پی بی45 میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا انکشاف

کوئٹہ ( مانیٹرنگ ڈیسک)بلوچستان میں ایک الیکشن ٹریبونل نے کوئٹہ شہر سے عام انتخابات کے دوران صوبائی اسمبلی کی نشست پی بی۔45 کے 15پولنگ سٹیشنوں پر پیمانے دھاندلی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن حلقے کے 15 پولنگ سٹیشنوں پر صاف اور شفاف انتخابات کروانے کی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا ہے اور اسے نئے ریٹرننگ افسر کی نگرانی میں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا ہے۔بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل الیکشن ٹریبونل نے قرار دیا ہے کہ ریٹرننگ افسر اور پولیس کی ملی بھگت سے بیلٹ بکس اور انتخابی مواد غائب کیے گئے۔ ٹریبونل کا کہنا ہے کہ ریٹرننگ افسر نے اس سلسلے میں کوئی کاروائی نہیں کی۔2024 کے عام انتخابات میں پی بی۔45 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار علی مدد جتک کو کامیاب قرار پائے تھے۔ان کے مخالف جمعیت ِ علمائے اسلام(جے یو آئی)کے امیدوار محمد عثمان پرکانی کی درخواست پر ٹریبونل نے علی مدد جتک کی کامیابی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حلقے کے 15 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا ہے۔الیکشن ٹریبونل نے پی بی۔45 کے دو پولنگ سٹیشنوں سے بیلٹ بکس اور دیگر انتخابی میٹیریئل کی گمشدگی کی نشاندہی کی ہے۔ٹریبونل کے فیصلے کے مطابق الیکشن کے دن جب نواب بگٹی ہائی اسکول سریاب ملز کے پولنگ اسٹیشن پر پریزائیڈنگ آفیسر اور انتخابی عملے کے دوسرے لوگ پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ کمرے کے دروازے ٹوٹے ہوئے تھے۔وہاں پر موجود پولیس کے انچارج نے پولنگ عملے کو بتایا کہ آدھی رات کو ایس ایچ او نیو سریاب آئے اور وہاں سے الیکشن مواد لے گئے اور صبح ان کو واپس لائے۔فیصلے میں لکھا ہے کہ ان میں سے چار بیلٹ بکس اور دیگر مواد غائب تھے۔ اسی طرج ڈی جی زراعت کے دفتر میں بنائے گئے پولنگ سٹیشن سے بھی پانچ بیلٹ بکس غائب تھیں۔ٹریبونل کے فیصلے کے مطابق پریزائڈنگ افسران نے ریٹرننگ افسر کو بیلٹ بکس اور دیگر انتخابی مواد کی گمشدگی کے بارے میں تحریری چٹی لکھ کر دی لیکن ریٹرننگ افسر نے اس حوالے سے کوئی کاروائی نہیں کی۔ٹریبونل کا کہنا ہے کہ پولیس کے ایس ایچ او کی جانب سے پولنگ سٹیشن سے انتخابی مواد لے جانا غیر قانونی تھا۔ٹریبیونل نے اپنی رائے کا اظہا کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیلٹ بکس کی گمشدگی ریٹرننگ افسر اور پولیس اہلکاروں کی ملی بھگت کو ظاہر کرتا ہے۔الیکشن ٹریبونل کے مطابق انتخابی عزرداری کی سماعت کے دوران دو قسم کے فارم 45 پیش کیئے گئے: ایک کامیاب امیدوار کی جانب سے جبکہ دوسرا درخواست دہندہ اور بعض دیگر مدعا علیہان کی جانب سے۔فیصلے میں کہا گیا کہ اصلی فارم 45 وہ تھے جو ووٹوں کی گنتی کے فورا بعد امیدواروں کے ایجنٹوں کے حوالے کیے گئے۔ ایسے فارم 45 پر امیدواروں کے ایجنٹوں کے دستخط تھے۔ٹریبونل کے مطابق جو فارم 45 کامیاب امیدوار کی جانب سے پیش کیے گئے ان پر امیدواروں کے ایجنٹوں نے سرے سے دستخط نہیں کیے تھے جبکہ ان کے نام اردو میں تحریر کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ ان تمام فارم 45 میں سے زیادہ تر پر ایک ہی قلم کا استعمال کیا گیا تھا جبکہ ان پر کٹوتی بھی زیادہ تھی۔ٹریبیونل کے جج نے کہا کہ انھیں یہ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ جو فارم 45 کامیاب امیدوار کی جانب سے پیش کیے گئے وہ جعلی تھے۔الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے مطابق حلقے کے 49 پولنگ سٹیشنوں کے فارم 47 کے مطابق علی مدد جتک نے کل پانچ ہزار 671 ووٹ حاصل کیے۔ ان میں چار ہزار 911 ووٹ انھیں متنازعہ 15 پولنگ سٹیشنوں پر پڑے تھے۔ باقی 34 پولنگ سٹیشنوں سے کامیاب امیدوار کو محض 760 ووٹ ملے تھے۔ٹریبونل کے فیصلے میں کہا گیا کہ کامیاب امیدوار کے حق میں متنازعہ 15 پولنگ سٹیشنوں پر پڑنے والے ووٹوں کی شرح غیر فطری ہے۔ٹریبونل نے کہا کہ یہ حقیقت 15 پولنگ سٹیشنوں پر پڑنے والے ووٹوں کی شفافیت کو مشکوک بنانے کے لیے کافی ہے۔الیکشن ٹریبونل نے قرار دیا ہے کہ یہ بات عیاں ہے کہ حلقے میں بے قاعدگیاں اور غیر قانونی اقدامات مبینہ طور پر ریٹرننگ افسر کی ملی بھگت سے ہوئیں۔ٹریبونل نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ حلقے کے 15 پولنگ اسٹیشنوں پر فوری طور پر دوبارہ انتخاب کروائے۔تاہم ٹریبونل کی جانب سے کمیشن کو ہدیات کی گئی ہے کہ دوبارہ انتخاب کے لیے نئے ریٹرننگ افسر، ڈپٹی ریٹرننگ افسر اور عملہ تعینات کیا جائے۔

بشکریہ بی بی سی

اپنا تبصرہ بھیجیں