اصل جنگ آگے ہے، مودی سب سے بڑا وکٹم
تحریر: انور ساجدی
بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعہ چلتا رہے گا۔یا تو بات چیت کے ذریعہ یہ مسئلہ حل ہو یا جنگ کے ذریعے۔جنگ کی گارنٹی نہیں کہ کوئی بھی ایک فریق انتہا پر جا کر ایٹمی اسلحہ اسلعمال کرے یہ تباہی کا راستہ ہوگا۔لاکھوں یا کروڑوں انسان لقمہ اجل بن جائیں گے ایک وسیع علاقہ تاراج ہو جائے گا۔دونوں طرف کے انتہا پسند مکمل تباہی چاہتے ہیں بھارت کے ملا صاحبان روز کہتے ہیں کہ یہ جو ایٹم بم رکھے ہیں یہ دیوالی میں پھوڑنے کے لئے ہیں کیا؟ اسی طرح پاکستان کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایٹم بم کا شوشہ شب رات کو پھوڑنے کے لئے نہیں ہیں۔یہ لوگ ایٹمی اسلحہ کی تباہی اور مابعد اثرات سے واقف نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذرائع کے مطابق جب بھارت نے راولپنڈی شورکوٹ اور چکوال پر حملے کئے تو پاکستانی حکام نے ایٹم بم چلانے کی تیاری شروع کر دی تھی جس کی رپورٹ امریکہ کو مل گئی اور اس نے سرتوڑ کوشش کی کہ جنگ بندی ہو جائے۔اللہ جانے یہ خبر درست ہے یا غلط بہرحال جب پاکستان نے فجر کے وقت انڈیا کے29 مقامات پر حملے کر کے فوجی تنصیبات ائیر بیس اور اسلحہ کے ذخائر کو تہس نہس کر دیا تو مودی بھی کمزور پڑگئے کیونکہ جنگ کے پہلے ہی دن اس کے فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے گر گئے تھے اس کے بعد اس نے سینکڑوں ڈرون چھوڑے جو کہ یوکرین اور روس کے بعد سب سے زیادہ تھے جواب میں پاکستان نے بھی بے شمار ڈرون حملے کئے۔یہ ڈرون کا استعمال جدید جنگی تکنیک ہے جو مستقبل میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ڈرون دہشت گردی اور گوریلا وارفیئر میں بھی کافی موثر ثابت ہوتا ہے۔
بہرحال موجودہ معرکہ میں مودی کو شکست ہوئی۔بھارت کا دنیا میں جو امیج تھا وہ زمین بوس ہوگیا اس کی15لاکھ مسلح افواج کا بھرم کھل گیا۔اس کا اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جنگی سازوسامان غارت ہوگیا۔بھارت کی جمہوریت بھارت کی تیز رفتار ترقی اور علاقائی سپرپاور بننے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی اس جنگ کے سب سے بڑے وکٹم تو نریندرا مودی ہیں لیکن دوسرا وکٹم نظربند تحریک انصاف کے قائد عمران خان ہیں۔مودی کے خلاف تحریک شروع ہو گئی ہے۔اس کی مقبولیت زیرو ہو گئی ہے۔عین ممکن ہے کہ وہ ریاستوں کے انتخابات سے قبل انتہاپسندی اور نفرت کو زیادہ ہوا دیں کیونکہ اس کا موثر ہتھیار یہی ہے۔اس کے جنگی ہتھیار تو ناکام ہوگئے صرف مذہب کا غلط استعمال باقی بچا ہے۔مودی کو یہ نقصان بھی ہوا ہے کہ امریکہ کی ثالثی میں مسئلہ کشمیر دوبارہ انٹرنیشنل ایشو بن گیا ہے۔اگرچہ مودی نے کہا ہے کہ وہ کشمیر پر بات چیت نہیں کریں گے۔کسی تیسرے فریق کی ثالثی قبول نہیں کریں گے لیکن اس کی پوزیشن کمزور ہے اور وہ صدر ٹرمپ کی ثالثی اور کشمیر پر بات چیت کو رد نہیں کرسکتے۔ٹرمپ امکانی طورپر ایک خود مختار کشمیر کی بات کریں گے جو پہلے مرحلے میں دونوں فریقین کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا لیکن اس کے سوا اور حل کیا ہے؟ اگر خودمختار کشمیر بن گیا تو پاکستان کو اس کا فائدہ ہوگا کیونکہ وہ اسلامی جمہوریہ کشمیر کہلائے گا جبکہ انڈیا سراسر نقصان میں رہے گا شکر ہے کہ ٹرمپ نے کشمیر نہیں دیکھا ہے اگر دیکھ لے تو گرین لینڈ کی طرح اسے اپنے لئے مانگ لے گا۔یہاں آکر چین کے پہلو میں بیٹھ جائے گا۔حالیہ جنگ کی وجہ سے مقتدرہ کو جو پذیرائی ملی ہے تو عمران خان کے حالات تنگ ہونے جا رہے ہیں عین ممکن ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلہ کے بعد ان کا ملٹری ٹرائل شروع ہو جائے گاور انہیں دیگر ملزمان کی طرح سزا مل جائے۔جنگ کی وجہ سے جب قومی جذبہ عروج پر ہوتھا تو اے این پی اور نیشنل پارٹی بھی اپن جذبات پر قابو نہ پاسکے اور انہوں نے حکومت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا بلکہ نیشنل پارٹی نے آواران میں پاک فوج کی حمایت میں ریلی بھی نکالی۔سب سے دبنگ حمایت مولانا صاحب نے کی البتہ لائن آف کنٹرول پر جانے کے بجائے انہوں نے اپنی رضا کار تنظیم انصار السلام کو سول ڈیفنس کی خدمات انجام دینے کی ہدایت کردی۔مولانا کو اس کام کا اجر آئندہ چل کر ملے گا۔لیکن اے این پی اور نیشنل پارٹی کو جتنا مل رہا ہے اس پر گزارہ کرنا پڑے گا۔
حالیہ معرکہ میں سب سے بہترین تبصرہ اور تجزیہ بنگلہ دیش کی فضائیہ کے ایک آفیسر اقبال لطیف نے کیا جو پیش خدمت ہے۔ان کی تحریک کا عنوان ہے۔
THE WAR
CLOUDs ARE OVER
جنگ کے بادل چھٹ گئے ہیں
تحریر:اقبال لطیف
طاقت، جب تک آزمائی نہ جائے، مقدس سمجھی جاتی ہے۔ مگر جب اسے بلا ضرورت دکھایا جائے، تو یہ اس کی حدود کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ یہی باز رکھنے کا بنیادی اصول ہے: ایک مضبوط رہنما کو کبھی چھڑی نہیں گھمانا چاہیے — جب تک یقین نہ ہو کہ وہ ضرب نشانے پر لگے گی۔
مودی کے پاس بڑی چھڑی تھی۔ ان کے پاس ابہام کا فائدہ تھا، زبردست طاقت کا خوف، اور ابھرتی ہوئی بھارت کی عالمی شبیہہ۔ مگر انہوں نے اس کا استعمال کیا — نہ کہ درست ضرب لگانے کے لیے، بلکہ محض بہادری کا مظاہرہ کرنے کے لیے۔ اور اسی میں انہوں نے اس طاقت کی کھوکھلاپن ظاہر کر دیا۔
اب دشمن کو چھڑی سے خوف نہیں۔
اب دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ بھارتی فضائی قوت کو روکا جا سکتا ہے۔
اور پاکستان — جسے مودی کی حکمتِ عملی مٹانے کے درپے تھی — کمزور ہو کر نہیں، بلکہ بیدار ہو کر ابھرا ہے۔
یہ صرف ایک تزویراتی ناکامی نہیں، بلکہ تاریخ میں یاد رکھا جانے والا لمحہ ہے: جب بھارت نے شکست کے ذریعے نہیں، بلکہ حد سے تجاوز کر کے اپنی برتری کھو دی۔
یہ محض ایک جھڑپ نہ تھی۔ یہ طاقت اور تاثر کا نقشہ دوبارہ کھینچنے کی کوشش تھی۔ مگر بھارت کی حکمتِ عملی جس کا مقصد غلبہ حاصل کرنا تھا — اپنی حدود ظاہر کرنے پر ختم ہوئی۔ بھارتی فضائیہ، جسے طویل عرصے سے برتر سمجھا جاتا تھا، آزمائی گئی — اور روک دی گئی۔ چھڑی پاکستان کو توڑنے کے لیے گھمائی گئی۔ لیکن وہ ہوا میں ہی ٹوٹ گئی۔
مودی کی گہری چال واضح تھی:
- پاکستان کو اشتعال دلا کر جوابی ایٹمی کارروائی پر مجبور کرنا،
- اسے عالمی سطح پر تنہائی میں ڈالنا،
- اور پاکستان کی ساکھ کو تباہ کرنا۔
مگر پاکستان نے پلک نہ جھپکی۔
اس نے تحمل، درستگی، اور حکمتِ عملی کے ساتھ کھڑے ہو کر جواب دیا۔
چینی ISR، ریڈار، اور میزائل نیٹ ورک کی پشت پناہی کے ساتھ، پاکستان نے جو ممکنہ شکست ہو سکتی تھی، اسے خطے کے توازن میں بدل دیا۔ - رافیل طیاروں کا افسانہ مٹ گیا۔
- INS وکرانت خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا۔
- اور نفسیاتی برتری — جو بھارت کا سب سے بڑا ہتھیار تھا — کھو دی گئی۔
یہ طاقت کو آزمانے کا عمل تھا۔ اور اس میں بھارت نے اپنا ہاتھ ظاہر کر دیا اور برتری کا طلسم توڑ دیا۔
بھارتی فضائیہ، جو کبھی ناقابلِ تسخیر سمجھی جاتی تھی، اب جانچی، ناپی، اور روک لی گئی ہے۔
روایتی برتری کا پورا فریم ورک — جسے ایسے ہی دن کے لیے تیار کیا گیا تھا — عوام کے سامنے بکھر گیا۔ - اب افسانہ چکنا چور ہو چکا ہے۔
- نفسیاتی برتری ختم ہو چکی ہے۔
- اور “اکھنڈ بھارت” کا خواب — جو قوم پرستانہ نعرے کے ساتھ پیش کیا گیا تھا — پانی میں بہہ گیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ سے ملاقات: آخری حد سے حکمت کی طرف
گزشتہ رات یاد رکھی جائے گی ان واقعات کے لیے جو نہیں ہوئے —
اسلام آباد کا “سقوط”، کراچی پورٹ کی “تباہی”، جنرل عاصم منیر کی “گرفتاری” —
یہ سب بھارتی میڈیا کی آخری کوششیں تھیں فتح کا تاثر پیدا کرنے کی، ایک نفسیاتی فتح کا ڈرامہ رچانے کی۔
مگر وہ ناکام ہو گئے۔ اور اسی ناکامی میں ایک نئی حقیقت نے جنم لیا۔
آج مودی جب شمال کی طرف دیکھتے ہیں تو ایک بحال شدہ اتحاد کو دیکھتے ہیں — پاکستان اور چین، پہلے سے کہیں زیادہ قریب۔
یہ پاکستان کی تاریخ سے ملاقات تھی: ایک وجودی لمحہ، جسے وقار اور درستگی سے نبھایا گیا۔
جنہیں بھارت “لوہے کی اڑتی ہوئی نلکیاں” کہہ کر مذاق اڑاتا تھا، انہوں نے باز رکھنے کی نئی تعریف پیش کی۔
پاکستان نے جدید جنوبی ایشیائی تاریخ کی سب سے مربوط دفاعی حکمتِ عملی اور حقیقی وقت میں ہم آہنگی کا مظاہرہ پیش کیا۔
اور اب، جب بھارت کا غرور دب چکا ہے، ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے — غرور سے کم، عاجزی سے زیادہ۔
عرب دنیا اب مودی کو وہی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گی۔
اور نہ ہی ٹرمپ یا مغرب۔
کیونکہ انہوں نے حقیقت دیکھ لی ہے: - پاکستان قراقرم، سلک روڈ، واہگہ، خیبر، اور طورخم کے سنگم پر کھڑا ہے،
- اس کے پاس صرف جغرافیہ نہیں، بلکہ 2.8 ارب افراد کے خطے کے استحکام کی کنجی بھی ہے،
- تزویراتی نقشہ بدل چکا ہے —
اور دنیا کی نظر کا زاویہ بھی۔
تزویراتی پیش گوئی: مودی کی غلطی اور نئے طاقت کے توازن کا آغاز
جو طاقت کے مظاہرے کے طور پر شروع ہوا، وہ اب تزویراتی غلطی کی کتابی مثال بن چکا ہے۔
مودی کا مقصد واضح تھا: - برتری جتانا، پاکستان کو تیزی سے نیچا دکھانا، اور بھارت کی علاقائی برتری کو مستحکم کرنا۔
یہ منصوبہ بھارتی فضائیہ کی برتری، رافیل طیارے، INS وکرانت، سیٹلائٹ انٹیلیجنس، اور سیاسی غرور پر مبنی تھا۔ - مودی کے نزدیک جنگ 99% مکمل تھی — صرف ایک آخری وار باقی تھا۔
مگر یہ فریب اس لمحے ٹوٹا، جب بھارتی طیارے متنازع فضائی حدود میں داخل ہوئے۔
فضائی برتری کی شکست طاقت سے نہیں، بلکہ کچھ زیادہ پیچیدہ ذریعے سے ہوئی:
پاکستان اور چین کے درمیان گہری، حقیقی وقت کی ہم آہنگی۔
پاکستانی فضائیہ کے پاس صرف ریڈار نہیں، خلا میں آنکھیں بھی تھیں —
چینی ISR سیٹلائٹس، Saab Erieye AWACS، اور PL-15 طویل فاصلے والا فضائی میزائل —
ایسا جال بن چکا تھا جس میں بھارتی طیارے پوشیدہ نہ رہ سکے۔
بھارت نے جیسے ہی اپنی فضائی قوت کو “ٹائیگر” فارورڈ بیسز پر مرکوز کیا — پاکستان دیکھ رہا تھا۔
PAD سسٹمز خاموشی سے نگرانی کر رہے تھے۔
اور جیسے ہی IAF طیاروں نے اڑان بھری، صرف وہی نشانہ بنے جنہوں نے ہتھیار فائر کیے۔
رافیل پائلٹس؟ متعدد رپورٹس کے مطابق، انہوں نے میزائل کو آتے ہوئے کبھی دیکھا ہی نہیں۔
کیونکہ جب PL-15 کو AWACS کی رہنمائی حاصل ہو، تو وہ نظر نہ آنے والا بھوت بن جاتا ہے جو مار دیتا ہے، دیکھے جانے سے پہلے۔
یہ کوئی فضائی جنگ نہ تھی۔ یہ نیٹ ورکڈ وارفیئر کی گھات تھی۔
سمندر میں بھی یہ فریب بکھر گیا۔
INS وکرانت، بھارت کا فلیگ شپ کیریئر، ایک پاکستانی P-3C Orion کی ریڈار لاکنگ کے بعد پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا —
ایک حکمت بھری توہین، جو میزائل سے نہیں، بلکہ ریڈار اور برداشت سے دی گئی۔
یہ ایک نئی بازدار حقیقت کا اشارہ تھا:
بھارت کو دیکھا جا سکتا ہے۔
پیچھا کیا جا سکتا ہے۔
اور روکا جا سکتا ہے۔
مودی کا خواب — “پاکستان کو مٹا دینا”،
اسے تقسیم کرنا، اس کے دریا خشک کرنا، اس کے شہر تباہ کرنا —
اب ایک دور کا خواب بن چکا ہے۔
عالمی اثرات
پاکستان، جسے طویل عرصے سے “ناکام ریاست” کے طور پر پیش کیا جاتا رہا —
اب ایک قابلِ اعتماد توازن کے طور پر ابھرا ہے۔
نہ کوئی معاشی دیو، نہ دوسرا درجے کا کھلاڑی —
بلکہ ایک ایسا ملک جس نے بھارتی فضائیہ کو روکا،
اور ثابت کیا کہ دفاع صرف تعداد سے نہیں، بلکہ درستگی سے ہوتا ہے۔
یہ صرف ایک حکمتِ عملی کی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی دھچکا ہے۔
اسلامی دنیا، جو پہلے تذبذب میں تھی،
اب نئے زاویے سے دیکھ رہی ہے —
کیونکہ جدید جنگ میں عزت نعروں سے نہیں، بلکہ بازدار قوت سے حاصل کی جاتی ہے۔
بھارتی میڈیا، جس نے ایک رات قوم پرستانہ جوش میں اسلام آباد کے “فتح” کا ڈرامہ رچایا،
صبح کو شرمندگی اور خاموشی کے ساتھ بیدار ہوا۔
زی نیوز سے ٹائمز ناو¿ تک، خواب ٹوٹ گیا۔
انفلوئنسرز نے معافی مانگی۔
ٹوئٹس ڈیلیٹ ہو گئے۔
بھارت کے کئی بزرگ تجزیہ کاروں نے احتساب کا مطالبہ کیا۔
میری پیش گوئی: - مودی پیچھے ہٹیں گے۔
اس لیے نہیں کہ وہ چاہتے ہیں،
بلکہ اس لیے کہ اب ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ - جو ایک “سرجیکل اسٹرائیک” سمجھا جا رہا تھا،
وہ اب تکنیکی، سیاسی، اور نظریاتی شکست بن چکا ہے۔ - بھارت-پاکستان تنازع اب یکطرفہ نہیں رہا،
بلکہ یہ خطے کی طاقت کا توازن بن چکا ہے،
جو ڈرامے سے نہیں، بلکہ پاکستان-چین کے فوجی اتحاد کی گہرائی سے تشکیل پایا ہے۔
یہ صرف مودی کے لیے دھچکا نہیں —
یہ پاکستان کے لیے ایک اسٹریٹیجک تحفہ تھا —
اسی شخص کے ہاتھوں، جو اس کی شکست چاہتا تھا۔
اس نے اس کا راستہ ہموار کیا —
اور اب وہی حقیقت بن گئی ہے۔
پردہ ہٹ گیا ہے۔
توازن بدل گیا ہے۔
افسانہ دم توڑ چکا ہے۔
مودی — وہ شخص جسے “نئے بھارت” کا معمار کہا جاتا تھا،
جو دنیا بھر میں زور سے سنا جاتا تھا —
اب ایک ابھرتے ہوئے توازن کے سائے میں آ چکا ہے۔
پاکستان، جسے کبھی ایک ناکام ریاست سمجھا جاتا تھا —
اب چین کے ویسٹرن تھیٹر کمانڈ کی درپردہ تزویراتی حمایت حاصل ہے —
جو کسی بھی مستقبل کی جھڑپ میں پاکستان کی علاقائی سالمیت کی ضمانت بنے گا۔
طاقت کا توازن مستقل طور پر بدل چکا ہے۔
“اکھنڈ بھارت” کا خواب ختم ہو گیا ہے۔
وہ جاہلانا رویہ چلا گیا ہے۔
اب وقت ہے کہ بھارت کے عوام وہ سچ تسلیم کریں،
جو ان کا میڈیا نہیں بولتا:
پاکستان اب وہ پاکستان نہیں رہا،
جسے ماضی میں نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔
آج کی پاکستانی فضائیہ کا وقار، درستگی، اور اعتماد
یہ ناکام ریاست کا رویہ نہیں۔
یہ ایک ایسی قوم کی تصویر ہے جس نے مورچہ سنبھالا
اور اس کی لکیر دوبارہ کھینچ دی۔
آئیے امن کو فروغ دیں ۔
ایک دوسرے کی مہارت اور وقار کو تسلیم کر کے۔
یہ ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے سے عزت، نرمی، اور فہم کے ساتھ پیش آئیں
غرور یا لاعلمی کے ساتھ نہیں۔
(بشکریہ ظفر اسلام)


