مطیع اللہ جان کے اغواء کی مذمت، بلوچستان کے ہزاروں لاپتہ افراد کیوں اتنی جلدی واپس نہیں آتے،لشکری رئیسانی

کوئٹہ:بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی اغوانماگرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے ہزاروں لاپتہ افراد کیوں اتنی جلدی واپس نہیں آتے،عدالت عظمی بلوچستان کے ہزاروں لوگوں کی اغوانما گرفتاریوں کابھی نوٹس لے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز غیر ملکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کیا اس موقع پر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ اسلام آباد کے پوش علاقے سے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی اغوانماگرفتاری نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ باعث تشویش بھی ہے تاہم خوشی ہے کہ مطیع اللہ جان بہت جلد اپنے گھر واپس لوٹ آئے، انہوں نے کہا کہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کے ہزاروں لاپتہ افراد کیوں اتنی جلدی واپس نہیں آتے،بلوچستان کے لوگ خصوصا بلوچ یہ سوچ رہے ہیں کہ کثیر القومی فیڈریشن کے لوگوں میں کوئی طبقاتی فرق ہے یا بلوچستان اور بڑے صوبہ میں کوئی قانونی یا طبقاتی فاصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ صوبے کے لوگ جو سالوں سے لاپتہ ہیں ان کی مسخ شدہ نعشیں برآمد ہوتی ہیں اگر چند ایک واپس آئے بھی ہیں تو وہ شدید اذیت کی وجہ سے ذہنی معذور ہوکر لوٹے ہیں۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی نے کہا کہ ملک میں ایک صوبے کے شہری کیلئے تو قانون موجود ہے مگر دوسرے صوبے کے شہری کیلئے قانون موجود نہیں ہے ریاست کا یہ رویہ یقینا عام بلوچستانی کیلئے قابل قبول نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ یہاں ساتھ افریقہ کے طرز پرآپر تائیڈ نظام قائم ہے جہاں بلوچستان کے لوگوں کیلئے کوئی قانون نہیں ہے جبکہ باقی کو راتوں رات رہا کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمی نے ایک شخص کے اغوانماگرفتاری کا فورا نوٹس لیا کاش بلوچستان کے جو لوگ لاپتہ ہیں عدالت عظمی اس پر بھی فورا نوٹس لے تاکہ ہمیں یہ احساس ہو کہ بلوچستان کے لوگ بھی ملک کے دیگر لوگوں اور اداروں کیلئے برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں