دشنام طرازی کی سیاست

تحریر: رشید بلوچ
مخالفین کی پگڑی اچھالنے کی سیاست سب پہلے 80 کی دہائی میں مسلم لیگ ن نے متعارف کرا ئی تھی، اس دور میں ن لیگ کا پیپلز پارٹی کے ساتھ چھتیس کا آکڑہ چل رہا تھا، میاں نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس کا تہذیب و تمدن سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا، ن لیگ نے ہر وہ مکروہ کارنامہ انجام دیا جسکا سوچ کر بھی انسان کو گھن آجاتا ہے،سالوں بعد تحریک انصاف کی سیاست میں آنے کے بعد سیاست میں گالی گلوچ کا پرانا ن لیگ والا طرز عمل پروان چڑھا ہے، آج سے 29یا30 سال قبل ابلاغ کے ذرائع محدود تھے اسلئے ن لیگی سیاہ کارنامے معاشرے میں زیادہ نہیں پھیل سکے اس جدید دور میں ذرائع ابلاغ کے تیز تر رسائی و جدید ٹیکنالوجی نے گالم گلوچ کی سیاست کو خوب پھیلا دیا ہے، سیاسی اختلافات اخلاقیات کے بجائے سیاسی اسٹیج پر مخالفین کے خلاف بیہودہ جملہ بازی،گالم گلوچ، Physical criticism عام ہوچکی ہے،یہ بیماری گلگت بلتستان سے لیکر کوئٹہ تک اوپر سے لیکر نیچے تک معاشرے کے ہر طبقے کے رگوں میں پیوست ہوچکی ہے،سوشل میڈیا کا کوئی بھی پیج اٹھا کر دیکھ لیں صارفین نے مخالف نظریہ،مخالف سوچ رکھنے والوں کے خلاف طوفان بد تمیزی برپا کر رکھی ہے،شیخ رشید کا بلاول بھٹو زرداری سے متعلق گھٹیا جملہ بازی اور اسکے بعد پیپلز پارٹی کے ایک بلوچ رکن اسمبلی قادر پٹیل کا مراد سعید کے حوالے سے معنی خیز طرز تکلم سیاسی گھٹیا پن کے اعلی نمونے ہیں،حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کے دورا ن لیگ کے نائب صدر مریم نواز کے حوالے سے علی امین گنڈا پور نے جس طرح کے ریمارکس پاس کیئے ہیں اسے قطعی طور پر تہذیبی زبان نہیں کہا جاسکتا نہ اسکا سیاسی اختلاف سے کوئی تعلق ہے، امین علی گنڈا پور 2018 کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 38 ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا فضل الرحمان کو ہرا کر رکن اسمبلی بنے تھے،اس شخص نے تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران بلیک لیبل شہد ایجاد کرنے پر میڈیا میں خوب شہ سرخیاں بٹوری تھیں۔
تحریک انصاف کو دیکھتے ہوئے دوسری جماعتوں نے بھی اپنے اندر ایک ایک شیخ رشید اور علی امین گنڈا پور پیدا کر دیا ہے،ن لیگ،پیپلز پارٹی نے چن چن کر مخالفین کو گالی پڑوانے کیلئے اپنے شیر اور جیالے میدان میں اتار دیئے،تاکہ وہ مخالف جماعت کی ایسی کی تیسی کر دیں،جس طرح تحریک انصاف نے اپنی گالی اسکواڈ میدان میں اتار دی ہے ان تمام معرکہ بازی میں جمیعت علماء اسلام کہاں پیچھے رہنے والی تھی،انہوں نے بھی حافظ حمد اللہ کو فرنٹ لائن پر کھڑا کردیا،حافظ حمداللہ کے ٹی وی ٹاک شوز میں خواتین کے بارے میں جملہ بازی باقیوں سے سبقت لے گئی ہے،پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا میں گالم گلوچ گینگ بنا رکھے ہیں جن کو کروڑوں روپے کا فنڈ صرف اس لیئے دیا جاتا ہے تاکہ وہ مخالفین کیلئے نئے نئے طریقے کی گالیاں ایجاد کر سکیں۔۔۔
قیادت ورکرز کا رول ماڈل ہوتا، ورکروں کی اخلاق سازی کی ذمہ داری ہمیشہ قیادت ادا کیا کرتی ہے،قیادت ورکرز کو جس راہ پر لگا دیتی ہے ورکر اندھی تقلید میں اسی راہ پر چل نکلتا ہے،چونکہ قیادت خود بد اخلاقی اور Physical criticism کی اندھیری کھائی میں گری ہوئی ہے تو ورکرز کے لب و لہجے میں بھی وہی تلخی اور بد تمیزی پیدا ہوچکی ہے جو انہیں قیادت نے سکھائی ہوئی ہے،علی امین گنڈا پور کی گلگت بلتستان میں بیہودہ گوئی کو مشیر اطلاعات شبلی فراز نے ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر کمال مہارت سے دفاع کیا ہے،جسے دیکھ کر انسان خود شرمسا ر نہ ہو تو کیا کرے، کسی غلط کاری پر نادم ہونے اور اسکی حوصلہ شکنی کے بجائے الٹا ایسی بد تمیزی کیلئے جواز گڑے جارہے ہیں جیسے انہوں نے کوہ طور سر کیا ہو،حکومتی زمہ داران کی طرف سے نفرت انگیز تقریر کیلئے جواز تلاشنے کا مقصد ہی یہی کہ قیادت کی مرضی و منشاء سے اسے دوام بخشا جارہا ہے، قیادت کا وطیرہ دیکھ کر اندازہ لگا نا مشکل نہیں کہ معاشرے کو جان بوجھ کر گالم گلوچ پر لگا دیا گیا ہے، تاکہ عوام کا روٹی،کپڑا،مکان اور زندگی کی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے مسائل سے توجہ ہٹا یا جاسکے۔
مخالفین کے ساتھ بد کلامی کی بیماری سب سے پہلے پنجاب میں شروع ہوئی تھی،بلا شبہ اسکا آغاز وزیر اعظم عمران خان کی اپنی تقریروں سے ہوا تھا بعد میں دوسرے جماعتوں کے قائدین اور ورکرز نے یہ وطیرہ اپنا لیا ہے یہ رفتہ رفتہ ہ دوسرے صوبوں میں پھیلتا گیا لیکن قبائلی معاشرہ ہونے کی وجہ سے کسی حد تک بلو چستان اس شر سے بچا ہوا تھا،معاشرے میں لگی آگ سے بلوچستان کتنی دیر تک محفوظ رہ سکتا تھا آخر کار اس آگ نے بلوچستان کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا، روایت کے امین ہونے کا دعویدار صوبہ بھی دشنام طرازی کی گندی عادت کا شکار ہوگیا ہے،ہم دعوی کرتے ہیں روایت کی،بلوچ روایت تو دشمن کے مرنے پر بھی خوشیاں منانے سے روکتا تھا،مخالف کو گالی دینا تو دور کی بات بلکہ مخالف کی غیر موجودگی میں اسکا برے الفاظ میں یاد کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا،باقیوں کو دیکھ کر اب لگتا ہے کہ بلوچستان کی قیادت کے غلط رویے کی وجہ سے صوبے کے طول و ارض میں یہ نا سور پھیل گیا ہے۔
اپنے معاشرے کا اصل روپ دیکھانا ہے جسے عرف عام میں پڑھا لکھا طبقہ کہا جاتا ہے تو ذرا سوشل میڈیا پر ایک نظر دوڑائیں آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ یہ معاشرہ کس پستی کا شکار ہوچکا ہے،معزز لیڈر شپ کی اہل و عیال سے متعلق گھٹیا سے گھٹیا زبان استعمال کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کیا جاتا،بلوچ معاشرے میں قبائلی رنجشیں،دشمنی صدیوں، ہزاروں سال پرانی چلی آرہی ہیں،رند و لا شار سے لیکر رند و رئیسانی تک قبائلی دشمنیوں میں ہزاروں جانیں چلی گئیں گاؤں کے گاؤں کے اجڑ گئے ان تمام ادوار میں گالم گلوچ کا کہیں کوئی مثال ملنا مشکل ہے،بلوچستان میں گالم گلوچ کی روایت بلکل نئی ہے اسے نہ روکا گیا تو یہ معاشرہ اخلاقی پستی کے ساتھ ساتھ یہ مزید قبائلی دشمنیوں کو دوام بخشے گا، گالم گلوچ کی اس روایت کو مل کر ختم کرنے کی زمہ داری ان قبائلی عمائدین پر عائد ہو تی جسے انہوں نے رائج کر دیا ہے،اگر ایسا نہ ہوا تو کسی کو اپنے روایتی ہونے کے دعوے سے بھی دست بردار ہونا پڑے گا پھر کائے کی روایت کائے کی قبائلیت۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں