ترکی نے چار ہزار شامی جنگجو آذربائیجان بھیجے، آرمینیا کا الزام
لیتھوانیا:آرمینیا نے دعویٰ کیا ہے کہ ترکی نے شمالی شام سے تقریباﹰ چار ہزار جنگجو نگورنو کاراباخ میں لڑنے کے لیے آذربائیجان بھیجے۔ آذربائیجان کے اس علیحدگی پسند خطے میں آرمینیائی اور آذری دستوں کے مابین لڑائی دوسرے دن بھی جاری ہے۔
روس میں آرمینیا کے سفیر نے پیر 28 ستمبر کے روز ماسکو میں الزام عائد کیا کہ خطے میں آذربائیجان کا بڑا اتحادی ملک ترکی نگورنو کاراباخ کے تنازعے میں لڑنے کے لیے شمالی شام سے تقریباﹰ چار ہزار جنگجوؤں کو آذربائیجان بھیج چکا ہے۔ آرمینیا کے سفیر نے کہا کہ شام سے آنے والے یہ فائٹر اس وقت نگورنو کاراباخ میں لڑ رہے ہیں، جو آذربائیجان کا ایسا علاقہ ہے جس پر آرمینیائی نسل کے علیحدگی پسندوں کا کنٹرول ہے۔
اس خطے میں آرمینیائی اور آذری فورسز کے مابین لڑائی اتوار 27 ستمبر کی صبح شروع ہوئی تھی، جو آج پیر کو دوسرے روز بھی جاری ہے۔ اس لڑائی میں اطراف کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف ٹینکوں اور بھاری توپ خانے کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔
آذربائیجان کے وزیر خارجہ نے آج پیر کے روز باکو میں کہا کہ آرمینیائی فورسز کے حملوں میں اب تک کم از کم چھ عام شہری ہلاک اور 19 زخمی ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف نگورنو کاراباخ کی علیحدگی پسند انتظامیہ نے بتایا کہ اس لڑائی میں آج پیر کی صبح تک اس کے 15 سپاہی ہلاک ہو چکے تھے جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی 200 کے قریب بنتی ہے۔ زخمیوں میں نگورنو کاراباخ کی فورسز کے علاوہ عام آرمینیائی باشندے بھی شامل ہیں۔
نگورنو کاراباخ کا متنازعہ علاقہ، ہے تو آذربائیجان کا حصہ اور اس کی یہ حیثیت بین الاقوامی سطح پر مسلمہ بھی ہے، مگر وہاں کا انتظام آرمینیائی نسل کے علیحدگی پسندوں کے پاس ہے۔ اس خطے نے1991ء میں سابق سوویت یونین کی تقسیم کے بعد پیدا ہونے والے علاقائی تنازعے کے آغاز پر اپنی آذربائیجان سے علیحدگی اور خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا۔
دونوں حریف ہمسایہ ممالک کے مابین یہ لڑائی 2016ء کے بعد سے اب تک ہونے والی شدید ترین لڑائی ہے۔ اس لڑائی کی وجہ سے جنوبی قفقاز کے خطے میں عدم استحکام کا شدید خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ اس خطے سے تیل اور گیس کی کئی ایسی اہم پائپ لائنیں گزرتی ہیں، جن کے ذریعے مختلف ممالک اپنا برآمدی تیل اور گیس عالمی منڈیوں میں پہنچاتے ہیں۔
آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین نگورنو کاراباخ کے عشروں پرانے تنازعے کا دراصل ایک مذہبی پہلو بھی ہے۔ اس لیے کہ آذربائیجان مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ہے جبکہ آرمینیا کی آبادی میں اکثریت مسیحی باشندوں کی ہے۔
مغربی ایشیا میں یہ تنازعہ، جو ہر چند سال بعد ایک خونریز موڑ لے لیتا ہے، بڑی غیر ملکی طاقتوں کے مابین اثر و رسوخ کے لیے رسہ کشی کا شاہد بھی ہے۔
اس لیے کہ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس آرمینیا کی سب سے بڑی اتحادی ہے اور اسے ہتھیار بھی فراہم کرتی ہے۔
دوسری طرف بڑی علاقائی طاقت ترکی روایتی طور پر آذربائیجان کا اتحادی ہے اور حالیہ برسوں میں باکو اور انقرہ کے مابین کئی شعبوں میں تعاون میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
اسی تناظر میں آرمینیا کے روس میں تعینات سفیر نے یہ الزام لگایا کہ ترکی نے شمالی شام سے ہزاروں جنگجو نگورنو کاراباخ میں لڑنے کے لیے آذربائیجان بھیجے ہیں۔
نگورنو کاراباخ میں آرمینیائی اور آذری فورسز کے مابین تازہ لڑائی شروع ہو جانے کے فوری بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے علاوہ روس، چین اور امریکا کی طرف سے بھی یریوان میں آرمینیائی اور باکو میں آذری حکومت سے مطالبے کیے گئے تھے کہ وہ ایک دوسرے پر عسکری حملے فوری طور پر بند کریں اور اس تنازعے کے حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنائیں۔