پی ڈی ایم اور بلوچستان

تحریر:شئے رند

بلوچستان کا وہی حال ہے جو ستر سال پہلے تھا سب آتے ہیں پبلیسٹی سٹنٹ کر کے چلے جاتے ہیں آخر کیوں؟؟ ہمیشہ ہی یہ سب کیوں بلوچستان پر سیاست کرنے کس منہ سے پہنچ جاتے ہیں جبکہ سب بلوچستان میں ہونے والی بربریت اور مظالم کے نوحہ خوا بنتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ بلوچستان میں ظلم ہو رہا ہے لیکن بلوچستان کے مسائل جوں کے توں ہیں آخر کیوں؟؟ البتہ حالات تو بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سب پہلے کچھ اور ہوتے ہیں اور اقتدار میں آنے بعد کچھ اور بن جاتے ہیں موجودہ عمران خان کی حکومت نے بھی حکومت میں آنے سے پہلے یہی باتیں کیں تھیں سب یہی یقین دہانی کرواتے ہیں دس بار بنگلادیش کی مثالیں بھی موجودہ حکومت کی جانب سے دی گئیں تھیں اب بلوچستان پر بات کرنا تو کُجا بلوچ اور بلوچستان کا نام لینے والے کو سیدھا غدار یہی نیازی کی پارٹی کے لوگ بولتے ہیں آخر بات وہی ہو جاتی ہے ہم آپ لوگوں کے کندھوں پر رکھ کر بندوق تو چلا ئنگے لیکن شکار ملنے کے بعد ہمارا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہو گا خواہ اس شکار کے باقی ماندہ خاندان آپ لوگوں کو نوچ کر کھا ہی کیوں نا جائیں ہماری بلا سے!
مسائل کا حل اگر ایسے کیا جاتا اور اگر بلوچستان کے مسائل اتنے پیچیدہ نہ ہوتے تو کب کے حل ہو چکے ہوتے پی ڈی ایم تو آج وجود میں آئی ہے اور مسائل ستر سال پرانے ہیں بلوچستان کا مسئلہ اصل میں آج تک ان کی سمجھ میں آیا ہی نہیں پہلے ادوار میں اس کو یو ایس ایس آر سے جوڑا گیا بعد میں اس کو تین سرداروں کا مسئلہ بتایا گیا اور آج کل ہندوستان کا پیدا کردہ مسئلہ بتا کر سب بری الزمہ ہو جاتے ہیں آسان طریقہ بھی یہی ہے بلوچستان کو لوٹنے کا اگر معاملہ ووٹ کو عزت دو کا ہے تو بلوچستان کے لوگ تو آپ لوگوں سے بہت عرصہ قبل یہ نارہ ہی نہیں لگا چکے بلکہ عمل کر کے دکھایا اس کا اندازہ سابقہ الیکشنز میں ہونے والے ٹوٹل آؤٹ کم سے لگایا جا سکتا ہے کہ کتنے فیصد لوگ بلوچستان کے ان الیکشن میں حصہ لیتے ہیں چلیں جی آج بلوچ ماؤں اور بہنوں کے سروں پر ہاتھ رکھا گیا یہی بلوچ جب مِسنگ پرسنز کے لوگ اپنے پیاروں کے لیے لانگ مارچ کر رہے تھے تو وہ انہی ہاتھ رکھنے والے ہاتھوں کی حکومت تھی بلوچستان میں سب سے زیادہ خطرناک آپریشن اور مِسنگ پرسنز میں اضافہ پی پی کی حکومت کے دوران ہوا بلوچستان میں حکومت بنانے سے پہلے مسائل پر بات نہیں ہوتی یہاں ڈیل کی جاتی ہے اور اچھے اچھے قوم پرستوں کو نکیل ڈال کر اپاہج کر کے براجمان کر دیا جاتا ہے بلکہ مونچھیں منڈوا دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے آپ کی جیب گرم کر دی جائے گی لیکن صوبہ کا مکمل کنٹرول ہماری کمانڈ کے پاس ہو گا اور اس بار تو نا صرف راتوں رات پارٹی وجود میں آئی بلکہ بھاری اکثریت سے جیت بھی گئی ہمیشہ کی طرح وہی شخصیات وزارتوں پر موجود ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنا ضمیر چند ٹھیلوں کے لیے بیچ ڈالا ان کو اپنے حلقہ کے لوگوں کے مسائل کا بھی نہیں پتہ اور ان کے نمائندے بنا کر بلوچستان کی اسمبلی کا ہمیشہ کی طرح مزاق بنایا گیا اگر اس ملک کے آئین کی کوئی حیثیت اور عزت ہوتی تو بلوچستان آج خوشحال ہوتا اگر یہاں کے وسائل اور ساحل کا حق یہاں کے لوگوں کو وقت پر ملتا تو آج بلوچستان ایشیا کا سب سے امیر اور خوشحال علاقہ پہچانا جاتا لیکن اسی صوبہ سے پورا ملک چلایا گیا اور یہاں کی عوام کے پاؤں میں جوتا تک نہیں سکول تو ہیں لیکن چھت اور اساتذہ موجود نہیں گیس کے پائپ تو گھروں کے سامنے سے گزرتے ہیں لیکن اس پر مقامی لوگوں کا کوئی حق نہیں نوکریاں تو دی جاتی ہیں لیکن کلاس فور کی باقی یا تو فروخت کر دی جاتی ہیں یا باہر سے نا اہل لوٹیروں کو بلوچستان پر مسلط کر دیا جاتا ہے بلوچستان میں ہسپتال تو ہیں لیکن وزیر اعظم کے پہنچنے سے پہلے ہی ٹرکوں میں بیڈ لا کے سیٹ کیے جاتے ہیں جزائر اور سمندر تو موجود ہے پر غریب ماہی گیر اپنا پیٹ پالنے کے لیے سمندر میں نہیں جا سکتا بلکہ اس کو حکومت کی دی گئی کم قیمت پر اپنی محنت فروخت کرنی ہو گی تاکہ یہی مچھلی حکومت بیس گناہ زیادہ قیمت پر منافع کمائے اب تو کوسٹل علاقوں سے لوگوں کو نکلنے پر مجبور کیا جارہا ہے وہ اب خدا جانتا ہے کہ کون سے ایلین یہاں آباد کیے جاینگے مقامی لوگ تو ویسے ہی اقلیت میں بدل دئیے گئے ہیں پی ڈی ایم کا درد مختلف ہے اور بلوچستان کا مختلف یہ سب حالات بنائے گئے ہیں بلوچستان آج تاریخی معاشی استحصال کا شکار ہے اور یہ سب اچانک نہیں کیا گیا اس کے پیچھے باقاعدہ ایک پلاننگ کار فرما ہے لیکن وہ قوتیں یہ نہیں جانتی کہ یہ خاموش سمندر جسے آپ خاموش سمجھ رہے ہیں کسی وقت بھی سونامی کی شکل اختیار کر سکتا ہے آج کا نوجوان پھر نہ کسی سردار کی سنے گا نا کوئی پیکج تسلیم کرے گا اس وقت سے ڈرنا چاہیے آج کا نوجوان بیسوی صدی کا نوجوان نہیں اب بھی وقت پر کچھ فیصلے کیے جا سکتے ہیں بلوچستان کو جائز حقوق دے کر حالات کو بدلا جا سکتاہے مکمل نا صحیح لیکن خوشحالی کی طرف ایک قدم شاید بلوچستان کے لوگ آپ کو عام معافی دے ڈالیں کیونکہ بلوچستان کے زخم بہت گہرے ہیں شاید کوئی مرہم مل جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں