مداوا

تحریر: انور ساجدی
اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ حکومت بے مثال اقدامات کررہی ہے لیکن اس کے باوجود کرونا پھیل رہا ہے اسکی وجہ زائرین کی مسلسل آمد ہے جبکہ عالمی پروازوں سے بھی لوگوں کی آمد جاری ہے ایک موت بھی واقع ہوچکی ہے لیکن اسے کرونا کے کھاتے ہیں ڈالنا درست نہیں ہے کیونکہ77 سالہ شخص کینسر سمیت دیگر امراض کا بھی شکار تھا سندھ حکومت جو کچھ کررہی ہے اب اس میں ”میں میاں مٹھو“ والا تاثر زیادہ ابھررہا ہے شہر کے تمام کھمبوں اور دیواروں پرمرادعلی شاہ اور بلاول کے پوسٹر بڑے پیمانے پر آویزاں کئے گئے ہیں جن پر شکریہ کے الفاظ درج ہیں سندھ کے وزیراعلیٰ نے جمعہ کو شہریوں سے اپیل کی تھی کہ وہ تین دن کیلئے گھروں کے اندربندرہیں لیکن20فیصد لوگوں نے اس پر کان نہیں دھرا جبکہ 80 فیصد لوگوں نے گھروں کے اندر رہ کر اپیل پرعملدرآمد کیا حالیہ بحران نے مرادعلی شاہ کو ایک بہتر وزیراعلیٰ ثابت کیا ہے یہ الگ بات کہ مخالفین انہیں اندھوں میں کاناراجہ سمجھتے ہیں کراچی میں 20فیصد وہ لوگ نکلے جو میڈیکل اسٹوروں،مرغی،سبزی اور گوشت کے کاروبار سے وابستہ تھے جبکہ روزانہ کمانے والے مزدوروں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی جنکے گھروں کے چولہے کرونا کے بحران سے بجھادیئے ہیں کرونا کی وبا نے اگرچہ پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے لیکن پاکستان جیسے غریب ملک کے محنت کشوں کیلئے اس سے پہلے ایسا کڑا وقت کبھی نہیں آیا سندھ کے وزیراعلیٰ نے20لاکھ غریب لوگوں کو راشن فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ابھی تک عمل درآمد شروع نہیں ہوا ہے ہفتہ کو کئی محنت کش پوچھ رہے تھے کہ راشن کہاں سے اورکیسے ملے گا؟
ایک عجیب بات یہ ہے کہ وفاق اور دوصوبوں کے درمیان نہ تو صحیح کوآرڈی نیشن ہے اور نہ کرونا کے مسئلہ پر اتفاق رائے ہے وزیراعظم نے اینکر پرسن سے بات چیت کے دوران لاک ڈاؤن سے صاف انکار کیا اور کہا کہ ہم اس کا متحمل نہیں ہوسکتے ورنہ کرونا سے زیادہ لوگ بھوک سے مرجائیں گے ایک حد تک وزیراعظم کی بات صحیح ہے لیکن سندھ اور بلوچستان سب سے زیادہ وبا کی زد میں ہیں اور وہاں کی حکومتیں افراتفری اورخوف کا شکار ہیں اس لئے دونوں صوبوں نے طویل لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے چونکہ وفاق اور دوصوبوں میں ہم آہنگی نہیں ہے اس لئے صوبے سخت اقدامات اٹھاتے ہیں جواب میں وفاق کبھی ایران بارڈر کھول کر زائرین کو آنے کی اجازت دیتا ہے اور کبھی افغان بارڈر کھول کر ٹرکوں اور لوگوں کو آنے جانے کی رعایت دیتا ہے اس طرح تو وبا نے پھلنا ہے رکنا نہیں ہے وزیراعظم نے گزشتہ روز کہا کہ ڈیڑھ لاکھ اوورسیز پاکستانی بھی آنا چاہتے ہیں اگرہمارے پاس انہیں سنبھالنے کی گنجائش ہوتی تو انہیں بھی بلالیا جاتا اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ یاتووزیراعظم کو قیامت خیز صورتحال کاادراک نہیں ہے یا وہ حد درجہ معصوم واقع ہوئے ہیں انہیں پتہ ہے کہ کرونا ایران سے آنے والے زائرین اور عمرہ سے واپس آنے والوں کی وجہ سے پھیلا ہے اس کے باوجود اس طرح کے بیانات دینا سمجھ سے بالاتر ہے ہمارے وزیراعظم بھی امریکی صدر ٹرمپ کی طرح جلد غصہ میں آجاتے ہیں لیکن شکر ہے کہ گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں اینکر حضرات نے سخت سوالات سے گریز کیا اینکرچونکہ صحافی نہیں مصاحب ہیں اس لئے وہ تکنیکی اعتبار سے درست سوالات پوچھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اگرانکی جگہ صحافی ہوتے تو وزیراعظم اٹھ کر چلے جاتے انکے دوست ٹرمپ نے اپنی پریس کانفرنس میں سخت سوال پوچھنے پر ایک صحافی کی بے عزتی کردی اور اپنا مشہور جملہ دہراتے ہوئے صحافی سے کہا کہ آپ کو شرم آنی چاہئے گزشتہ سال انہوں نے اپنے ناپسندیدہ اخبار نیویارک ٹائمز کے نمائندہ سے کہا کہ اس اخبار کا نمائندہ ہونے پر آپ کو شرم آنی چاہئے ان سے زیادہ ہوشیار تونریندرمودی ہیں جو کافی عرصہ سے پریس کاسامنا کرنے سے کترارہے ہیں۔
ڈونلڈٹرمپ نے پریس کانفرنس بلاکر ایک اوٹ پٹانگ نسخہ پیش کیا امریکی ڈرگ کنٹرول ایجنسی کے مطابق صدر کایہ نسخہ محض ٹوٹکا ہے کیونکہ ابھی ثابت نہیں ہوا کہ ملیریا کی ادویات کرونا کے علاج کیلئے مفید ہیں صدر صاحب نے اپنے کسی مشیر ذوالفی کے کہنے پر بازی لے جانے کی کوشش کی تھی جو الٹا ہوگیا صدرٹرمپ کو چاہئے کہ وہ شرم وحیا ایک طرف کرکے چینی صدر سے پوچھیں کہ انہوں نے وبا پر کیسے کنٹرول پایا اگرچہ چین نے جس طرح کنٹرول پایا امریکہ یا مغرب ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں پر جمہوریت ہے اور پارلیمنٹ کی اتنی بالادستی ہے کہ کسی بھی بات کو پوشیدہ نہیں رکھاجاسکتا اسی طرح چین کے چھوٹو شمالی کوریا نے بھی شروع ہی سے کرونا کا جبری خاتمہ کردیا ادھر اٹلی میں بھی روزانہ سینکڑوں لاشوں کو فوجی ٹرکوں کے ذریعے دوردراز علاقوں میں لے جاکر اجتماعی قبروں میں ڈالاجارہا ہے چونکہ پورا اٹلی لاک ڈاؤن ہے اس لئے کوئی یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کررہا کہ سینکڑوں لاشیں کہاں سے آرہی ہیں اور ورثاء کے بغیر انہیں گہرے گڑھوں میں کیوں ڈالا جارہا ہے اٹلی کے وزیراعظم نے بھی شروع میں عمران خان کی طرح پورے ملک کو لاک ڈاؤن کرنے سے انکار کردیا تھا لیکن جب ایک لاکھ سے زائد لوگ بیماری میں مبتلا ہوگئے اورپانچ ہزار اموات ہوئیں تب انہوں نے 7کروڑ آبادی کوقرنطینہ میں رکھ دیا اٹلی جس کی جی ڈی پی پاکستان سے دوسوگنا زیادہ ہے اسکی معیشت محض ڈیڑھ ماہ میں زمین بوس ہوگئی ہے اگر بیماری نے جلدی جان نہ چھوڑی تو وقتی طور پر دنیا کا چھٹا بڑا صنعتی ملک بھی معاشی طور پر یونان اور پرتگال کے برابر آجائیگا ادھر برطانیہ بھی افراتفری اور گھبراہٹ کا شکار ہے وہاں کی حکومت صحیح وقت پراپنے عوام کو گائیڈنس نہیں دے سکی جس کی وجہ سے وہاں تقریباً قحط کی سی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں کے لوگ کافی شیطان طبیعت واقع ہوئے ہیں کئی لوگ وبا کی سنگینی کو نظرانداز کرکے سوشل میڈیا پر خیال آرائی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جس طرح غیر ملکی امداد کی خاطر پولیو ختم نہیں ہوا اسی طرح کرونا بھی طویل عرصہ تک موجود رہے گا تاوقتیکہ عالمی خیراتی ادارے اپنا ہاتھ مکمل طور پر کھینچ نہ دیں یہ ایک ظالمانہ تبصرہ ہے بے شک پاکستان کی معیشت پہلے سے خراب تھی اور حکومت منتظر تھی کہ کس طرح کوئی غیبی امداد آئے اور اس کمزوری کو چھپادے لیکن کرونا کے بعد صورتحال نہ صرف خراب ہوگئی ہے بلکہ آئندہ کچھ عرصہ میں مزید ابترہوجائے گی وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ جلد ایک پیکیج کااعلان کیاجائیگا لیکن لگتا ہے کہ یہ پیکیج بھی سیاسی نوعیت کا ہوگا یہ غریب عوام کوفائدہ دینے کی بجائے من پسند حلقے کو ہی فائدہ دے گا وزیراعظم نے اقتدار میں آنے سے پہلے کیاتھا کہ وہ وسائل کا زیادہ حصہ انسانوں پر خرچ کرے گا۔