پی ڈی ایم کی پیوند کاری

تحریر: رشید بلوچ
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے بین الاقوامی میں نشر یاتی ادارے کو اپنے انٹر ویو میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیکی رفقاء سے رابطے کیئے گئے ہیں،انہوں نے یہ نہیں بتا یا کہ رابطے کس نوعیت کے تھے،رابطے صرف ن لیگ سے ہوئے ہیں یا پی ڈی ایم کے دیگر جماعتیں بھی اس میں شامل ہیں اور آیا ایسے رابطے مستقبل بھی جاری رہیں گے،اگر رابطے مزید جاری رہے اور فیصلہ کن مزاکرات کا کوئی دریچہ کھل گیا تو کیا ن لیگ اپنے اکیلے کا پنڈورا بکس لیکر مزاکرات کرے گی یا اس میں پی ڈی ایم شامل ہوگی؟ مریم نواز کی اس تہلکہ خیز انٹرویو کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری میدان میں کھود گئے ہیں دونوں رہنماؤں نے مریم نواز کے انٹر ویو کا رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس قسم کے مزاکرات ہوئے بھی تو یہ مزاکرات پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کیئے جائیں گے،مریم نواز کے انکشاف کے بعد دونوں رہنماؤں میں خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں ن لیگ حسب روایت اکیلے معاملات طے نہ کر لے اس لیئے دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے فوری رد عمل دینا ضروری سمجھا، ن لیگ کو احساس دلایا گیا کہ ہم بھی راہوں میں پڑے ہیں،جب کہ پی ڈی ایم کے دیگر جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کارد عمل تا دم تحریر سامنے نہیں آیا ہے۔
غالب گمان یہی ہے کہ طاقتور حلقے پی ڈی ایم کے تین بڑی جماعتوں کے ساتھ بیک وقت پس پردہ رابطے میں ہیں تاکہ ان جماعتوں کو کسی نہ کسی طریقے سےEngage رکھا جا سکے، تینوں جماعتوں کے ساتھ رابطوں کا ایک دوسرے کو علم بھی ہے، بلکہ یہ کہا جانا بھی بے جا نہ ہوگا کہ پی ڈی ایم میں شامل قوم پرست جماعتوں کے ساتھ بھی رابطے ہو چکے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ مریم نواز نے ن لیگ کے ساتھ ہونے والے رابطوں کا کھل کر اظہار کیا ہے اور باقی جماعتیں رابطوں کو پوشیدہ رکھ کر چھپانا چاہ رہی ہیں،مریم نواز کو ن لیگ کے ساتھ ہونے والے ربطوں کا اظہار اس لئے کرنا پڑا کیونکہ میاں نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر کی خفیہ ملاقاتوں کے بعد نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ کوئی بھی ملاقات خفیہ نہیں رکھا جائے گا، باقی جماعتوں نے نواز شریف کی طرح کوئی کمٹمنٹ نہیں کی ہے اس لئے انکے پاس راز چھپانے کا“ حق محفوظ“ ہے۔
مریم نواز نے متعدد بار وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بڑوں کی جنگ میں چھوٹوں کا کوئی کام نہیں ہے اور ان کے والد ماجد کی طرف سے اپنی وڈیو تقاریر میں کھل کر دو بڑے اداروں کے سربراہاں کا نام لیکر مخاطب کر نے سے یہ تاثر دینا چاہ رہے تھے کہ انکی لڑائی ان دونوں مخاطبین سے ہے،تو ظاہر ہے بات چیت بھی انہی سے ہو رہی ہے اور مطالبہ بھی انہی سے ہے کہ“ چھوٹے“ کو نکال دو،یعنی کہ جن سے“ لڑائی“ ہورہی ہے انہی سے کچھ کرنے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ جس سے لڑ رہے ہوں اور اسی سے مدد بھی مانگ رہے ہو ں،ن لیگ کے اس نئے مطالبے سے اسکا موقف کمزور ہوتا نظر آرہا ہے،ن لیگ کا کمزور پڑتا موقف سے تحریک انصاف کے وزراء بھر پور فائدہ اٹھا نے کی کوشش کر رہے ہیں، نئے موقف سامنے آنے کے بعد ن لیگ کو پی ڈی ایم اور حکومتی وزراء کے سامنے بھی دفاعی پوزیشن اپنانا پڑے گی،اس سے قبل ایاز صادق کی جانب سے پارلیمنٹ کے اندر اپنے دیئے گئے بیان پر ن لیگ کو Defensive کر دیا تھا،ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستانی قوم سے معافی مانگنے کا عندیہ بھی دیا تھا بعد ازاں آہستہ آہستہ ن لیگ نے اس معاملے کو کور کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔۔۔
میرا شروع دن سے موقف رہا ہے کہ پی ڈی ایم اپنے معاملات میں یک سو نہیں ہے انکے بیانیہ میں نظم و ضبط (Discipline) نہیں ہے ہر جماعت اپنی ہانک رہا ہے،حالیہ دنوں میں پی ڈی ایم کے آخری آل پارٹیز کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے اقرار کیا کہ انکے اندر معاملات آگے بڑھانے کیلئے یکسوئی موجود نہیں ہے،مائنڈ سیٹ میچ نہیں ہو رہے جسکی واضح مثال کراچی میں ہونے والی مشہور زمانہ“ اغواکاری“ کے بعد زمہ داران کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹ ہے جسے بلاول بھٹو زرداری نے من وعن تسلیم کرلیا لیکن ن لیگ نے اسے ماننے سے انکار کرکے“ ریجیکٹڈ“ کہاہے،اے پی سی کے بعد مولانا نے پی ڈی ایم کے اندر ایک بار پھر نئے میثاق کی ضروت محسوس کی ہے،اب یہ نیا میثاق کب اور کیسے بنے گا،کیا نئے میثاق میں تمام جماعتیں متفق ہو پائیں گی؟ اس کیلئے انتظار کرنا پڑے گا، جمعیت والے حضرات بجاہ طور پی ڈی ایم بنانے کا کریڈٹ مولانا صاحب کو دیتے ہیں،مولانا نے دوسال کی کوششوں کے بعد پی ڈی ایم کی پیوند کاری کرکے انہیں ایک چھت تلے جمع تو کردیا لیکن انہیں Disciplined نہیں کر سکے،پی ڈی ایم بھیڑ بکریوں کی اس ریوڑ کی مانند ہے جس میں بکریوں کو یکجاہ کیا جاتا ہے تو بھیڑ بھاگ جاتی ہیں اگر بھیڑ جمع ہوں تو بکریاں لائن کراس کر جاتی ہیں،جب مشکل سے دونوں جمع ہوں تو اسکے بعد آپس میں لڑ پڑتی ہیں، سب کی نگاہیں دور دیکھائی دینے والی سبزے پر ٹکی رہتی ہیں، سب گھاس تک پہنچنے کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کوشش میں رہتے ہیں،کبھی کبھی بھیڑ بکریوں کی چکر میں چرواہے کو کھانے کے لالے بھی پڑ جاتے ہیں۔۔۔پی ڈی ایم کوئٹہ جلسے میں بلاول بھٹو زرادری کی عدم شرکت نے بھی مبصرین کو سوال اٹھا نے کا اچھا خاصا موقع فراہم کیا، کوئٹہ کے بعد پشاور جلسے میں طویل توقف نے بھی سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین کو تذبذب کا شکار کر دیا،حالانکہ پی ڈی ایم کے اکابرین پشاور جلسے کے توقف کی وجہ گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات میں بلاول بھٹو زرادری کی مصروفیات کو قرار دے رہے ہیں لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی نواز شریف کے بیانیہ کے ساتھ چلنا نہیں چاہ رہی جبکہ دوسری جانب نواز شریف اور انکی بیٹی مریم نواز اپنے بیانیہ سے کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں، ایسی صورت میں دونوں بڑی جماعتوں کا ساتھ چلنا دشوار ہوتا جارہا ہے،اسلام باد میں ہونے والی آل پارٹی کانفرس مولانا کی جانب سے دونوں جماعتوں کو آگے ساتھ چلنے کی ایک ترغیبی نشست تھی جس میں دونوں جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا، لیکن مولانا نے کسی نہ کسی طریقے سے دونوں جماعتوں کو منانے میں کامیابی حاصل کر لی،اجلاس کے بعد میڈیا کے سامنے مولانا کے لب و لہجہ کی تلخی صاف بتا رہی تھی کہ اجلاس کے اندر پیدا ہونے والے معاملات کچھ خاص خوشگوار نہیں تھے،بہر حال جیسے تیسے کرکے مولانا پی ڈی ایم اتحاد کو لیکر آگے کی طرف گامزن ہیں،رواں ماہ کی 22تاریخ کو پشاور کا جلسہ شیڈول ہوگیا ہے،پشاور جلسہ کے بعد حکومت اور اپوزیشن کا آگے لائحہ عمل سامنے آنا شروع ہوجائے گا، اسکے بعد ہی معلوم ہوگا کہ کون کس کو پچاڑنے کی پوزیشن میں ہوگی؟

اپنا تبصرہ بھیجیں