کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

تحریر: انور ساجدی
بلوچستان کا کوئی بھی صحافی اینکر اور وی لاگر جنگی صورتحال اور خاص طورپر پاکستان انڈیا کے درمیان جو کچھ ہو رہا ہے اس پر تبصرہ کچھ کہنے یا لکھنے کے لئے کوالیفائی نہیں کرتا ایک تو بلوچستان انڈیا کے بارڈر سے کافی دور ہے۔صحافت اور سیاست کے مین اسٹریم میں شامل نہیں اس کے پاس اطلاعات بھی موجود نہیں۔نہ اعلیٰ حکام اور افسران بالا تک ان کی رسائی ہے۔سرکاری میڈیا جو کچھ کہہ اور دکھا رہا ہے اسی پر اکتفا ضروری ہے جبکہ سوشل میڈیا میں افواہیں، پروپیگنڈہ اور فیک نیوز کی اکثریت ہوتی ہے اوپر سے پیکا قانون نافذ ہے۔ اگر کسی نے غلطی سے کسی ناپسندیدہ خبر پر تبصرہ کیا اور صورت حال پر کچھ کہنے کی جسارت کی سمجھو یہ وہ گیا۔ لہٰذا نازک صورتحال میں بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ جنگی صورتحال میں فریقین کے جذبات بہت حساس ہوتے ہیں اور وہ کوئی بھی ناپسندیدہ بات یا رائے برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔بلوچستان کے اکثر سوشل میڈیا انفلوئنسر خاموش ہیں صرف سید انور شاہ مسلسل تبصرہ کئے جا رہے ہیں شاہ جی ایک گھنٹہ پہلے جو کہتے ہیں ایک گھنٹہ بعد اسے الٹ دیتے ہیں۔پھر بھی ان کا حق بنتا ہے کہ ان کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔اس وقت تمام سیاسی جماعتیں چوٹی کے رہنما ایک پیج پر ہیں۔پاکستان کے بیشتر اینکر بہت پرجوش طریقے سے قومی نقطہ نظر پیش کرتے ہیں نہ کوئی حامد میر رہا اور نہ اسد طور کیونکہ موقع بڑا نازک ہے اور یہ اچھے نمبر حاصل کرنے کا نادر موقع ہے۔اسمبلی کے اندر محترم عطاءاللہ تارڑ اور بلاول بھٹو کے درمیان بلند آہنگ طرز تخاطب کا مقابلہ ہے۔ویسے انڈیا نے میزائلوں کے 24حملے کئے ہیں۔عطاءاللہ تارڑ یعنی وزیر اطلاعات انڈیا کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں۔دوسری جانب وزارت عظمیٰ کے امیدوار بلاول بھٹو بھی روز گجرات کے قصائی موید کا تیا پانچہ کرنے میں لگے ہیں۔ان سب کی پشت پر حضرت مولانا کا وزن ہے اور ایسے لگتا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نہیں بلکہ مولانا صاحب ہیں۔قوم کو شکر ادا کرنا چاہےے کہ صدر زرداری بستر علالت سے اٹھ کر میدان میں آ گئے ہیں اور میاں صاحب بھی جاتی امراءسے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔یقیناً وہ سوچ و بچار کر کے حکومت کی رہنمائی کریں گے کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔یہ جو تحریکی وی لاگر بیرون ملک بیٹھ کرشیطانی کر رہے ہیں ان کا بھی علاج کرنا ہوگا یہ لوگ روز الٹے سیدھے سوالات لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں۔شہباز گل ہو آفتاب اقبال ہو عمران ریاض خان ہو یا دیگر یہ خانہ خراب عوام کے کانوں میں یہ بات ڈال رہے ہیں کہ انڈیا کے24 میزائل کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے اہداف تک کیسے پہنچے کیا ہمارا کوئی دفاعی نظام نہیں ہے۔پاکستان کے عوام کو تو اپنے اداروں اور لیڈروں پر بھروسہ ہے اس لئے وہ ان کی باتوں کو حرف آخر سمجھتے ہیں اس لئے انہوں نے یہ سوچا نہیں کہ میزائل کہاں گرے ہیں یہ بھگوڑے وی لاگرز نے بتایا کہ بہاول پور میں شہرہ آفاق مجاہد مولانا مسعود اظہر کے مدرسہ اور مسجد کو نشانہ بنایا گیا قوم کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ مولانا صاحب کو کوئی گزند نہیں پہنچی البتہ سوشل میڈیا پر یہ افواہ پھیلائی جا ری تھی کہ ان کے خاندان کے10 لوگ شہادت کے درجے پر فائز ہو گئے ہیں۔کسی کو پتہ نہیں تھا کہ کم بخت مودی نے مظفرآباد میں نیلم جہلم پروجیکٹ کو نشانہ بنایا اگرچہ یہ پروجیکٹ بند تھا پھر بھی اسے نقصان پہنچا۔ڈیمز اور اس طرح کے انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے لیکن بدمست مودی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔یہ بھی شکر کرنا چاہیے کہ لاہور کے قریب واقع مرید کے شہر میں جس مقام کو نشانہ بنایا گیا واں پر لوگ موجود نہیں تھے یہ جماعت الدعوة کے سابق امیر حافظ سعید کا ہیڈ کوارٹر ہے اور یہ بھی شکر کی بات ہے کہ حافظ سعید نظربند ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے ہیڈ کوارٹر میں موجود نہیں تھے۔جو میزائل کوٹلی اور مظفر آباد میں داغے گئے ہیں دشمن کا دعویٰ ہے کہ وہ مجاہدین کے ٹریننگ مراکز تھے لیکن آج تک اس کی تصدیق نہ ہو سکی۔وزیراعظم شہبازشریف نے ایک ہی دن میں اپنے دو خطابات میں کہا کہ6اور سات تاریخ کی رات شاہینوں کے غلبہ کی رات تھی اور انہوں نے فضاﺅں میں طوفان برپا کر رکھا تھا۔اس طوفان کے نتیجے میں انڈیا کے فرانسیسی ساختہ تین رافیل طیارے تباہ کئے گئے تاہم ڈھیٹ تو ڈھیٹ ہوتا ہے انڈیا ان طیاروں کی تباہی سے انکاری ہے اوپر سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے تیاری کے بغیر سی این این کو انٹرویو دیا۔ان سے پوچھا گیا کہ طیاروں کی تباہی کے ثبوت کیا ہیں تو وزیر دفاع نے فرمایا کہ ثبوت سوشل میڈیا کی رپورٹس ہیں جو انڈین سوشل میڈیا نے د ی ہیں۔میرا خیال ہے کہ آئندہ خواجہ صاحب کو پابند کیا جائے کہ وہ عالمی نشریاتی اداروں کو انٹرویو دینے سے گریز کریں۔
یہ جو پاکستان کے بھگوڑے وی لاگر سوال پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس اسرائیل جیسا میزائلوں کو روکنے کا دفاعی نظام کیوں نہیں ہے ۔بھلا یہ بھی کوئی سوال ہے اسرائیل بہت امیر ملک ہے اور اسے پیٹریاٹ نظام امریکہ نے بنا کر دیا ہے جبکہ پاکستان صرف اپنے وسائل سے ہی کام لے رہا ہے اتنا مہنگا نظام کیسے قائم کرسکتا ہے؟۔مودی کی برابر کوشش ہے کہ پاکستان کسی طرح اشتعال میں آئے تاکہ مکمل جنگ چھڑ جائے لیکن پاکستان کی فہمیدہ اور تجربہ کار قیادت بھی اشتعال میں نہیں آئے گی اور مودی کے خواب کو پورا ہونے نہیں دے گی۔یہ جو سندھ اور پنجاب کے اندر25 ڈرون حملے ہیں ان کا مقصد بھی اشتعال پیدا کرنا ہے۔لیکن اشتعال میں آنے کی ضرورت نہیں ہے اگر بھگوڑے وی لاگر یہ پوچھیں کہ ڈرون سینکڑوں کلومیٹر دور کیسے آ گئے تو بھائی ڈرون چھوٹا سا ہوتا ہے وہ کسی ریڈاروغیرہ پر تھوڑا ہی نظر آتا ہے۔ان ڈرون حملوں سے کوئی خاص نقصان تو نہیں ہوا ہے لکین ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا نے اپنے جاسوسی نظام کو بہتر کرلیا ہے اور وہ خدانخواستہ آئندہ کچھ عرصے میں میزائلوں کے حملے کرنے کی حماقت کرسکتا ہے۔اسی اثناءمیں اطمینان کی بات یہ ہے کہ امریکہ ایران اور ترکی درمیان میں آ کر ثالثی کی کوشش کر رہے ہیں امریکہ خیر قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ شک کیا جا رہا ہے کہ میزائل حملوں سے قبل انڈیا نے امریکہ کہ اعتماد میں لیا تھا تاہم اس افواہ کی تصدیق نہیں ہوسکی خیر کی بات یہی ہے کہ ثالثی ہو جائے جنگ کی نوبت نہ آئے اور پرامن طریقے سے تنازعہ حل ہو جائے۔کئی مبصرین کا خیال ہے کہ بہار میں الیکشن جیتنے کے بعد مودی کا غصہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ثالثی اس لئے ضروری ہے کہ مود ی ان پڑھ کند ذہن اور خردماغ آدمی ہے کہیں وہ پاکستان کی حساس تنصیبات تک نہ پہنچ جائے۔اس ضمن میں اسے اسرائیل کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔یہ جو ہیروپ ڈرون ہیں یہ اسرائیل نے مودی کو دئیے ہیں۔ایسے ڈرون دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہیں غزہ کو تاراج کرنے میں ہیروپ کا بڑ کردار ہے۔خود امریکہ بھی اس طرح کے ڈرون اسرائیل سے خریدتا ہے۔مودی نے اسرائیل پر انحصار کافی بڑھا دیا ہے۔اسلحہ کی تربیت کےلئے اسرائیل کے سینکڑوں ماہرین مقبوضہ کشمیرمیں موجود ہیں۔
یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل کہیں انڈیا کو جنگی طیاروں اور میزائل گرانے کا دفاعی نظام نہ بیچے۔حکومتی اس دعوے کو ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ پاکستان اس وقت محفوظ ہاتھوں میں ہے۔پھر بھی بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ نیتن یاہو یہ اعلان کرچکا ہے کہ وہ ایران اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہیں۔موقع ملتے ہی وہ ان دو اسلامی ممالک کو تباہ کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔مودی اسرائیل اور امریکہ کا شیطانی تکون کچھ بھی کر سکتا ہے اسے روکنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں