لکھوں تو کیا لکھوں؟

تحریر: منان صمد بلوچ

کیچ کا نام سنتے ہی قلم غش کھا کر گر پڑا، جب میں نے قلم پھر سے اٹھانے کی کوشش کی تو قلم چیخ اُٹھا اور بولا؛ ”لکھوں تو کیا لکھوں“؟ موضوع تو انگنت ہیں لیکن لب کشائی کس پہ کروں؟ نوشت کرنے کیلئے بکھرے ہوئے مغموم خیالات اور خون میں شرابور واقعات کو کس نہج سے سمیٹ لوں؟ لکھوں تو کیا لکھوں، قاتل کو لکھوں یا مقتول کو؟ ظلم کی داستانوں کو لکھوں یا مظلوم کی فریادوں کو؟ گولیوں کی آوازوں کو لکھوں یا مقتول کے لواحقین کی آہوں کو؟ میں خاموشی سے سر جھکائے ڈانٹ سنتا رہا-

آپ ہی مجھے ڈھارس دلائیں کہ 26 مئی کو کیچ ڈھنک میں رونما ہونے والی المناک واقعے پر کس کرب کا اظہار کروں؟ مادر وطن ملک ناز کی بہادری کی نغمے سنا دوں یا بھولی سی برمش کی آنکھوں میں چپھی رنج و الم کو بیان کروں؟ 14 جون کو تمپ دازن میں شہید بانک کلثوم سعید کی دردناک قتل کو تحریر کرنے کیلئے الفاظ کہاں سے لاؤں؟ چند زیورات کے عوض ڈاکوؤں نے چار بچوں کے سامنے ان کی ماں کا گلا کاٹ دیا۔ کیا ایسی سفاکیت کو لفظوں میں نوشت کرنا ممکن ہے؟ اگر لکھنے کی ٹھان بھی لی، آخر لکھوں تو کیا لکھوں؟

14 آگست کی شام کو تربت میں FC کی گاڑی کے آگے دھماکے کے بعد اہلکار ایک باغیچے میں گھس جاتے ہیں اور حیات بلوچ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اُنہیں گھسیٹ کر روڈ پر لاتے ہیں اور ان کی والدین کے سامنے اُنہیں آٹھ گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں- کیا آج کی دنیا میں ایسی بربریت ممکن ہے؟ میں اپنی چشم تصور میں بار بار اسی منظر کو دیکھ رہا ہوں جس میں حیات بلوچ کے والدین اپنے بچے کی لاش پر بیٹھے ماتم کر رہے ہیں۔ اگر آسمان کا کوئی جگر ہوتا تو پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکا ہوتا۔ اگر زمین کی کوئی آنکھ ہوتی تو اب تک اس کے اشک ساری کائنات کو بہا کر لے گئے ہوتے۔

قلم خون کا آنسو رونے کے بعد درد آگیں آواز میں کہنے لگا؛ آپ ہی مجھے مشورہ دیں کہ اس انسانیت سوز واقعے پر میں کس کو خواب خرگوش کی نیند سے جھنجھوڑوں؟ مین اسٹریم میڈیا کو یا چند ہفتوں کی آہ و بکا کے بعد خاموشی اختیار کرنے والی آپ سمیت پوری قوم کو؟ انکوائری کمیشن بلانے کا اعلان درکنار، محض حیات بلوچ کے حق میں ٹویٹر پر ایک ٹویٹ کرنے کیلئے میں کس کی کانوں میں روئی ٹھونس لوں؟ ریاست مدینہ کے دعویدار کی یا صدر مملکت کی؟ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے میں کس کا دروازہ کٹکھٹاؤں؟ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کی یا عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی؟ قلم سوال پہ سوال کرتا رہا اور میں سوالوں کی اس سمندر میں ڈوبتا رہا-

5 ستمبر کو کیچ سے تعلق رکھنے والی معروف خاتون صحافی، مصورہ، انسانی حقوق کی سرگرم کارکن، بلوچی میگزین دزگہار(سہیلی) کی مدیر، پی ٹی وی بولان کے مارننگ شو کی میزبان شاہینہ شاہین بلوچ کو مبینہ طور پر شوہر نے فائرنگ کر کے قتل کردیا۔ میں اس اندوہناک واقعے پر غم و غصے کا اظہار کس طرح کروں؟ لکھوں تو کیا لکھوں؟ قاتل کو کوسوں یا مقتولہ کے اہلخانہ سے اظہارِ تعزیت کروں؟ مقتولہ کی جداگانہ صلاحیتوں کا مدح سرائی کروں یا خون میں لتھڑا مقتولہ کی کیمرے پر غم نگاری کروں؟ قلم بلاروک ٹوک سوالات لکھتا رہا، کاغذ پر خون ٹپکتا رہا اور آخرکار کاغذ خون سے بھیگی پڑ گئی۔۔۔۔۔خون میں لت پت قلم سسکیاں لیتے ہوئے نحیف آواز میں کہنے لگا، ”اب لکھوں تو کہاں پہ لکھوں“؟

اپنا تبصرہ بھیجیں