میر شکیل کی گرفتاری ایک نئی جنگ کا آغاز
تحریر: انور ساجدی
کچھ مصروفیات کی وجہ سے غیر حاضر رہا اس دوران کئی بڑے واقعات ہوئے ان میں پاکستان کے حوالے سے سرفہرست جنگ کے ایڈیٹر انچیف اور جیو چینل کے سربراہ میر شکیل الرحمان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری ہے عالمی میڈیا نے ان کی گرفتاری کی خبر دیتے ہوئے انہیں پاکستان کا میڈیامغل قرار دیا ہے یعنی میڈیا کا شہنشاہ اس میں کوئی شک نہیں کہ میر شکیل الرحمان کیلئے یہ ٹائٹل کافی حد تک مناسب ہے۔
حکومت لاکھ کہے کہ گرفتاری میں اس کا ہاتھ نہیں ہے اور یہ خالصتاً نیب کی کارروائی ہے لیکن کوئی اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے یہ حکومت اور شکیل الرحمان کے درمیان اختلافات کا شاخسانہ ہے وزیراعظم عمران خان نے کئی بار میر شکیل کو سیدھا کرنے کی دھمکیاں دی تھیں اپنی گزشتہ تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ دیگر حکمرانوں سے مختلف ہیں اور وہ میر شکیل کا آخر تک مقابلہ کریں گے بلکہ ان کا پیچھا کرتے ہوئے دوبئی تک بھی جائیں گے چنانچہ اس صورتحال میں کیسے کوئی یقین کرے گا کہ سب سے بڑے میڈیا گروپ کے خلاف کارروائی نیب نے از خود کی ہے۔
میر شکیل الرحمان چونکہ کئی اعتبار سے طاقتور شخصیت ہیں اس لئے ملک کے سب سے بڑے وکیل چوہدری اعتزاز احسن نے رضا کارانہ طور پر ان کا کیس لڑنے کا فیصلہ کیا ہے چوہدری صاحب کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے انہوں نے اپنی زندگی میں شائد پارٹی کے کسی غریب کارکن کا کیس رضا کارانہ طو رپر لڑا ہو چنانچہ اعتزاز احسن ایک بڑی قانونی جنگ لڑیں گے یہ جنگ کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہوگی ایک طرف چوہدری صاحب باریک قانونی سقم ڈھونڈ کر نیب کا بخیہ ادھڑیں گے دوسری جانب ان کا تحریک انصاف کی حکومت سے براہ راست ٹکراؤ ہو گا بلکہ بات حکومت سے اوپر تک بھی جا سکتی ہے اسی دوران حکومت نے بڑی تیاری کر لی ہے جنگ کے تمام معاملات کا دفتر کھولا جا رہا ہے چاہے اس کا تعلق ایف بی آر اور ٹیکس چوری سے ہو منی لانڈرنگ سے ہو بیرون ملک بے نامی جائیدادوں سے ہو یا سیاسی وغیر سیاسی پروپیگنڈے سے ہو لیکن مشاہدہ یہی ہے کہ ایسے معاملات میں آج تک کسی بھی حکومت کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے نواز شریف نے اپنے پہلے دور میں جنگ پر حملہ کیا تھا حتیٰ کہ اسکے بینک اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیئے تھے جس کی وجہ سے جنگ آدھے صفحے کا رہ گیا تھا انہوں نے بھی انکم ٹیکس کمشنر عنایت اللہ کاشانی کے تیار کردہ کیس کا سہارا لیا تھا لیکن نواز شریف بالآخر ہار گئے تھے اپنے تیسرے دور میں نواز شریف اور جنگ و جیو ایک پیج پر آ گئے تھے پورے پانچ سال نواز شریف نے جنگ و جیو پر ایسا لطف و کرم کیا تھا کہ پاکستانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی عمران خان اشتہارات کا حساب بھی کھول رہے ہیں اس سے قبل جب زرداری کی حکومت تھی تو جنگ اور جیو نے ان کی ایسی کردار کشی کی تھی کہ اس کی مثال بھی صحافت کی پوری تاریخ میں نہیں ملے گی زرداری کے میڈیا ٹرائل کیلئے”عجب کرپشن کی غضب کہانیاں“ کی پوری سیریز کامران خان کے ذریعے چلائی گئی تھی ایک مرتبہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر زرداری کے خطاب کو گستاخانہ لکھا گیا تھا ہر شام مخصوص لوگ ٹی وی چینل پر بٹھا کر زرداری کا تمسخر اڑایا جاتا تھا لیکن غریب زرداری نے اف تک نہ کی البتہ آخری کچھ مہینوں میں پیپلز پارٹی نے جیو کے پروگراموں میں شرکت سے معذرت کی تھی پھر بھی جنگ گروپ کے اشتہارات پر ایسی قدغن نہیں لگائی گئی تھی جو موجودہ حکومت نے لگائی ہے بلکہ یہ زرداری کا ظرف ہے کہ مرکز سے اشتہارات کی بندش کے باعث انہوں نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ جنگ کے اشتہارات میں اضافہ کیا جائے تاکہ نقصانات کی کچھ تلافی ہو سکے ایسے ظرف کا مظاہرہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام میر کمال خان عالیانی نے بھی کیا مرکز سے اشتہار بند ہونے کے باوجود انہوں نے جنگ کے کوٹہ میں کئی گنا اضافہ کر دیا بلکہ اخبار کے تمام ایڈیشنوں کو اشتہارات جاری کر کے قابل قدر اضافہ کیا غالباً یہ بلوچ روایات کا حصہ ہے کہ اگر دشمن پر برا وقت آ جائے تو اس پر حملہ نہیں کرنا ہے بلکہ اس کی کمک کرنی ہے زرداری اور جام صاحب دونوں اسی روایت پر عمل کر رہے ہیں۔
چونکہ جنگ گروپ بہت بڑا ادارہ ہے اس کے اخراجات حکومت بلوچستان اور سندھ کے اشتہارات سے پورے ہونا ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی انہوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔
مرکزی حکومت سے لڑائی کی وجہ سے اور میر صاحب کی گرفتاری کے باعث یہ گروپ مالیاتی مشکلات کا شکار ہو گیا ہے گزشتہ چار ماہ سے کراچی میں ملازمین کی تنخواہوں میں مشکلات کا سامنا ہے اگر موجودہ صورتحال جاری رہی تو ان مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے لیکن جنگ گروپ میں اتنی گنجائش ہے کہ وہ ان مشکلات کا مقابلہ کرے تاوقتیکہ حکومت اکاؤنٹس منجمد کرنے کا آخری حملہ نہ کر دے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ میڈیا سے باالعموم جیواور جنگ گروپ سے باالخصوص حکومت نے جو محاذ آرائی شروع کی ہے وہ بلاوجہ اور بلاضرورت ہے اگر حکومت کا فیصلہ ہے کہ وہ میڈیا کی موجودہ ہیئت مکمل طور پر تبدیل کر دے گی اور یہاں پر چین‘ روس‘ ترکی اور سعودی عرب کی طرح تابع فرمان میڈیا رکھے گی تو الگ بات ورنہ اس لڑائی کا بالآخر نقصان عمران خان اور ان کی جماعت کو ہوگا اگر عمران خان نے موجودہ مدت کے بعد سیاست سے ریٹائر ہو کر لندن میں جا کر آباد ہونا ہے تو بے شک وہ میڈیا کے خلاف جو بھی کارروائی کرنا چاہیں کر لیں لیکن اگر انہوں نے اپنی پارٹی چلانی ہے سیاست میں رہنا ہے اور آئندہ انتخابات بھی لڑنا ہے تو یقین جانیئے انہیں لینے کے دینے پڑیں گے جب پورا میڈیا ان کے خلاف محاذ کھولے گا اور تحریک انصاف اس سے سربکف ہو گی تو اس میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ میڈیا کو شکست دے سکے البتہ حکومت کا جو پلان ہے یعنی آئین میں ترمیم کر کے صوبوں کے اختیارات سلب کرنا مضبوط مرکز کے ایوب خان کے نظریہ کو دوبارہ رائج کرنا اور آمرانہ قوانین کے ذریعے ایک تابع فرمان میڈیا کا قیام اگر حکومت اس میں کامیاب ہوئی تو ظاہر ہے کہ میڈیا اور تمام جمہوریت پسند قوتوں کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ میڈیا کو ایک مرتبہ ناقابل تلافی دھچکہ لگے گا ابھی تو حکومت طاقت کے زعم میں ہے اسے ایک بے حد کمزور اور ناکارہ اپوزیشن ملی ہے حالانکہ حکومت کو نہ تو قومی اسمبلی میں اور نہ پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے اس کے باوجود اس کی رعونت اور تکبر سمجھ سے بالاتر ہے اگر حکومت کو اپنے پشتی بانوں پر فخر ہے تو وہ بھی عارضی ہے کیونکہ یہ کہیں بھی لکھ کر نہیں دیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ہمیشہ قائم رہے گی اور 70سالہ عمران خان تاحیات برسراقتدار رہیں گے جب تک جمہوریت چاہے نام نہاد سہی قائم رہے گی کسی ایک جماعت کی حکومت سدا قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ سلیکٹرز وقت حالات اور ضرورت کے مطابق کھلاڑی تبدیل کرتے رہتے ہیں ابھی تک تو کھیل کے میدان میں تحریک انصاف کی حکومت فارم میں نہیں آئی ہے لہذا اسے ایک اور مدت تک کھلانا ناممکن ہے اگر حقیقت یہی ہے تو اتنے غرور‘ تکبر اور رعونت سے کام لینے کی کیا ضرورت ہے؟
حکومت کو چاہئے کہ وہ روز نئے محاذ نہ کھولے اپنی ساری توجہ عوام کے مسائل حل کرنے اور ملک کو درپیش مالی بحران پر صرف کرے گوکہ حکومت کو اس وقت اطمینان ہے کہ اس نے سیاست اور صحافت کے محاذ پر سارے اسٹیک ہولڈرز کو تقسیم کر کے
لڑاؤ اور حکومت کرو
کے فلسفہ پر کامیابی کے ساتھ عمل درآمد کیا ہے۔
لیکن یہ فلسفہ ہمیشہ کامیاب نہیں رہتا ہے جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو اس کی تقسیم مالی مفاد کی وجہ سے ہے اور اس کا آپسی ٹکراؤ کارپوریٹ سیکٹر کے درمیان ہے عرصہ ہوا میڈیا کے ہاتھی کمزور چونٹیوں کو پاؤں تلے کچلنے کی کامیاب مشق کر رہے ہیں بدقسمتی سے نواز شریف اور عمران خان دونوں نے بدمست ہاتھیوں کا ساتھ دیا ہے انہوں نے ریجنل پریس کو مکمل طور پر کچل ڈالا ہے اور اشتہارات کی مرکزیت قائم کر کے کم از کم میڈیا کی حد تک وحدانی طرز اختیار کیا ہے یہ واحد شعبہ ہے جہاں حکومت نے 18 ویں ترمیم کو یکسر مسترد کر دیا ہے ویسے تو وفاق اس ترمیم کی رویے کے خلاف ہے لیکن اس کا اغاز اس نے میڈیا سے کیا ہے اس شعبہ کے ٹھاکر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی باری نہیں آئیگی تو یہ ان کی خوش فہمی ہے کیونکہ رفتہ رفتہ حکومت ایک ایک کر کے سب کو روند ڈالنے کا مصمم ارادہ رکھتی ہے۔
جہاں تک میر شکیل الرحمان کا تعلق ہے تو وہ سب سے بڑے میڈیا کے گروپ کے سربراہ مگر سب سے زیادہ متنازعہ شخصیت ہیں اور یہ قدرتی بات ہے کہ سب سے بڑے میڈیا گروپ سے حکومت اور لوگ جلتے ہیں کیونکہ یہ ایسا شعبہ ہے کہ اس سے بہت کم لوگ خوش ہوتے ہیں چونکہ میر شکیل کا کام اچھی خبریں اور اخبار کا اسپیس اچھے دام پر بیچنا ہے اس لئے ہر روز مخالفین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے انہوں نے گزشتہ سال کہا تھا کہ وہ ایک بزنس مین ہیں اور بزنس کے اصولوں پر چلتے ہیں یعنی ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے لہذا مشکل کی اس گھڑی میں ساتھ دینے والے کم ہوتے ہیں لیکن اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ اچھے فائیٹر کے طور پر ابھرے ہیں اگر نیب کی حوالات نے ان کے قویٰ مضمحل نہ کئے تو وہ موجودہ مشکل وقت سے ضرور باہر نکل آئیں گے ان پر جو کڑا وقت آیا ہے وہ گزر جائیگا اور وہ دوبارہ اپنے عظیم ادارہ کو بحال کر دیں گے اگر نواز شریف کی طرح وہ قید وبند اور نیب کی قہر آلود تحقیقات برداشت نہ کر سکے تو انہیں بہت کچھ کھونا پڑے گا۔