ایشیاء کا مرد بیمار

تحریر: انور ساجدی
اگرچہ گلگت بلتستان کا الیکشن ایک مذاق ہے لیکن یہ رزلٹ خلاف توقع نہیں تھا کشمیر اور بلوچستان کی طرح یہ دیرینہ روایت ہے کہ مرکز میں جس کی حکومت ہو اسی پارٹی کو جتن کر کے برسر اقتدار لایا جاتا ہے کیونکہ گلگت بلتستان ایک حساس علاقہ ہے اور اسے اپوزیشن کے حوالے نہیں کیا جا سکتا بلوچستان کی مثال سامنے ہے یہاں پر صوبہ بننے کے بعد ایک دو وقفوں کے سوا ہمیشہ مرکزی حکومتیں رہی ہیں سندھ میں 2018ء میں ایک نیا تجربہ کیا گیا جس میں کئی جماعتوں کا ایک اتحاد جی ڈی اے کے نام سے بنایا گیا جبکہ ایم کیو ایم کے سابق رہنماء اور سابق میئر مصطفی کمال کی ایک چھوٹی سی پارٹی بنا کر اسے لانچ کیا گیا یہ جماعت عام انتخابات میں بری طرح ناکام ہو گئی اس کے باوجود اسے حال ہی میں دوبارہ لانچ کیا گیا ہے نہ صرف یہ بلکہ 12سال تک سندھ کے گورنر رہنے والے عشرت العباد کو ایک اور مقصد کیلئے لانچ کیا جا رہا ہے موصوف کو ایم کیو ایم توڑنے کا صلہ دیا جا رہا ہے انہوں نے اپنے دور میں چائنا کٹنگ کو بام عروج تک پہنچایا یہ جو آج کراچی تباہ و برباد ہے اس کی زیادہ تر ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو یہاں پر معززین کا ایک مخصوص گروپ انتخابات میں لایا جاتا ہے جو ہر مرکزی حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کے ماہر ہوتے ہیں بلوچستان کی معاشی زبوں حالی 80 فیصد سے زائد افراد کی غربت کی لکیر سے نیچے جانے، بلوچستان کے وسائل پر وفاق کا قبضہ اسی ٹولے کا مرہون منت ہے اگر ریکارڈ چیک کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ 1977ء سے اب تک ان لوگوں کا ایک ہی بیانیہ تسلسل کے ساتھ چلا آ رہا ہے کہ وفاق بلوچستان کی ترقی کیلئے جو کچھ کر رہا ہے اس کی کوئی مثال موجود نہیں لیکن تمام تر دعوؤں کے باوجود بلوچستان کے عوام کا جو حال ہے اس سے سبھی واقف ہیں اور تو اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ بھی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں سیوریج اور ڈرینج کا نظام ناکارہ ہو چکا ہے ہر سڑک پر گٹرا بل رہے ہیں بارش کے بعد اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے گیس کا پریشر کم ہے اور لوگ سردیوں میں بہت مجبوری کی زندگی گزارتے ہیں دیدہ دلیری اتنی کہ اس تباہ حالی کے باوجود وفاق نے بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ساؤتھ بلوچستان کی ترقی کیلئے ایک پیکج کا اعلان کیا ہے اس نام نہاد پیکج کی تفصیلات کو چھپایا جا رہا ہے کیونکہ یہ کوئی اکانومک پیکج نہیں ہے بلکہ اسٹرٹیجک پیکج ہے ویسے تو اس کے کئی مقاصد ہیں لیکن سب سے بڑا مقصد ریاستی انفراسٹرکچر کو مضبوط کر کے بلوچستان کے ساحل وسائل پر دائمی قبضہ جمانا ہے کوئی نہیں پوچھتا کہ اگر آپ کو بلوچستان کی ترقی درکار ہے تو پہلے کوئٹہ اور دیگر علاقوں کو ترقی دیں جہاں کے لوگ زندگی کی جملہ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ہاؤسنگ اسکیموں سے کوئی علاقہ ترقی نہیں کر سکتا ترقی ہیومن ریسوریس ڈویلپمنٹ سے آتی ہے جبکہ بلوچستان کے بیشتر بچے اسکول جانے سے محروم ہیں سیاسی مقاصد کیلئے یونیورسٹی بنائے گئے ہیں لیکن پورا بلوچستان پرائمری کی معیاری تعلیم سے محروم ہے جب تک کوئی حکومت پرائمری سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری کے اداروں کو ٹھیک نہیں بناتی یونیورسٹیوں سے کیا ہوتا ہے ژوب سے لے کر شالکوٹ اور جھٹ پٹ سے لے کر تفتان تک جو علاقہ ہے جہاں انگریزوں نے ریل سڑک اور تعلیمی اداروں کی بنیاد ڈالی تھی وہاں اتنی پسماندگی کیوں ہے اچانک سرکار کو ساؤتھ بلوچستان سے الفت کیوں ہو گئی ہے اس لئے کہ ساحل وہاں پر ہے اور ساحلوں پر قبضہ کے بعد آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں گوادر اور دیگر علاقوں کو تزویراتی طور پر جو اہمیت حاصل ہے حکمرانوں کی نظر اس پر ہے یہاں عوام اور ان کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ جوں جوں معاملہ آگے بڑھے گا ساحلی عوام کو بے دخل کر کے وہاں پر ڈیمو گرافی تبدیلی لائی جائے گی اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کا خیال ہے کہ اس کے اس قدم سے ایک تو مرکز مضبوط ہوگا دوسرا یہ کہ ساحلی علاقہ اور جزائر کی نیلامی سے وہ اپنے بھاری اخراجات پورے کر سکیں گے عجیب بات ہے کہ کراچی جیسا عظیم شہر کچی آبادی کا منظر پیش کر رہا ہے لیکن وفاق چلا ہے اس کے قریب واقع جزائر کو ترقی دینے اس مقصد کیلئے مقامی اور عالمی ایجنٹوں سے رابطے جاری ہیں ارے خدا کے بندو نئے شہر بنانے سے پہلے پرانے شہر تو ٹھیک کر لو پہلے کوئٹہ کی حالت بہتر بناؤ اس کے بعد تربت، گوادر، جیونی، پسنی اور کنڈملیر میں نئے شہر آباد کرو ایک طرف وسائل کا رونا رویا جا رہا ہے دوسری طرف ساحلی پٹی کو ہتھیانے کیلئے اربوں روپے کے پیکیج کا اعلان کیا جا رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ آئندہ سیکھنے کا ارادہ ہے اگر ان سے پوچھا جائے کہ جب تک بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا تو اتنا پسماندہ کیوں تھا اور ملک کی اکثریتی آبادی نان شبینہ کو کیوں محتاج تھی وہاں کے لوگ سمندری طوفانوں اور قدرتی آفات کا شکار کیوں تھے آج وہ ترقی میں آپ کو پیچھے کیوں چھوڑ گیا ہے اس کے ٹکے کی قدر روپیہ سے کیوں زیادہ ہے ڈھاکہ کراچی سے بڑا اور خوبصورت شہر کیوں بن گیا ہے کراچی کا کمرشل ڈسٹرکٹ آئی آئی چند ریگر روڈ ڈھاکہ کے کمرشل علاقہ گلستان سے پیچھے کیوں رہ گیا ہے چٹاکانگ، کرنا فلی اور کھلنا پاکستانی شہروں سے آگے کیوں چلے گئے ہیں بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر آپ سے کیوں زیادہ ہیں اگر یہ سوالات پوچھے جائیں تو غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کئے جاتے ہیں کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ ملک کی پسماندگی کی اصل وجوہات کیا ہیں غرض کہ آپ کا آوا بگڑا ہوا ہے کوئی ادارہ ٹھیک کام نہیں کر رہا معاشرے میں بے ایمانی، رشوت اور حرام کمائی سرایت کر گئی ہے منشیات کی تجارت بڑھ گئی ہے انفراسٹرکچر تباہ ہے ریاست کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے نعرہ اسلام کا لگایا جاتا ہے جبکہ صبح شام اسلام اور سادگی کا درس دینے والے مشہور خطیب طارق جمیل اہل زر سے ایک نکاح پڑھنے کے ایک ملین کا معاوضہ وصول کر رہے ہیں۔
پورے ملک پر لینڈ مافیا رشوت خور بیورو کریسی خود کو سیاستدان کہنے والے سوداگروں اور ان کے سرپرستوں کا راج ہے یہ ریاست کو اندھے کنوئیں کی طرف لے کر جا رہے ہیں وقت تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکل رہا ہے آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے ملک بھر میں لاکھوں اسٹریٹ چائلڈ آوارہ گھوم رہے ہیں یہ مخلوق بڑی ہو کر ڈاکے ڈالے گی یا منشیات کی لت میں پڑھ جائیگی کوئی پلاننگ نہیں ہے سندھ اور بلوچستان کے 60فیصد لوگ صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں کا شکار ہیں وہ وقت دور نہیں جب پاکستان ایشیاء کا مرد بیمار بن جائے گا جیسے کہ گزشتہ صدی میں ترکی یورپ کا مرد بیمار تھا یا چین کی آبادی پیلیا اور افیون کی لت میں مبتلا تھی ایسا لگتا ہے کہ حکمران اس ملک کواپنا ذاتی مکان نہیں کرایہ کا مکان سمجھتے ہیں ہر ایک اس کو توڑنے میں لگا ہوا ہے کہنے کو یہاں جمہوری نظام قائم ہے لیکن جمہوریت نہیں منتخب پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیا گیا ہے آئین پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے بظاہر وفاقی نظام ہے لیکن عملاً واحدنی طرز حکومت چل رہی ہے 1973ء کے آئین اور خاص طور پر 18ویں ترمیم کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے سیاسی جماعتوں کی حیثیت پراکسی کی رہ گئی ہے وہ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہیں وہ عوامی مسائل کو ٹھیک کرنے کیلئے کوئی جدوجہد نہیں کر رہی ہیں نام نہاد اشرافیہ کی جنگ محض یہ ہے کہ اگلی باری کس کی ہے جبکہ ان تمام بیماریوں کے علاج کیلئے انقلابی شخصیات اور انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے یہ سب جانتے ہیں کہ یہاں کوئی ماؤ کوئی لینن نہیں آئے گا کوئی مہاتیر اور ڈینگ زیاؤ پنگ تو آنا چاہئے یہ جو روز نیشنل سیکورٹی اور اس کو درپیش خطرات کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے یہ عوام کو ڈرانے کی جان بوجھ کر کوشش ہے کیونکہ اس ملک کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ نااہل حکمرانوں سے ہے فرسودہ نظام بے ایمانی، ڈکیتی اور کم عقلی سے ہے 25کروڑ آبادی کا ایک ایٹمی ملک جو 70سالوں سے ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی سمت کیا ہے یہ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے اگر عوام اسی طرح زندہ درگور رہے اور انہوں نے مزید انسانی حرمت کھو دی جو انجام ہو گا وہ کوئی راز کی بات نہیں ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے حکمران اپنی سمت درست کریں اس کے بعد اپنے ہاؤس کو ان آرڈر کریں اس کے بعد آئین پر اٹھانے والے سوگند پر پورااتریں۔
اگر صوبے بنائے ہیں تو حکمران انہیں تسلیم کریں اور صوبوں کے وسائل ان کے ہاتھوں میں دے کر کہیں کہ آپ جانیں آپ کے مسائل جانیں دیکھیں پھر کیا تبدیلی آتی ہے یہ ریموٹ کنٹرول سے ملک کو چلانے کی کوشش گزشتہ صدی کا آزمودہ طریقہ کار ہے یہ نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ معاشی ترقی اور قومی وحدت ایٹم بموں سے وابستہ نہیں ہے یہ وسائل کو عوام کے حوالے کرنے اور انہی پر خرچ کرنے سے منسلک ہے ہمارے حکمران بس یہی چھوٹی سی بات سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں