اے این پی کیلئے چیلنج۔۔۔۔۔۔!

تحریر: رشید بلوچ
عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت کا حصہ ہے،جب کہ مرکز میں اے این پی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا ساتھی ہے، پی ڈی ایم نے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کا عہدہ عوامی نیشنل پارٹی کو دے رکھی ہے، کسی پارٹی یا اتحادی جماعتوں میں اطلاعات کا عہدہ انتہائی زمہ دارنہ عہدہ مانا جاتا ہے،پالیسی بیان ہمیشہ سیکرٹری اطلاعات کے زریعہ پبلک کی جاتی ہے،اے این پی کے مرکزی رہنما میاں افتخار حسین اس وقت پی ڈی ایم کے سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر فائز ہیں،میاں افتخار حسین نے گزشتہ سال کوئٹہ میں اپوزیشن کے جلسے میں اعلان کیا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں جب بھی کہیں گی اے این پی بلوچستان کی حکومت سے علیحدہ ہوجائے گی،جس وقت افتخارحسین نے یہ کھلا آپشن اپوزیشن کو دیا تھا تب پی ڈی ایم وجود میں نہیں آئی تھی،گزشتہ سال ہونے والے جلسے میں بلوچستان نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی شریک نہیں تھیں لیکن پی ڈی ایم میں شامل دیگر تمام جماعتوں نے مل کر یہ جلسہ کیا تھا۔
گزشتہ دنوں پشین میں عوامی نیشنل پارٹی نے جیلانی خان اچکزئی (مرحوم) کی یاد میں جلسہ کیا تھا جس میں اے این پی کی صوبائی قیادت نے علی الاعلان پیغام دیا کہ وہ بلوچستان کی صوبائی حکومت سے الگ نہیں ہوگی،اے این پی بلوچستان نے اپنی حریف جماعتوں کا نام لیئے بغیر انہیں آستین کا سانپ کہا،اے این پی کا اشارہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمیعت کی طرف تھا، پشتون علاقوں میں اے این پی کا مقابلہ پشتونخو ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علما اسلام سے ہے، جمعیت 1996 سے لیکر 2013 تک بلوچستان میں مختلف حکومتوں کا حصہ رہی ہے جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو 2013 سے 2018 تک مختار کل اتحادی ہونے کا موقع میسر آیا تھا،پشتو نخوا نے ڈاکٹر مالک بلوچ اور نواب ثنا اللہ زہری کو اتحادی ہونے کے ناتے تن کر رکھا تھا،اے این پی کی صوبائی قیادت حکومت میں رہ کر اپنے اپنے انتخابی حلقوں کو مضبوط رکھنا چاہتی ہے وہ اپنی حریف جماعتوں کے مشورے پر حکومت چھو ڑنے کے حق میں نہیں ہے،اے این پی کی صوبائی قیادت سمجھتی ہے کہ انکی قیادت کو پی ڈی ایم کے اندر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمیعت علماء اسلام بلوچستان کی مخلوط حکوت سے الگ ہونے کے اشارے دے رہی ہیں، اے این پی کی صوبائی قیادت کی پی ڈی ایم سے عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 25 اکتوبر کو ہونے والے پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسے میں صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کے علاوہ اے این پی کے کسی ممبر اسمبلی نے شرکت نہیں کی، جلسے سے ایک دن قبل ارباب ہاؤس میں عشائیہ کے دوران صوبائی وزیر زمرک خان اچکزئی اور نعیم باز ئی نے اپنی قیادت کو واضح انداز میں کہا تھا کہ وہ پی ڈی ایم کے“ چکر“ میں پڑنے والے نہیں اگر مرکزی قیادت نے ان پر بلوچستان حکومت سے الگ ہونے کا دباؤ ڈالا تو وہ پارٹی چھوڑ جائیں گے لیکن حکومت سے الگ نہیں ہوں گے، پشین جلسے سے اے این پی بلوچستان کی قیادت نے نہ صرف اپنی حریف جماعتوں کو پیغام دیا ہے بلکہ انہوں نے وزیر اعلی جام کمال خان کو اپنی وفاداری کا یقین بھی دلا یا ہے، جب سے پی ڈی ایم بنی ہے بلوچستان کے حکومتی حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں کی جارہی ہیں کہ اے این پی کسی بھی وقت حکومت چھوڑ سکتی ہے انہی خدشات کو پیش نظر رکھ کر چند روز پہلے وزیر اعلی جام کمال خان نے اپنے قریبی رشتہ دار سردار اختر جان مینگل کا نام لیکر مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے این پی بھی ہمیں چھوڑ کر ساتھ دے تب بھی بلوچستان حکومت آپ نہیں گرا سکتے، وزیر اعلی جام کمال خان کو سردار اختر جان مینگل کو اس لئے مخاطب کرنا پڑا کیونکہ سردار اختر جان مینگل کئی بار عندیہ دیتے رہے ہیں کہ وہ جام کمال خان کی حکومت کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد لا سکتے ہیں،اے این پی کی طرف سے کھلے عام اپنی وفاداری کے اعلان کے بعد جام صاحب بھی مطمئن ہوگئے ہوں گے اور دیگر حکومتی اتحادیوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔
حالانکہ اب تک اے این پی کی مرکزی قیادت نے بلوچستان حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا ہے، لیکن مرکزی قیادت کے ممکنہ فیصلے کو بھانپتے ہوئے صوبائی رہنماؤں نے پہلے سے ہی اپنی پوزیشن واضح کردی ہے، ہوسکتا ہے پی ڈی ایم آگے چل کر اے این پی کو بلوچستان حکوت سے الگ ہونے کا مشورہ دے تب اے این پی کیلئے فیصلے پر عمل در آمد کرانے اور اپنے لوگوں کو بلوچستان حکومت سے استعفی دینے پر قائل کرنا بہت مشکل ہوگا،کیونکہ صوبائی قیادت پہلے سے ہی مرکزی قیادت پر واضح کر چکی ہے کہ وہ استعفی دینے سے زیادہ پارٹی چھوڑ نے کو تر جیح دے گی،ایک بہت بڑا مسئلہ اے این پی کیلئے یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں اے این پی کے اندر دھڑے بازی کی سیاست پنپ چکی ہے،زمرک خان اچکزئی اپنے لابی کے ذریعہ اصغر خان کی جگہ صوبائی صدر بننے کے خواہش مند ہیں،زمرک خان کے حامی لابی کا دعوی ہے کہ صوبائی کونسل میں انکی اکثریت ہے،حالیہ صوبائی کونسل کی دو روزہ نشست میں اصغر خان اچکزئی کو کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا،صوبائی کونسل کا فیصلہ کن سیشن جاری تھا کہ اس دوران اے این پی کے صوبائی اسیکرٹری اطلاعات اسد خان اچکزئی کے اغوا کا واقع رونما ہوا جس کی وجہ سے صوبائی کونسل کا سیشن معطل کرنا پڑا،اصغر خان اچکزئی کا مخالف لابی مطمئن ہے کہ اگلے صوبائی کونسل سیشن میں وہ بھاری اکثریت سے زمرک اچکزئی کو صوبائی صدر بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے،اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آیا اے این پی میں بھی جمعیت اور ن لیگ کی طرح بغاوت ہوگی،یا اے این پی بلوچستان کے سیاسی زلزلے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگی، بس وقت کا انتظار ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں