تہذیب شکست کی راہ پر گامزن

تحریر:عقیل احمد
اقوام کے عروج اور زوال کا دارومدار تہذیب کے اصولوں پر قائم اور دائم ہونا ہے۔ دنیا میں بسنے والے ہر اقوام کے اپنے اپنے روایات ہوتے ہیں جس کے بل بوتے پر وہ قوم اپنے روایات پر عمل کر کے ایک مظبوط قوم ثابت ہو سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے جس قوم نے اپنی تہزیب کو ترک کر کے کسی دوسری قوم کی تہذیب کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔ اس قوم نے اپنے زوال کو اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے۔
سلطان صلاح الدین اسلامی تاریخ
کے وہ عظیم بادشاہ تھے جنہوں نے سات صلیبی جنگیں لڑی۔ اگر ان سب جنگوں میں تیسری صلیبی جنگ وہ تھی جب ۱۱۸۳ میں مسلمانوں نے سلطان صلاح الدین کی زیر سرپرستی میں صلیبیوں سے بیت المقدس کو فتح کیا جس کو ہم قبلہ اول بھی کہتے ہیں۔ انھوں نے ۶ صلیبی جنگیں بہت ہی آرام سے جیتی تھی مگر ۷ صلیبی جنگ میں ایسی کیا وجہ بنی کہ سلطان کو شکست کھانی پڑی۔ صلیبی ۷ جنگیں ہارنے کہ بعد یہ پتہ کرنے میں لگ گئے کہ ایسی کیا وجہ ہے۔ جو سلطان کی فوج ہارتی ہی نہیں تب سراغ بینوں کو سلطان کی فوج میں صلیبیوں نے بھیجا۔ تب معلوم پڑا کہ یہ لوگ پوری رات عبادت میں گزارتے ہیں اور جب دن میں لڑتے تو بلا خوف لڑتے ہیں مرنے کا ڈر تک نہیں ہوتا بلکہ شہید ہونا پسند کرتے ہیں ۔ اور صلیبیوں کی فوج پوری رات شراب اور زنا کاری میں مصروف عمل ہوتی ہے تو اس وجہ سے وہ جنگ کہ وقت مرنے سے ڈرتے ہیں۔ اور مات کھاتے ہیں۔ اس بات کی وجہ سے صلیبیوں نے اپنے کچھ مصورں کو سلطان کی فوج کے بیچ بھیج کر انکو اندر سے کھوکھلا کرنا شروع کیا۔ اور مصوروں نے ان میں کچھ فحش تصویروں کو عام کر دیا۔ اور اسی پورن گرافی کی وجہ سے ساتویں صلیبی جنگ میں سلطان صلاح الدین کے سپاہی شکست سے دو چار ہوتے ہیں۔اسی طرح حالیہ صورت حال میں اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی قوم پر ایک نظر ڈالے جس کی صدیوں پرانی روایات ہیں۔ جو اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کے بر عکس اگر میں یوں کہو یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے۔ جس کے رہنے والو کو اسلامی اصولوں پر زندگی گزارنی چاہئے۔ تو باتیں درست ہیں اسی طرح جس قوم کو اپنی تہذیب سے زیادہ دوسرے قوموں کی فحش روایت یا ثقافت پسن ہو اور اسے اپنایا جاۓ تو وہ قوم نہ صرف شکست کھائ ہے بلکہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ جس کی واضح مثال سلطان صلاح الدین کی ۷ جنگ میں ملتی ہے۔ جدید دنیا کی طرقی یافتہ قوموں میں پاکستانی قوم نے اپنی روایت اور ثقافت پر کلہاڑی مار کر اسکو سبوتاژ کر رہا ہے۔ جسکی وجہ سے ہماری تہذیب کے اصولوں کا دن دیہاڑے قتل ہو رہا ہے۔ اور ایک ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۰ دن بدن ہمارے بچے بوڑھے جوان اور عورتیں فحش سکرین کی طرف مائل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اور ان ویڈیوز کی وجہ سے ہم نے آپس کے رشتوں کو پامال کرنا شروع کر دیا ہے۔ جسکی وجہ سے جنسی زیادتیوں کا تسلسل دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اب اس نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ ہی بوڑھی عورت کی، نہ ہی دودھ پیتی بچی کی، نہ ہی جوان لڑکی کی عزت محفوظ ہے۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ یہاں لڑکوں کی عزت تک محفوظ نہیں ہے۔ جب ان تمام پورنو گرافی کے مناظر کو ویڈیو کی صورت میں با آسانی دیکھا جاتا ہے تو کچھ درندہ صفت لوگ اپنی ہوس کو پورا کرنے کیلیے اسکی عملی صورت سڑکوں پر ملتی ہے۔ اور یہ سب ایسے ملک میں دیکھا جاتا جہاں سیکس ایجوکیشن دینے کو برا مانا جاتا ہے۔ تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس سب کا اثر کس طرح سے پڑ رہا ہے ہمارے معاشرے پر۔ لوگ ۶ ماہ کی چھوٹی بچی کا ریپ کرتے ہیں۔ ۳ بچوں کی ماں کا بچوں کے سامنے ریپ کرتے ہیں۔ ماں اور بیٹی کا انکے پورے گھر والوں کے سامنے ریپ کرتے ہیں ۔ ۶۰ سال کی بوڑھی اماں کو ریپ کیا جاتا ہے اور لڑکوں کا ریپ کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں کہ طلباء کو جہاں نہ بخشا جاتا ہو کبھی نمبر نہ دینے کی دھمکی دے کر تو کھبی انکی ہی نہ زیبا وڈیو بنا کر۔ ہر وہ شخص جس کہ پاس تھوڑی سی طاقت ہے وہ اپنی ہوس پوری کرنے کا موقع نہیں چھوڑتا۔ وجہ آج تک کوئ پکڑا ہی نہیں گیا اگر پکڑا بھی گیا تو سزا ہی نہیں ہوئ کیونکہ قانون ہو گا تو سزا ہوگی۔اور ہر قوم کے مذہب کو مد نظر رکھ کر اس قوم کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ جو اپنے مذہبی قوانین کے ساتھ ساتھ اپنی قومی روایات اور ثقافت پر عمل پیراہ ہوتا ہے اور اپنی تہذیب کا عالی مثال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