ملک ریاض بڑی مشکل میں

تحریر: انور ساجدی
ملک ریاض اس وقت مشکل میں ہیں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ انہیں کینسر کا عارضہ لاحق ہوگیا ہے۔دوسری مشکل یہ ہے کہ حکمران اوپر سے نیچے تک ان سے ناراض ہیں۔ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ وہ القادر یونیورسٹی کیس اور190ملین پاﺅنڈ کیس میں عمران خان کے خلاف سلطانی گواہ بننے سے منکر ہوگئے ہیں ان سے حتمی مذاکرات کرنے جناب زرداری دبئی میں مقیم ہیں لیکن لگتا ہے کہ بات اب تک بنی نہیں ہے۔اگر ملک صاحب واقعی میں اصلاً و نسلاً ڈٹے رہے تو یہ پاکستانی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہوگا کیونکہ آج تک کسی بڑے سے بڑے سرمایہ دار کی مجال نہیں ہوئی جو طاقت ور حکمرانوں سے ٹکرا جائے کیونکہ انکار کی صورت میں ملک صاحب کو بہت بڑا نقصان ہوگا۔انسانی عقل سے ماورا نقصان اربوں کا نہیں سینکڑوں کھرب کا ۔انہیں بحریہ ٹاﺅن کراچی سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے۔اسلام آباد میں واقع عظیم الشان شہر بحریہ انکلیو بھی ان کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔سی ڈی اے نے گزشتہ رات انکشاف کیا ہے کہ یہ جگہ سفاری پارک اور چڑیا گھر کے لئے مختص تھی جس پر ملک صاحب نے بزور طاقت اور اثرورسوخ کی وجہ سے قبضہ کر رکھا ہے۔حالانکہ جب ملک صاحب نے انکلیو کی بنیاد ڈالی تھی اس وقت وہ ڈی ایچ اے راولپنڈی کے فیزٹو کے ڈویلپر بھی تھے لیکن اس وقت سب نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اب اچانک حکمرانوں کو خیال آیا ہے کہ ملک ریاض نے لاہور،راولپنڈی اسلام آباد اور کراچی میں جو بے ضابطگیاں کی ہیں ان کی تحقیقات کی جائے۔ملک صاحب کو داد دیجیے کہ اس نے پاکستان نیوی کا نام اپنا لیا اور اپنے رہائشی منصوبوں کا نام بحریہ ٹاﺅن رکھ دیا۔وہ اتنے زور آور تھے کہ بحریہ بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔برسوں پہلے میں بحریہ انکلیو کی سیر کو نکلا تھا۔ایک جگہ گاڑی رکی ملک صاحب کے بلڈوزر گاﺅں کو زمین بوس کرنے کے لئے تیار کھڑے تھے جبکہ عورتیں،بچے اور لوگ آہ و زاری کر رہے تھے لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔نہ جانے لاہور،راولپنڈی اور کراچی میں کتنے گاﺅں تھے جن پر ملک صاحب نے بلڈوزر چلا دئیے ہوں گے۔کراچی میں جو بحریہ ٹاﺅن ہے آج تک کھوج نہیں لگایا جا سکا کہ اس کا رقبہ کتنا ہے۔سندھ حکومت نے تو غالباً6 ہزار ایکڑ زمین دی تھی کہا جاتا ہے کہ ملک صاحب کے قبضہ میں16 ہزار ایکڑ ہے جن میں کچھ انہوں نے پرائیویٹ مالکان سے خرید کر رکھی ہے بحریہ ٹاﺅن کی لمبائی40کلومیٹر سے زیادہ ہے۔اگر کوہستان کو شامل کر لیا جائے تو یہ لمبائی اور زیادہ ہوگی۔یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں کہ ضلع ملیر کی زمینیں الاٹ کرنے یا غریب بلوچ اور سندھیوں سے چھین کر ملک ریاض کے حوالے کرنے کی وجہ زرداری سے ان کی پارٹنرشپ تھی۔اس خفیہ پارٹنرشپ کے نکات کیا ہیں اور اسرار ورموز کیا ہیں یہ زرداری کے وکلاءکے سوا کوئی نہیں جانتا چونکہ زرداری صاحب سیاست دان ہیں اس لئے انہوں نے پارٹنرشپ کی ڈیڈ کو حد درجہ خفیہ رکھا ہوگا۔یہ جو ملک ریاض سے زرداری صاحب کی پارٹنرشپ ہے یہ بالآخر طشت ازبام ہوگی اور رسوائی کا سبب بن جائے گی۔چند سال قبل جب ملک ریاض نے بحریہ ٹاﺅن لاہور میں زرداری صاحب کو یہ محل بنا کر دیا تھا اس پر شک و شکوک کا اظہار کیا گیا تھا جبکہ ملک صاحب کا کہنا تھا کہ بلاول ہاﺅس لاہور انہوں نے تعمیر کیا ہے اور زرداری سے رقم وصول کی ہے۔لاہور میں زرداری کا مکان شہر کا سب سے بڑا محل ہے ۔رائے ونڈ چونکہ لاہور ضلع کی حدود میں نہیں ہے اس لئے میاں صاحب کے محل کا اس سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔جاتی امراءکا محل پاکستان کا سب سے بڑا رہائشی محل ہے جس کا رقبہ18 سو ایکڑ ہے۔یعنی یہ لاہور کے شاہی قلعہ سے بھی بڑا ہے۔لاہور قلعہ تو مغل بادشاہوں نے بنایا تھا جبکہ جاتی امراءکا محل ”سلسلہ آہنیہ“ کے حکمرانوں نے تعمیر کیا ہے۔

کوئی دو سال پہلے زرداری نے لاہور میں دوایسے مکانات خریدے تھے جس کو ملا کر ایک ایکڑ کا مکان تعمیر کیا جا سکتا ہے۔زرداری نے اس وقت کہا تھا کہ بحریہ ٹاﺅن شہر سے دورہے اس لئے کارکن وہاں تک آسانی کے ساتھ نہیں پہنچ سکتے تاہم شنید میں آیا تھا کہ اس وقت زرداری اور ملک ریاض کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے تھے اس لئے زرداری ان کا مکان خالی کرنا چاہتے ہوں گے اور اپنے لئے لاہور شہرکے اندر کوئی بڑا مکان تعمیر کرنے کی خواہش رکھتے ہوں گے۔اگرچہ ملک ریاض جو مشکل میں آئے ہیں اس کی وجہ عمران خان ہے لیکن اگر زرداری چاہتے تو انہیں بچا سکتے تھے لیکن زرداری نے پراسرار طور پر کوئی رول ادا نہیں کیا کیونکہ انہیں بھی عمران خان سے ملک صاحب کی الفت کچھ اچھی نہیں لگتی ہوگی کیونکہ انہوں نے ملک ریاض کو کھربوں روپے کا فائدہ دیا جبکہ عمران خان تو بسنے والے ہیں۔القادر یونیورسٹی کا پلاٹ ہو بنی گالا کا رقبہ ہو القادر کے نام پر نقد رقم کی وصولی ہو اور بشریٰ بی بی کو ہیروں کا تحفہ نذر کرنا ہو یہ تو یک طرفہ فوائد ہیں جو عمران خان نے ملک صاحب سے حاصل کئے ہیں اس کے مقابلہ میں عمران خان نے ملک صاحب کو190 ملین پاﺅنڈ دئیے تھے جو منی لانڈرنگ کے پیسے تھے اور برطانوی حکومت نے پاکستان کے حوالے کئے تھے۔اس کے باوجود زرداری پر عمران خان کو فوقیت دینا بظاہر ایک بڑے کاروباری شخصیت کے لئے سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔خیال یہی ہے کہ زرداری اب بھی ملک صاحب کو مائل کر رہے ہوں گے کہ وہ بڑے حکمرانوں کی بات مان لیں اور بحریہ ٹاﺅن کو بچا لیں وہ ملک صاحب کو یقینی طور پر ڈرا رہے ہوں گے کہ عمران خان کا قصہ ختم ہو چکا جس دن انہیں عدالتوں سے ریلیف ملنا بند ہوگیا وہ ساری عمر کے لئے سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔لہٰذا ملک صاحب ان کی خاطر خود کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔بہر حال یہ تو ایک قیاس آرائی ہے لیکن نوازشریف کی ایک بار پھر تاج پوشی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے عمران خان کے حامی ججوں کو جس طرح لتاڑا اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکمران عدلیہ سے کتنے سوختہ ہیں۔ شہبازشریف نے برملا کہا کہ ججوں کا ایک ٹولہ جسے انہوں نے کالی بھیڑوں کا نام دیا عمران خان سے ملا ہوا ہے اور ان کا منصوبہ ہے کہ عمران خان کو بری کر کے آزاد کر دیا جائے۔

شہبازشریف کے غصہ سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ عمران خان کو لے کر حکمران خود تقسیم ہیں۔ادارے بھی منقسم ہیں اسی وجہ سے ملک انتہائی عدم استحکام کا شکار ہے۔سخت تگ ودو کے باوجود کوئی سرمایہ لگانے پاکستان آنے کو تیار نہیں۔ادھر عمران خان جان بوجھ کر کشیدگی پیدا کر رہے ہیں تاکہ حکومت نہ چلے اور حکمران تنگ آ جائیں۔حکومت کی کمزوری یہ ہے کہ یہ ہارے ہوئے لشکر پر مشتمل ہے اور صاحبان اقتدار کو اپنی اس کمزوری کا بخوبی علم ہے۔سابق صدر علوی نے برملا کہا ہے کہ دو حکمران جماعتوں سے بات نہیں ہوگی۔بات ان سے ہوگی جو کچھ دینے کی پوزیشن میں ہوں یعنی تحریک انصاف کو یہی امید ہے کہ8 فروری کے انتخابات کا آڈٹ ہوگا اور چرائے گئے ووٹ ان کے کھاتے میں ڈال کر حکومت ان کے حوالے کی جائے گی لیکن یہ محض خوش گمانی ہے حکمرانوں کے اندر کی لڑائی بڑھتی جا رہی ہے ملک میں اس وقت تک استحکام پیدا نہیں ہوگا جب تک کسی ایک فریق کو شکست نہ ہو جائے۔

ملک ریاض نے ایک ٹوئٹ میں دھمکی دی ہے کہ وہ ایسے راز کھولیں گے جس سے ملک میں زلزلہ آ جائے گا یہ بات ان کی درست ہے کیونکہ ملک ریاض کے آستانہ سے ہزاروں طاقت ور لوگ مستفید ہوئے ہیں۔کیا جرنیل کیا سیاست دان اور کیا صحافی۔کوئی ہے جس نے آستانہ سے روسیاہی حاصل نہ کی ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں