سامری جادوگر کو ناکامی کا سامنا

انور ساجدی
اس وقت ریاست میں
میں نہیں یا تو نہیں
والی صورتحال چل رہی ہے۔تینوںفریق کارزار میں جنگ کے لئے کمر بستہ کھڑے ہیں۔بظاہر صورتحال انتہائی گھمبیر ہے لیکن بیچ بچاؤ والے ضرور درمیان میں آئیں گے اور کوئی مک مکا ضرور ہو جائے گا۔اصل مسئلہ ہوسٹائل عدلیہ سے نمٹنا ہے جج صاحبان کو سنبھالنا ہے کہ وہ صف بندی میں دشمن کے ساتھ نہ ہوں۔اگر رکارٹ نہ ہوتی تو طاقتور حلقوں کا جی چاہتا ہے کہ عمران خان کو سخت سزائیں دے کر مثال بنا ئیں بھٹو کی طرح تاکہ آئندہ کوئی سر اٹھا کرنہ چل سکے۔خیر سر تو عمران خان نے بھی اس طرح نہیں اٹھایا کہ پورے نظام کو چیلنج کر سکے۔اس کا مدعا محض اتنا ہے کہ اسے کسی طرح بھی دوبارہ اقتدار میں لایا جائے۔یہ جو سوشل میڈیا کے ذریعے پی ٹی آئی ہیجان برپا کر رہی ہے اس کا مطلب بھی بلیک میل کر کے صاحبان اقتدار کو اتنا تنگ کرنا ہے کہ وہ مجبور ہو کر عمران خان سے مذاکرات کرنے اور 8 فروری کے انتخابات کے بعض نتائج بدلنے پر مجبور ہوجائیں۔اسی خاطر تو خان صاحب نے اپنا موازنہ شیخ مجیب سے کیا ہے اور اشارہ دیا ہے کہ اگر ان کے مینڈیٹ کا احترام نہ کیا گیا تو نتیجہ بھی1971 والا ہی نکلے گاجب مقتدر حلقوں نے اس بیان پر سخت ردعمل دیا تو تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ عام کرنے کا مطالبہ کیا یہ رپورٹ اب پوشیدہ نہیں اس کی ہزاروں کاپیاں کتاب کی صورت میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے بک اسٹورز پر دستیاب ہیں۔ رپورٹ میں جوڈیشل کمیشن نے ان اسباب و عوام کا ذکر کیا ہے جو پاکستان کے دولخت ہونے کا سبب بن گئے۔ رپورٹ میں عسکری اور سیاسی قیادت کی نااہلی کو بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔
یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو مسترد کر کے اور مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا جو فیصلہ کیا وہ تباہ کن ثابت ہوا۔25 مارچ1971 تک شیخ مجیب صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے رہے جس کے بعد انہوں نے تحریک آزادی شروع کر دی۔ویسے شیخ مجیب پر غداری کا الزام جنرل ایوب خان نے عائد کیا تھا اوران کے خلاف اگرتلہ سازش کیس بنایا تھا۔اگرتلہ ہندوستانی بنگال کا ایک شہر تھا جو آج کل تریپورہ میں ہے۔اس کیس کی تفصیلات متعدد کتابوں میں درج ہے۔یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا اور ایوب خان کو بالآخر شیخ مجیب کو راولپنڈی میں گول میز کانفرنس میں بلانا پڑا۔
شیخ مجیب اور عمران خان کی شخصیات میں واضح فرق ہے۔اگرچہ شیخ صاحب آکسفورڈ میں تعلیم حاصل نہ کرسکے تھے لیکن وہ عمران خان کے مقابلے میں کہیں زیادہ باعلم انسان تھے۔ان کی لائبریری میں ہزاروں کتابیں تھیں اور ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔وہ بچپن سے ہی سیاست کا شوق رکھتے تھے اور مسلم لیگ کی طلباءونگ ایم ایم ایف کے رکن تھے تاہم بعد کے حالات و واقعات نے انہیں مسلم لیگ سے بدظن کر دیا اور وہ حسین شہید سہروردی کے پیروکار بن گئے اور عوامی لیگ کے لیڈر بن گئے۔انہوں نے اپنے وقت کے بڑے بنگالی لیڈر مولانا بھاشانی کو سیاست سے کنارہ کشی پر مجبور کر دیا۔وہ اتنے بڑے لیڈر بن گئے کہ 1970 کے عام انتخابات میں ان کی جماعت نے دو کے سوا ساری 160 نشستیں حاصل کرلیں۔یہ الگ بات کہ ان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا اور شیخ مجیب کو گرفتار کر کے انسانی تاریخ کا بے مثال آپریشن روبہ عمل لایا گیا یہ تمام تفصیلات اب تاریخ کا حصہ ہیں۔
اس لئے واحد سیکھنے والا سبق یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے ملک کے دولخت ہونے کے باوجود کوئی سابق نہیں سیکھا۔نہ آئین پر عمل کیا اور نہ ہی عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔یہاں پر ضیاءالحق نے شورائی نظام قائم کیا۔مشرف نے اپنے طرز کا مارشل لاءنافذ کر کے آئین کو معطل کر دیا۔بار بار انتخابات میں دھاندلی کئی گئی۔ہر بار انجینئرنگ کی گئی اور کئی بار ہائبرڈ حکومتیں بنا کر مسلط کیں۔یہ سلسلہ جاری ہے اور رکنے والا نہیں ہے۔حکمرانوں کو کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے۔اگرچہ ریاست دنیا کے پسماندہ ممالک میں شمار ہونے لگی ہے لیکن مجال ہے جو کسی کو اس کی پرواہ ہو۔ایسے وقت میں جبکہ معیشت عملی طور پر دیوالیہ ہے۔سرمایہ کاری منجمد ہے کوئی غیر ملکی یہاں آکر سرمایہ کاری پر تیار نہیں ہے لیکن حکمران سیاسی جنگ میں مصروف ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ یہ سیاسی عدم استحکام ریاست کو کہاں پر لے جائے گا لیکن انہیں کوئی فکر نہیں اور تشویش نہیں ہے۔2014ءمیں انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ لوہاروں کا راج ختم کر کے موچیوں کا راج لایا جائے اس مقصد کے لئے نوازشریف کو رسوا کرنے کے ہٹایا گیا لیکن پونے چار سال بعد انہیں اچانک خیال آیا کہ نوازشریف سب سے بہتر ہے۔انہیں دوبارہ لایا جائے۔نوازشریف کے آ جانے اور مسلم لیگ کے ہار جانے کے باوجود حکومت انہیں تھمائی لکین نتائج صفر ہیں اور آئندہ صفر رہیں گے کوئی بہتری آنے کا امکان نہیں ہے۔ایک بڑا مافیا ملک پر قابض ہے۔جعلی سیٹھ صاحبان بیورو کریسی اور اعلیٰ حکمران سارے وسائل چٹ کر تے جا رہے ہیں لیکن یہ طبقہ خود ٹیکس دینے کے بجائے غریب آدمی سے زبردستی ٹیکس وصول کررہا ہے۔
یہاں پر کوئی قانون قاعدہ اور اصول نہیں ہے۔اگر کل عمران خان کو واپس لایا جائے تو اس کے کرتوت وہی ہوں گے جو اس وقت کے حکمرانوں کے ہیںوہ بھی مخالفین پر غداری اور ملک دشمنی کا الزام عائد کریں گے۔کسی کو معلوم نہیں کہ غداری کیا ہے اور حب الوطنی کیا ہے۔جو لوگ دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں وہ حب الوطنی کا چوغہ پہن کر مزید لوٹ مار کا پلان بنا رہے ہیں حالانکہ دراصل یہی طبقہ اپنی ریاست سے غداری کا ارتکاب کر ہا ہے۔آئندہ چند ہفتے اس حوالے سے اہم ہیں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کر لیا جائے گا۔اگر انصاف کے ادارے رکارٹ بن گئے تو مشرف کی طرح ایمرجنسی کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ادھر یہ پہلا موقع ہے کہ آصف علی زرداری کو بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کو شیشہ میں اتارنے میں ناکامی ہورہی ہے۔وہ ابھی تک عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے پر تیار نہیں ہوئے۔انہوں نے زیادہ دباؤ کی وجہ سے خودکشی کی دھمکی بھی دی ہے۔ایک آڈیو ریکارڈنگ میں انہوں نے کہا کہ اگر ایسا مرحلہ آگیا کہ انہیں اپنی زندگی ختم کرنا پڑی تو وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ملک کی تمام نمایاں اور مقتدر ہستیوں کا راز طشت از بام کر دیں گے جس کے نتیجے میں ایک بڑا زلزلہ آئے گا۔دباؤ کی شدت کی وجہ سے ملک صاحب کا کینسر بھی بگڑ گیا ہے جس کا علاج جاری ہے۔دیکھیں اس مرتبہ زرداری کا جادو کامیاب ہوگا یا ناکام۔
تازہ اطلاع کے مطابق شیخ مجیب والے بیان پر عمران خان کے خلاف ریفرنس تیار کیا جا رہا ہے۔اگر ایسا ہوا تو یہ بہت کمزورہوگا اور شاید کسی بڑی عدالت میں پہلی پیشی کے ساتھ ہی اڑ جائےگا۔ہاں خصوصی ٹریبونل کی الگ بات ہے جس کے لئے صدر کو آرڈیننس جاری کرنا پڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں