کیا عدالتوں کو آزاد ہونا چاہیے یا نہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل

مانیٹر نگ ڈیسک :ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائلز کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے۔دورانِ سماعت بانئ پی ٹی آئی کے وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ آئین کس چیز کی اجازت دیتا ہے، عام ترامیم بنیادی حقوق متاثر نہیں کرسکتی، آئین بننے سے پہلے کے جاری قوانین کا بھی عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ سیکشن ڈی کو نکالنے کے باوجود بھی کیا ملٹری جسٹس سسٹم چلتا رہے گا؟وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ ٹرین چلے گی، سوال ہے کہ کس کو بٹھایا جاسکتا ہے کس کو نہیں، جسٹس منیب فیصلے سے بھی کورٹ مارشل جاری رہنے کا تاثر ہے، اگرچہ مارشل لاء میں بھی پارلیمان کے ذریعے بہتری کی آپشنز موجود ہیں، فوجی عدالتیں آئین کا آرٹیکل 175 سے باہر ہیں، سویلینز کے ٹرائل صرف آئین کا آرٹیکل 175 کے تحت ہی ہو سکتے ہیں، فوج آئین کا آرٹیکل 245 کے دائرہ سے باہر نہیں جا سکتی۔جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا (3) 8 کے مقصد کے لیے بنائی گئی عدالتیں دوسروں کا ٹرائل کر سکتی ہیں؟ آئین کے تحت آرمڈ فورسز ایگزیکٹیو کے ماتحت ہیں، کیا ایگزیکٹیو کے ماتحت فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کرسکتی ہیں یا نہیں؟ کیا عدالتوں کو آزاد ہونا چاہیے یا نہیں؟وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ وقفہ کے بعد عدالتی سوالات کے جواب دوں گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں