پریشر ککر

تحریر :انور ساجدی
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں اس وقت ایک صوبہ اور تین ذیلی صوبے ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔اگر نوازشریف مسلم لیگ ن کے قائد ہیں اور اس جماعت کی مرکز اور ایک صوبہ میں حکومت ہے تو وہ صرف پنجاب کے لئے بجلی کے بلوں میں ریلیف کا اعلان یہی ثابت کرتا ہے کہ ایک صوبہ اور باقی صوبوں میں واضح فرق ہے۔کئی سیاسی رہنماؤں نے کہا ہے کہ اس عمل سے احساس محرومی میں اضافہ ہوگا۔یہ بات درست نہیں ہے۔اب یہ لفظ استعمال کرنا ایک سنگین مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ایک طرف کراچی ائیرپورٹ پر سول ایوی ایشن کا ایک کتا غلطی سے مرگیا تو سب سے بڑے چینل نے اس خبر کو سپرسرخی کے ساتھ نشر کیا اور اظہار افسوس بھی کیا لیکن اسی ریاست کے دوسرے حصوں میں ہر روز لوگ ناحق مرجاتے ہیں لیکن میڈیا اس پر خاموش رہتا ہے یعنی جو ذیلی صوبے یا لاحقہ علاقے ہیں وہاں پر انسانی جانوں کی کوئی قدر و وقعت نہیں ہے۔ناانصافیوں کے خلاف آواز کو دبانے کےلئے کبھی سنسرشپ نافذ کی جاتی ہے اور کبھی فائروال لگا دیا جاتا ہے۔ایسا کر کے اس سماج کو پریشر ککر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔قدرتی اصول ہے کہ جب پریشر ککر ایسا ہو جس سے بھاپ خارج نہ ہو تو وہ پھٹ جاتا ہے لیکن آقاؤں کو معلوم ہے کہ ایسا ہونے والا نہیں ہے۔اس لئے وہ اطمینان کے ساتھ غیر آئینی اور غیر جمہوری حربے آزمائے جا رہے ہیں۔کمال ہے کہ ن لیگ کی مرکزی حکومت تمام مسائل پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے جبکہ بڑا بھائی اپنے صوبے کے لئے کوئی اقدام اٹھاتا ہے تو چھوٹا بھائی واہ واہ کرتا ہے کبھی بڑا بھائی چھوٹے بھائی کو کسی اقدام پر شاباش اور داد دیتا ہے اور ان کو ہمدردی ہے تو اپنے آئی پی پی ایز بند کرنے کا اعلان کر دیں اس سے سالانہ50 ارب کی بچت ہوگی اور بجلی 20روپے فی یونٹ سستی کرنے پر خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا لیکن یہ لوگ اپنی جیب پر ہاتھ رکھنے کے بجائے ہمیشہ قومی خزانہ پر ہاتھ صاف کرتے ہیں حالانکہ جو شوگر مل مالکان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کر کے نیشنل گرڈ میں شامل کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں۔شوگر ملیں گنے کی باقیات جلا کر صرف اتنی بجلی پیدا کرسکتی ہیں کہ جن سے ان کے کارخانے چلیں ۔اندھیر نگری اتنی ہے کہ کسی بھی حکومت نے آج تک یہ تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ لٹیروں کا یہ گروہ دن دیہاڑے فراڈ کیوں کر رہا ہے۔کم از کم وزیراعظم یہ اعلان فرمادیں کہ ان کے صاحبزادے آئندہ قومی خزانہ سے اربوں روپے وصول نہیں کریں گے کیونکہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ 40 آئی پی پی ایز کے مالکان حکمرانوں اور ان کے اور رشتہ دار ہیں۔جنہوں نے ریاست کو دیوالیہ کر دیا ہے۔بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ عالمی معاہدے ہیں اس لئے یہ لوگ عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کریں گے اور بھاری جرمانہ عائد ہوگا۔یہ جو میاں منشا جہانگیر ترین اومنی گروپ زرداری حمزہ شریف اور سلمان شریف یہ کون سے عالمی سرمایہ کار ہیں جو ثالثی عدالت سے رجوع کریں گے۔ان کے لئے اتنا کافی ہے کہ انہوں نے برسوں سے لوٹ مار مچائی ہوئی ہے اصولاً تو ان سے کھربوں روپے واپس لئے جائیں اگر یہ ممکن نہ ہو تو جان بخشی کے عوض یہ صبر شکر کرلیں گے اور ان کی مجال جوکسی عدالت میں جائیں۔
سیاستدانوں کا یہ عمل دہرے معیار اور دوغلی سیاست کی غماز ہے۔افسوس تو ان کے رکھوالوں پر ہوتا ہے جو جلسہ جلوس اور ریلی کو بڑا جرم سمجھتے ہیں لیکن اس دن دیہاڑے ڈاکے پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اگر یہی دہرا معیار رہا تو یہ ریاست اور اس کے معاملات کیسے چلیں گے۔اس دہرے معیار اور تضادات کا مجموعہ ن لیگ کی قیادت ہے۔ایک طرف میاں صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک قومی رہنما ہیں دوسری جانب ان کا عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ صرف صوبہ پنجاب کے لیڈر ہیں اور ان کے نزدیک باقی صوبے وفاق کا حصہ نہیں بلکہ ذیلی صوبے ہیں اور ان کے عوام کی کوئی حیثیت نہیں ۔اگر پاکستانی سیاست دانوں میں ایمان ہوتا یا ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی تو وہ آئین اور اپنے اختیارات یوں آسانی کے ساتھ سرنڈر نہ کرتے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ جانتے ہیں کہ عوام نے انہیں مینڈیٹ نہیں دیا ہے۔ہارے ہوئے لشکر کے باوجود ان کی جعلی جیت کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ وہ زبان نہ کھولیں۔انہوں نے زبان کیا کھولنا ہے کیونکہ یہ کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ریاست کی پالیسی بھی عجیب لگتی ہے کہ مہاچور قسم کے لوگ بھی قصیدے کہیں ناجائز تعریف کے پل باندھیں تو انعام کے طور پر انہیں عہدے،مراعات اور خزانہ کی چابی حوالے کی جاتی ہے جبکہ جو لوگ حق اور سچ بات کہیں تو وہ غدار اور قابل گردن زنی ٹھہریں۔پاکستان کا ماضی حقگو اور چاپلوسوں کی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے۔قیام پاکستان کے بعد میاں افتخارالدین ،فیض احمد فیض،میجر اسحاق، حبیب جالب، نوابزادہ مظہر علی خان، باچا خان،عبدالولی خان سچ کہنے پر غدار قرار پائے کہ اس ریاست کو آئین اور انصاف کے اصولوں پر چلاؤ۔ان پر غداری کے مقدمات بھی چلائے گئے اور برسوں تک زندانوں میں ناحق قید میں رکھا گیا۔ان کے مقابلے میں قیوم خان کشمیری،نواب مشتاق احمد گورمانی، ایوب خان،نواب مظفر قزلباش اور اس قماش کے لوگوں کو عوام کی تقدیر سے کھیلنے کی اجازت دی گئی۔حکمرانوں نے کبھی ون یونٹ نافذ کیا اور کبھی پیریٹی کا تجریہ کیا کبھی بنیادی جمہوریت لے آئے اور برسوں تک مارشل لاءمسلط رکھے۔حتیٰ کہ ان تجربات کی وجہ سے یہ ریاست دولخت ہو گئی۔مجال ہے جو ماضی کی ان غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا گیا ہو۔وہی اسکرپٹ ہے جو وقت کے مطابق صرف ایکٹر تبدیل ہوئے ہیں اگر ماضی میں آزاد پاکستان پارٹی یا نیشنل عوامی پارٹی کو غدار قرار دے کر ان پر پابندیاں لگا دی گئیں تو آج ایک اور جماعت زد میں ہے۔ حالانکہ اس جماعت کا انتخاب خود آقاؤں نے کیا تھا۔اس لئے اس کی تمام غلطیوں کے ذمہ دار وہی ہیں۔ اگر سیاست دان مصلحت پسند اور طالع آزما نہ ہوتے تو حکمرانوں کا لگایا ہوا پریشر ککر پھٹ جاتا اور ان کا لگایا ہوا فائروال اڑ جاتا لیکن کیا کریں عوام کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ درست سمت میں لے جانے والا کوئی نہیں ہے۔یہی لوگ اپنی ریاست کو تیزی کے ساتھ فیل اسٹیٹ کی طرف لے جا رہے ہیں اور کروڑوں عوام کو سسکا سسکا کر بھوک اور بیماریوں سے مرنے کےلئے چھوڑ رہے ہیں۔اللہ عوام کے حال پر رحم کرے۔