لیکن دوسال ہونے کو آئے ہیں وہ عوامی فلاح وبہبود پر ایک آنہ بھی خرچ نہ کرسکے وسائل کی کمی اپنی جگہ لیکن انہوں نے کوئی منصوبہ ہی نہیں بنایا کرونا کی وجہ سے صحت کا شعبہ جس طرح بے نقاب ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے اگر نوازشریف ایک کھرب روپے کی لاگت سے نمائشی منصوبہ اورنج ٹرین نہ بتاتے یااتنی ہی لاگت سے تین میٹرونہ بناتے تو کئی شاندار اسپتال بن سکتے تھے لیکن اسپتال اورنج ٹرین اور میٹرو کی طرح عوام کو چلتے ہی دکھائی نہ دیتے اس لئے اتنی واہ واہ نہ ہوتی موجودہ حکومت نے بھی احساس پروگرام انصاف کارڈ وغیرہ پراربوں روپے جھونک دیئے ہیں یہ بھی اسی طرح کانمائشی پروگرام ہے اور نہ ہی صحت کے مسائل کا حل ہے بہتر ہوتا کہ حکومت وفاقی دارالحکومت اور چاروں صوبوں میں نئے اسپتال بناتی یا موجودہ اسپتالوں پرسرمایہ کاری کرتی اس سے عوام کا بہت بھلا ہوتا۔
اگر کراچی میں جناح،سول،لیاری جنرل،عباسی،امراض دل،بچوں کے اسپتال وغیرہ کی حالت بہتر بنائی جائے تو یہ نہایت شاندار ادارے کافی مفید ثابت ہوسکتے ہیں میڈیا کے مطابق لاہور کے تمام سرکاری اسپتالوں کا براحال ہے نہ گزشتہ حکومت نے ان پر توجہ دی اور نہ ہی موجودہ حکومت کوئی کام کررہی ہے اور تو اور اسلام آباد کے سب سے بڑے اسپتال پمز اور پولی کلینک کا بہت ہی برا حال ہے حکومت کو چاہئے کہ جب تک کرونا ختم نہیں ہوتا ملک کے تمام نجی اسپتالوں کو قومی ملکیت میں لے لے جہاں مریضوں کو مفت علاج کی سہولتیں فراہم کی جائیں کیونکہ پرائیویٹ اسپتال ایک تو کرونا کے مریضوں کو داخل نہیں کررہے ہیں اگر کچھ لوگوں کا وہاں سے علاج ہورہا ہے وہ اتنا مہنگا ہے کہ ناقابل برداشت ہے دوسرے قدم کے طور پر تمام اخراجات کوموقوف کرکے کھربوں روپے کرونا کے تدراک اور علاج کیلئے وقف کیاجائے۔ادھر بلوچستان میں صورتحال بہت خراب ہے وفاق کو چاہئے کہ وہ شیخ زید اسپتال کی فوری توسیع کرے اور کوئٹہ شہر کے اطراف میں ایک ہزار بستروں پرمشتمل ایک اسپتال کا منصوبہ بنائے کیونکہ سول اور بی ایم سی میں نہ تو توسیع کی گنجائش ہے اور نہ ہی بہتری کی،سول اسپتال تو مرکز صحت کم اور اصطبل خانہ زیادہ معلوم ہوتا ہے وہاں پر بے شمار عمارات تعمیر کردی گئی ہیں نہ پھول پودے ہیں اور نہ ہی گھاس،صفائی کے اعتبار سے یہ ملک کا بدترین اسپتال ہے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے دل کے اسپتال کے قیام کیلئے ایک ارب روپے دیئے تھے وفاق کا فرض ہے کہ وہ مزید سو ارب روپے کی امداد دے کر اس اسپتال کی تعمیر شروع کروادے۔
یہ جو وبا ہے یہ وفاقی حکومت گھیر کربلوچستان لائی ہے اس کا فرض بنتاہے کہ وہ بلوچستان کے مسائل کا کچھ مداوا کرے
ایک تجویز یہ آئی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کو قرنطینہ سینٹرمیں تبدیل کیاجائے ایک تو یہ شہر سے دور ہے دوسرے یہ کہ وہاں پر سینکڑوں عمارتیں ابھی تک خالی ہیں یہ ایک اچھی تجویز ہے اس سے کرونا کے تدراک اورعلاج میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں