طلبہ سیاست شعور، مزاحمت اور قومی قیادت کی نرسری
تحریر: انور شاہین
پاکستانی معاشرے میں "سیاست” کا لفظ اکثر منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں سیاست کو چوری، دھوکہ دہی، مکاری اور طاقت کے کھیل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ سیاست درحقیقت ایک ایسا مقدس عمل ہے جس کا مقصد قوم و وطن کی سربلندی اور عوام کی خدمت ہونا چاہیے۔ سیاست کا اصل مطلب اپنے ملک کے وسائل کی حفاظت، اپنی قوم کے دفاع، اور ہر مشکل گھڑی میں عوام کے ساتھ کھڑے رہنے کا نام ہے۔
یہاں مجھے شہید عثمان کاکڑ کے وہ تاریخی الفاظ یاد آتے ہیں، جو انہوں نے سیاست کی اصل روح کو بیان کرتے ہوئے کہے تھے:
"سیاست چوری کا نام نہیں، سیاست ڈاکے کا نام نہیں، سیاست کسی کا حق غصب کرنے کا نام نہیں۔ سیاست اس عزم کا نام ہے کہ اپنی جان کو قوم پر قربان کیا جائے۔ ہم سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔”
سیاست محض اقتدار کے حصول کا کھیل نہیں بلکہ خلوص، سچائی، ارادے، نیت اور خدمت کا نام ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو معاشرتی مسائل کا ادراک دے کر ان کے حل کی راہیں تلاش کرنے میں مدد دیتا ہے۔ نوجوانوں، بالخصوص طلبہ کے لیے، سیاست کی سمجھ بوجھ بے حد ضروری ہے تاکہ وہ نہ صرف قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں بلکہ ایک باشعور اور ذمے دار شہری بن کر اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی آواز بلند کر سکیں۔
طلبہ تنظیمیں کسی بھی قوم کے مستقبل کی بنیاد ہوتی ہیں۔ یہ تنظیمیں نوجوانوں کو آزادی اظہار، آزادی فکر اور جمہوری اقدار سے روشناس کرواتی ہیں۔ اگر ہم دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہر بڑی انقلابی تحریک میں طلبہ کا کردار نہایت اہم رہا ہے۔
ہندوستان میں ہندوستان سوشلسٹ انقلابی فوج (HSRA) نے انگریز سامراج کے خلاف مزاحمت کی، جس میں بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد، راج گ±رو جیسے انقلابی شامل تھے۔
1964 میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف طلبہ تنظیموں جیسے کہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن(NSF) ڈھاکہ سٹوڈنٹس یونین(DSU) نے بھرپور آواز بلند کی۔
ویتنام میں امریکی سامراج کو للکارنے میں سٹوڈنٹس فار ڈیموکریٹک سوسائٹی(SDS) بھی طلبہ کا کلیدی کردار تھا۔
بنگلہ دیش کی آزادی میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے بنیادی کردار ادا کیا۔
پاکستان میں بھی نیشنلسٹ طلبہ تنظیموں نے ہمیشہ جدوجہد کی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ ان میں پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (PSO)، سرحد اسٹوڈنٹس فیڈریشن (SSF)، پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF)، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO)، بی ایس او پجار، سندھ اسٹوڈنٹس ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (SSDO) اور دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے دورِ آمریت میں ان طلبہ تنظیموں کو سخت دباﺅ اور پابندیوں کا سامنا رہا۔
طلبہ سیاست پر پابندی کے سبب ملک میں سیاسی شعور کی شدید کمی دیکھی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اکثر حقیقی قیادت کو پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں، اور نتیجتاً سیاست چند سرمایہ داروں، وڈیروں اور ٹھیکیداروں اور ریاستی ڈارلینگز کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ جب طلبہ سیاست سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں، تو سیاسی نظام کمزور ہو جاتی ہے اور کرپٹ عناصر کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔
عبدالرحیم مندوخیل کا ایک جملہ اس حوالے سے نہایت معنی خیز ہے:
"مجھے پشتونستان سے ایک منظم تنظیم کی ضرورت ہے”
اگر ہم موجودہ سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کئی قوم پرست اور ترقی پسند رہنما طلبہ سیاست ہی سے نکل کر قومی سطح پر ابھرے ہیں۔ ڈاکٹر منظور پشتین، ڈاکٹر مارنگ بلوچ، خوشحال خان کاکڑ، علی وزیر، محسن داوڑ، ڈاکٹر مالک بلوچ، میاں افتخار حسین٬ زاہد خان جیسے رہنما طلبہ سیاست کے میدان سے گزر کر آج سیاسی جدوجہد کا نمایاں حصہ بن چکے ہیں۔
1979 میں جنرل ضیاءالحق کے آمرانہ اقدامات کے تحت طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی، جو آج تک برقرار ہے۔ اگرچہ 2016 میں سینیٹ میں اس پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا اور 2017 میں قومی اسمبلی نے بھی اس پر بحث کی، لیکن کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ 2019 میں ملک بھر میں طلبہ تنظیموں کی بحالی کے لیے مظاہرے بھی ہوئے، مگر بدقسمتی سے آج بھی اس معاملے پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ اور اس کے ساتھ بلوچستان ہائیکورٹ سے کچھ مہنے پہلے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا جس میں یہ کہا گیا کہ طلباءتنظیموں پر تعلیمی اداروں میں مکمل پابندی ہیں، جو کہ شعور اور مزاحمت پر ریاست کا ایک اور وار ہے۔
طلبہ سیاست کو بحال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر ہم ایک آزاد اور باشعور معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں تو طلبہ کو سیاسی عمل میں شامل کرنا ہوگا۔ انہیں نہ صرف اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہی دینا ضروری ہے بلکہ انہیں ایک ایسی قیادت کے لیے تیار کرنا ہوگا جو قوم کو ترقی، انصاف اور مساوات کی راہ پر گامزن کر سکے۔
یہ وقت ہے کہ ہم طلبہ سیاست کی بحالی کے لیے اپنی آواز بلند کریں، تاکہ قوم کو ایک باشعور، منظم اور عوام دوست قیادت میسر آ سکے۔


