میں کافر بلوچستان کا:حیات بلوچ

تحریر:ثمین صدیق
بلوچستان تربت کے علاقے میں مجبور باپ کے سامنے ایف سی اہلکار کے ہاتھوں آٹھ گولیاں کھانے والا نوجوان جو محض دہشتگردی کے شبہ میں قتل کر دیا گیا اس واقعے پر بلوچستان میں شدید غم و غصے کی نئی لہر کا عالم ہے

وہ جسے مسئلہ سمجھ کر تم نے حل کردیا
حقیقتاً وہ کسی کی ذات ہے جسے تم نے قتل کر دیا

بلوچستان کے عوام انصاف مانگتے تھکتے نہیں کبھی برمش تو کبھی حیات بلوچ۔دو دہائیوں سے جاری
جبری گمشدگیوں (مسنگ پرسنز) کی کہانی اب ہر زبان پر ہے۔مستقبل میں اس بھٹی کے ایندھن کا انتظام بھی بخوبی کیا گیا ہے۔ہم بلوچ بھی عجیب قوم ہیں جو اپنے بچوں کی لاشوں پر انصاف کی اپیل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کبھی غریب ماں باپ اپنے بچوں کی لاشوں کے ساتھ ان سے جڑے خوابوں کو دفنا کر نہ ختم ہونے والی اذیت کے ایندھن بن جاتے ہیں۔ بلوچستان میں جاری اس خونی کھیل کے رواج کے مطابق اب تو بلوچستان کی عوام کو صبر آ جانا چاہیے کہ یہ آنکھ مچولی اب زندگی کا حصہ ہے۔لیکن جب مسنگ پرسن بن کر مرنے کے بعد آپ کے لواحقین صرف تار تار ہوئے جسم کو روتے ہیں اور شک کے اثرمیں قاتل بھی نامعلوم ہوں تو شاید صبر آ بھی جائے لیکن اپنی آنکھوں کے سامنے بے گناہ وجود اور بھرپور حب الوطن پاکستانی شناخت کے ساتھ اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں کوئی اپنا مارا جائے تو یہ ناقابل فراموش المیہ بن جاتا ہے. اس عجب کھیل میں جب عینی شاہد مجبورو بے بس باپ ہو اور جائے وقوعہ پر پہنچنی والا پہلے شخص سگا بھائی ہو تو دلسوز آہ و بکا کرتی ماں کی تصویر سیاسی سیانوں کے اندھیر نگری چوپٹ راج میں زبانوں پر تالا لگا دیتی ہے. اگرچہ کسی فردواحدکی غلطی پرپورے ادارے کوموردالزام ٹھہراناغلط ہے لیکن اگراس معاملے کوسنجیدگی سی دیکھاجائے تواہلکاراوراسکا اپنی حدودوفرائض سی تجاوزکرناپورے ادارے کوہے سوالات کی زدمیں لاتاہے

یہ واقعہ محض بلوچستان کا نہیں بلکہ پوری عالم انسانیت کے لیے دھچکہ ہے۔ اس ہوش ربا واقعے نے بلوچستان میں قانون،انصاف اور ریاستی اعتماد کو انصاف کے کٹہرے میں مجرم بنا کر کھڑا کردیا ہے۔جبکہ دوسری طرف مسنگ پرسنز پر بلوچستان کی بیٹیاں دل دہلا دینے والی داستانوں کے ساتھ اپنے پیاروں کی تصاویر کے ہمراہ سڑکوں پر انصاف مانگتی نظر آتی ہیں۔لیکن جب انصاف کرنے والے ہی بھاگتے چور کی لنگوٹی ہاتھ میں دے جائیں تو پھر کیا رونا۔ریاستی مسائل کیا کم تھے انہوں نے اپنے پیروں پر ہی کلہاڑی مارلی۔کیا اس صوبے میں سب ہی علیحدگی پسند اور شدت پسند ہیں کیا بلوچستان میں ہر رہنے والا شخص کوئی باغی سرپھرا اور قابل فروخت ہے؟یا کچھہ حقیقتاً ماضی مظالمکے عینی شاہد اور محرومیوں کا شکار ہیں یا محض آواز اٹھانے پر ”مسنگ پرسنز”نہ بن جانے کے ڈر سے اس بل کھاتی گہری سیاہ دنیا کے باسی بنتے جا رہے ہیں؟یہ غنیمت ہے کہ وقت حاضر میں دنیا کی تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجی نے پردہ پوشی کی رسم کو ختم کر دیا ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان حالیہ تحریکوں کو توپوں کی نظر کر دینا اب ناممکن عمل ہے اگر بلوچستان کی حالیہ تصویر کشی کی جائے توایک پہلو حسین مستقبل کی نوید سناتے ہوئے نظر آتا ہے جس میں اقتصادی راہداری سے خوشحالی کی ضمانت بلوچ قوم کے دلکش مستقبل کی عکاسی کرتاہے تو دوسرا پہلو مسنگ پرسن کی بازیابی کامطالبہ کرتے نوجوان، بچے اور بوڑھے ہیں،سونے پہ سہاگہ کے مصداق بھرپور ثابت شناخت کے ساتھ قتل ہونے والے حیات بلوچ کا المیہ اس حسین مستقبل کے افق پر گہری سیاہی بن کر ابھرتا نظر آتاہے۔ماضی میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے 2011 میں سندھ رینجرزکی فائرنگ سے پاکستان کے 22 سالہ پاکستانی شہری سرفرازشاہ کو بربریت سے قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار بھی کیا گیا،اور سزائے موت بھی سنائی گئی لیکن بعد میں اس وقت کے صدرمملکت ممنون حسین اچانک بول پڑے اور صدارتی معافی نامہ (پریزیڈنشل پارڈون) جاری کردیا گیا۔بلوچستان کی عوام کو اب انصاف مانگنے پر شاید اسی قسم کا کوئی صدارتی یا خلائی آرڈر مل جائے اور عوام کا رہا سہا بھروسہ بھی ملیا میٹ کر دیا جائے اگر اس قسم کا انصاف کیا گیا تو بلوچستان کے عوام ہر ادارے کا بھروسہ کھو بیٹھیں گے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مارنے والا بھی پاکستانی ہو اور مرنے والا بھی پاکستانی،انصاف مانگنے والے بھی پاکستانی ہوں اور انصاف کی فراہمی کے ضامن بھی پاکستانی ہوں تو مسئلہ کسی اور کا نہیں بلکہ صرف اور صرف لاقانونیت، عدم اعتمادی اور انصاف کی حرمت کا ہی اگر اس نفسیاتی، جذباتی اور سیاسی داستان کا انجام بصیرت معاملہ فہمی سے کیا جائے تو ان مسائل کا حل یقیناً نکل سکتا ہے۔ قانون پر اعتماد بحال بھی ہو سکتا ہے اورجبری گمشدگی کے خیالی کردار اپنے حقیقی انجام تک بھی پہنچ سکتے ہیں، تمام باغی عدالتوں میں پیش بھی کئے جاسکتے ہیں اور باقاعدہ سزا کے تحت لواحقین کا مطالبہ پورا بھی کیا جاسکتا ہے۔تمام ترانائیوں کو مضبوط قانونی شکنجے میں ڈھالا جائے تو بلوچستان کی قسمت کو بدلا جا سکتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں