عرب رہنماؤں کا غزہ کی تعمیر نو کیلئے مصر کا 53 ارب ڈالر کا منصوبہ منظور

عرب رہنماؤں نے غزہ کے لیے مصر کی تعمیر نو کا منصوبہ منظور کرلیا ہے جس پر 53 ارب ڈالر لاگت آئے گی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’مشرق وسطیٰ ریویرا‘ وژن کے برعکس فلسطینیوں کی آبادکاری سے گریز کیا جائے گا۔ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا ہے کہ قاہرہ میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے اختتام پر اس تجویز کو قبول کر لیا گیا ہے۔عبدالفتاح السیسی نے اجلاس میں کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، غزہ کی پٹی کو تباہ کرنے والے تنازع میں امن حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔غزہ کے مستقبل کے بارے میں جن بڑے سوالات کا جواب دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں کہ اس انکلیو کو کون چلائے گا، کون سے ممالک تعمیر نو کے لیے درکار اربوں ڈالر فراہم کریں گے۔السیسی نے کہا کہ مصر نے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر آزاد، پیشہ ور فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دینے پر کام کیا، جسے غزہ کی حکمرانی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کمیٹی، فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کی واپسی کی تیاری میں عارضی مدت کے لیے انسانی امداد کی نگرانی اور پٹی کے معاملات کے انتظام کی ذمہ دار ہوگی۔فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ، صدر محمود عباس نے کہا کہ وہ مصر کے خیال کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ ایسے منصوبے کی حمایت کریں، جس میں فلسطینی باشندوں کو بے دخل نہ کیا جائے۔2005 سے برسر اقتدار محمود عباس نے یہ بھی کہا کہ اگر حالات نے اجازت دی تو وہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں، ان کی پی اے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں واحد قانونی حکومتی اور فوجی قوت ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ وہ مصر کے اس منصوبے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، کیونکہ اس میں فلسطینی باشندوں کی نقل مکانی کے بغیر غزہ کی تعمیر نو کا تصور کیا گیا ہے۔انتونیو گوتریس نے کہا کہ ’میں غزہ کی تعمیر نو کے لیے حمایت حاصل کرنے کے عرب قیادت والے اقدام کا خیرمقدم کرتا ہوں، اور اس کی بھرپور حمایت کرتا ہوں جس کا اظہار اس سربراہی اجلاس میں واضح طور پر کیا گیا ہے، اقوام متحدہ اس کوشش میں مکمل تعاون کے لیے تیار ہے۔‘حماس کے ایک ترجمان نے کہا کہ ان کا گروپ مصر کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتا ہے۔تعمیر نو کے لیے کسی بھی فنڈنگ کے لیے تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے بھاری خریداری کی ضرورت ہوگی، جن کے پاس اربوں ڈالر موجود ہیں۔اس معاملے سے واقف ذرائع نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات، جو حماس کو وجود کے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے، اس گروپ کو مکمل طور پر اسلحے سے پاک کرنے کا خواہاں ہے، جبکہ دیگر عرب ممالک بتدریج نقطہ نظر کی وکالت کرتے ہیں۔سعودی عرب کا کہنا ہے کہ غزہ میں حماس کی مسلسل موجودگی امریکا اور اسرائیل کے سخت اعتراضات کی وجہ سے ایک رکاوٹ ہے۔سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی ضمانتوں کی ضرورت ہے کہ موجودہ عارضی جنگ بندی برقرار رہے گی، انہوں نے غزہ کی پٹی پر حکمرانی میں پی اے کے کردار کی حمایت کی۔متحدہ عرب امارات اور قطر کے رہنماؤں نے سربراہی اجلاس کے کھلے سیشن کے دوران کوئی بات نہیں کی۔حماس کی بنیاد 1987 میں مصر کی اخوان المسلمون نے پہلے فلسطینی انتفاضہ یا بغاوت کے دوران رکھی تھی۔حماس کے سینیئر عہدیدار سمیع ابو زہری نے اسرائیل اور امریکا کی جانب سے حماس کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مزاحمت کے حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ابو زہری نے کہا کہ گروپ، منصوبوں کو مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش، یا کسی بھی قسم کی غیر فلسطینی انتظامیہ یا غیر ملکی افواج کی موجودگی کو قبول نہیں کرے گا۔جب سے حماس نے 2007 میں مختصر خانہ جنگی کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو غزہ سے بے دخل کیا ہے، اس نے وہاں تمام مخالفین کو کچل دیا ہے۔مصر، اردن اور خلیجی عرب ریاستیں تقریباً ایک ماہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطینیوں کے انخلا اور غزہ کی تعمیر نو کے عزائم کے متبادل پر مشاورت کر رہی ہیں، جس سے انہیں خدشہ ہے کہ اس سے پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔غزہ کے لیے مصر کا تعمیر نو کا منصوبہ 112 صفحات پر مشتمل دستاویز ہے، جس میں نقشے شامل ہیں کہ اس سرزمین کو کس طرح دوبارہ تیار کیا جائے گا، رہائشی ترقی، باغات اور کمیونٹی سینٹرز کی درجنوں رنگا رنگ تصاویر ان نقشوں کا حصہ ہیں۔