۔خواجہ سرا اکثر محلاتی سازشوں کے اہم کردار ہوتے تھے۔فی زمانہ صورتحال بدل گئی ہے۔مغربی دنیا نے ہم جنس پرستی کی قانونی اجازت دے رکھی ہے۔انہیں آپس میں شادیوں کی اجازت بھی دے دی گئی۔مغرب میں”گے“ کے حقوق کے بڑے جاندار قوانین بھی وضع کئے گئے ہیں۔برصغیر میں معاملہ الٹا ہے۔یہاں پر خواجہ سرا قابل نفرت اور قابل تحقیر سمجھتے جاتے ہیں۔پاکستان میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان کے حقوق کا تعین کر کے ان کے شناختی کارڈ بنانے کے احکامات جاری کئے تھے۔اس حکم کے بعد ان کے لئے نوکریوں کا کوٹہ بھی مختص کیا گیا تھا۔شناختی کارڈ بننے کے بعد خواجہ سرا انتخابات میں بھی حصہ لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ معاشرے کے لئے قابل قبول بنتے جا رہے ہیں تاہم انہیں برابر کا انسان سمجھنے میں بہت وقت لگے گا۔

1990 کی دہائی میں ہندوستان میں فلم ساز مہیش بھٹ نے ایک فلم بنائی تھی جس کا نام سڑک تھا اس میں مین کردار ایک خواجہ سرا کا ہے جو پوری فلم میں چھائی ہوئی ہے۔معروف اداکار سداشیوپرکار نے یہ کردار ادا کیا ہے۔ان کی اداکاری اتنی جاندار ہے کہ فلم کے باقی کردار ہیچ نظر آتے ہیں۔حالانکہ فلم کی کاسمیٹک ہیروئن مہیش بھٹ کی بڑی صاحبزادی پوجا بھٹ اور ہیروسنجے دت ہے۔اس فلم میں سداشیوپرنے نائیکہ کا ایسا کردار ادا کیا ہے جو بہادری اور جرات پر مبنی ہے۔یہ واحد فلم ہے جس میں نائیکہ کا کردار ایک”کھسرے“ سے ادا کروایا گیا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو اپنے مخالفین کو سست کہنے کے لئے ہیجڑے، کھسرے،نامرد اور”گے“ کے طعنے لگاتے تھے۔ایک مرتبہ جب خان عبدالقیوم خان ان کے وزیر داخلہ تھے بھٹو صاحب نے ایک تقریب میں کہا کہ خان صاحب میں آپ کو برطانیہ میں ہائی کمشنر بنا کر بھیجوں گا آپ کو جوشوق ہے اس کی وہاں قانونی طورپر اجازت ہے۔خواجہ سراﺅں کی ایک قسم سیاست سے متعلق ہے۔زمانہ قدیم سے جو لوگ حق کا ساتھ دینے کے بجائے آمروں کا ساتھ دیتے تھے تو انہیں ہیجڑا کہا جاتاتھا ہندوستان کی جنگ آزادی کے لیڈر”نیتا جی“ سبھاش چندربوس نے ایک مرتبہ کانگریس کی قیادت پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاسی ہیجڑے کبھی آزادی حاصل نہیں کر سکتے اس کے لئے لڑنا پڑتا ہے خون بہانا پڑتا ہے جبکہ ہیجڑے اس صفت سے محروم ہیں۔خواجہ سراﺅں کی زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں وسط ایشیا اور مڈل ایسٹ میں زیادہ اچھی روایات موجود نہیں ہیں۔ہمارے پڑوسی افغانستان میں طرح طرح کی کہانیاں موجود ہیں۔طالبان کے بانی ملا محمد عمر نے اپنی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے وارلارڈ کی بارات پر حملہ کیا تھا جو ایک لڑکے سے شادی کرنے جا رہا تھا۔بلوچستان چونکہ افغانستان کے پڑوس میں واقع ہے اس لئے یہاں پڑنگ آباد یونیورسٹی کی کہانیاں کافی عرصہ تک زبان زد عام تھیں۔ بہرحال خواجہ سرا تو ایک مظلوم طبقہ ہے اور اس نے اختیاری طور پر اپنی جنس کا انتخاب نہیں کیا ہے لیکن ان لوگوں کو کیا نام دیا جائے جو بظاہر مردانہ وجاہت کے پیکر ہیں لیکن ان کا نہ کوئی اصول ہے نہ ضمیرہے اور وہ دنیاوی اور وقتی مفادات کی خاطر ہر روز میر جعفر اور میر قاسم کا کردار ادا کرتے ہیں،یہ لوگ اپنے مفادات کی خاطر حد درجہ گرجاتے ہیں۔اس حد تک گرجاتے ہیں جس حد تک خواجہ سرا بھی نہیں گرتے۔انسانوں کی لغت میں ان لوگوں کے لئے آج تک کوئی اصطلاح ایجاد نہیں ہوئی شاید مستقبل میں ہو جائے۔بہرحال رﺅف حسن پر حملہ کے بعد خواجہ سراﺅں سے ڈر لگنے لگا ہے یعنی جوک کام مردوں سے نہیں ہوسکتا وہ خواجہ سرا بخوبی کر لیتے ہیں۔سیاسی تشدد اور درجہ حرارت میں اضافہ کے بعد سیاسی کارکنوں خاص طور پر درمیانی طبقہ کے ان رہنماﺅں کو اختیاط برتنا چاہیے جو ذاتی محافظ نہیں رکھتے۔اسی طرح ایسے صحافیوں کو بھی اپنا خیال رکھنا چاہیے جو ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے حق گوئی سے کام لیتے ہیں۔اگرچہ صحافیوں اور میڈیا شخصیات کی وزضح اکثریت محتاط ہے اور وہ با جبروت حاکموں کی حکم عدولی سے اجتناب برتتی ہے البتہ چند سرپھرے موجود ہیں اب جبکہ پنجاب اسمبلی نے میڈیا پر قدغن کا بل منظور کر لیا ہے تو اس پر عمل درآمد کے نام پر متعدد میڈیا شخصیات نہ صرف بھاری جرمانہ ادائیگی کے لئے تیار رہیں بلکہ انہیں زندان خانوں میں رہنے کا تجربہ بھی حاصل کرلینا چاہیے۔حال ہی میں ایک ٹی وی پروگرام میں ایک قانون دان کہہ رہے تھے کہ اگرچہ بل پنجاب اسمبلی نے منظور کیا ہے لیکن تکنیکی اعتبار سے اس کا اطلاق پورے پاکستان میں ہوگا اگر کسی میڈیا پر کسی کے بارے میں کوئی بات کی گئی تو وہ پنجاب میں موجود ٹریبونل میں کیس دائر کرسکتا ہے۔سرسری سماعت کے بعد یہ ٹریبونل مقدمہ کا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے وہ وقت دور نہیں جب اس بل کی خالق جماعت ن لیگ کے اپنے لوگ اس کی زد میں آ جائیں گے۔بس حکومت گرنے کی دیر ہے۔لوگوں کو یاد ہوگا کہ1998 میں میاں نوازشریف نے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں بنائی تھیں پرویز مشرف نے اسی عدالت سے نوازشریف کو عمرقید کی سزا دلوائی تھی۔یہ ن لیگ ہی تھی جس نے 18 ویں ترمیم کے وقت نیب قانون ک خاتمہ کی مخالفت کی تھی پھر2017 میں نیب کی ایک عدالت ہی نے انہیں نااہل قرار دے کر سزا سنائی۔یہ ن لیگ ہی تھی جس نے فوجی عدالتوں کی منظوری پارلیمنٹ سے لی تھی کیا کیا گنا جائے ہر برے قانون اور بری روایت کا اغاز ن لیگ نے ہی کیا ہے۔یہ اس کا کمال ہے کہ آزادی اظہار پر ایسی قدغن لگائی کہ اس کی مثال ایوب خان ضیاءالحق اور مشرف کے دور میں بھی نہیں ملتی۔وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ن لیگ کو اپنی غلطی پر پچھتاوے و پیشمانی کا اظہار کرنا پڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں