مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس پی ٹی آئی کی عد م موجودگی پر ملتوی، 45 منٹ انتظار کیا مگر اپوزیشن نہیں آئی، ایاز صادق

اسلام آباد (این این آئی)!قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے مذاکراتی کمیٹی اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کی عدم موجودگی پر اجلاس ملتوی کردیا اور کہا ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی یہاں موجود ہے مگر اپوزیشن نہیں آئی تاہم مذاکراتی کمیٹی تحلیل نہیں کر رہے، وہ برقرار رہے گی۔حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسپیکر ایاز صادق نے کہاکہ ہمیں امید تھی کہ اپوزیشن مذاکرات کیلئے آئے گی، نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار کی سربراہی میں حکومتی کمیٹی بھی آئی تاہم تقریباً 45 منٹ انتظار کرنے کے باوجود وہ نہیں آئے، ہم نے ان کے قائد حزب اختلاف کو بھی پیغام دیا جو ہمارے پاس محفوظ بھی ہے، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔اسپیکر نے کہاکہ ہمیں توقع تھی کہ مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں، جب بیرسٹر گوہر میرے پاس آئے اور مذاکرات کی درخواست کی تو وزیر اعظم نے اسی روز کمیٹی تشکیل دے دی تھی، دونوں فریقین کے درمیان تین ملاقاتیں بھی ہوئیں اور آج بھی یہی توقع تھی کہ وہ آئیں گے، تاہم ایسا نہیں ہوا۔انہوںنے کہاکہ اپوزیشن کی غیر موجودگی کی وجہ سے مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے اور میٹنگ برخاست کی جاتی ہے، تاہم میرے دروازے کھلے ہیں اور میں ایک مرتبہ پھر حکومت اور حزب اختلاف سے یہی توقع رکھتا ہوں کہ مذاکرات کے ذریعے ہی کوئی راستہ نکالا جائے گا۔سر دارایاز صادق نے کہا کہ جب مذاکرات کا دور چلتا ہے تو شرائط پہلے سے نہیں رکھ دی جاتیں بلکہ پہلے بات چیت ہوتی ہے، پھر مطالبات زیر غور آتے ہیں، متبادل راستے نکالے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہ بھی ممکن نہیں ہو سکا۔انہوںنے کہاکہ مذکراتی کمیٹی برقرار رہے گی، اسے تحلیل نہیں کر رہے، میں امید کرتا ہوں کہ شاید ایک بار پھر مذاکرات کا آغاز ہوجائے۔اپوزیشن کے 9 مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کے مطالبے پر بات کرتے ہوئے نائب وزیر اعظم اسحق ڈار نے کہاکہ ہم آئے ہیں تو یقینی طور پر کوئی جواب بھی لے کر ہی آئے ہیں، تاہم میڈیا پر چلنے والی خبروں سے معلوم ہوا کہ کمیٹی کے ارکان کو ان کے بانی نے مذاکرات آگے بڑھانے سے روک دیا ہے۔انہوںنے کہاکہ آئین و قانون کی روشنی میں ہمارے پاس ان کے مطالبے کا جواب ہے اور وہ اب جواب دیا جاتاتاہم یہ ممکن نہیں کہ انہوں نے کچھ کہہ دیا تو بس ہم اس کے حق میں اعلان کردیں، بصورت دیگر وہ نہ آئیں۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ میری خواہش تھی کہ وہ آتے، حکومت کی سوچ مثبت ہے، لیکن آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہ کر ہی مطالبات پر عمل ہوتا ہے، کوئی حل نکالا جاتا ہے، 2014 کا دھرنا بھی اسی طرح مذاکرات کے بعد ہی ختم ہوا تھا، لیکن اپوزیشن کا یہ رویہ مناسب نہیں۔‘انہوں نے مذاکرات آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امید کرتا ہوں کہ اپوزیشن، اسپیکر سے مل کر نئی تاریخ طے کرے گی، یکطرفہ بیان دینا اصول وقواعد کے خلاف اور نامناسب ہے۔ایک سوال پر نائب وزیر اعظم نے کہا کہ اگر وہ آج آتے تو پہلے ہم اسپیکر صاحب کو جواب پیش کرتے پھر انہیں پڑھ کر سناتے، البتہ ان کی طرح میڈیا پر پہلے ہی لیک کرکے نہیں آتے، یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، ہمیں ایک دوسرے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، اگر وہ نہ آئے تو معاملہ ایسے ہی جمود کا شکار رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں