برّ بلوچ سے بحر بلوچ تک نوحہ خواں!۔۔۔۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔یلان بلوچ
قوم چاہے جتنے بھی قبائل اور مذاہب ومسالک میں تقسیم ہو جب کرب وبلاء آتے ہیں جب مصائب ومشکلات کے بادل چھا جاتے ہیں تو پھر نا وہ قبائل دیکھتے ہیں کہ یہ فلاں قبیلہ ہے لہٰذا اسے استثنیٰ حاصل ہے نا وہ مذاہب دیکھتے ہیں کہ یہ فلاں مذہب سے ہے لہٰذا اسے درگزرکردیں ناوہ مسالک دیکھتے ہیں کہ اس کا مسلک دوسرے سے مختلف ہے بلکہ جب بھی کسی بھی خطہ میں کوئی آفت وپریشانی آتی ہے تو سب کی جھونپڑیوں تک پہنچتی ہے سب کے در ودیوار کو ہلادیتی ہے اور پوری قوم کو متاثر کردیتی ہے۔ موجودہ دور میں مشرق سے لیکر مغرب تک شمال سے لیکر جنوب تک بلوچستان کا خطہ آفتوں کی زد میں ہے،عرصہ دراز سے یہ قطعہ ارضی جھلس رہاہے، مختلف شکلوں میں اور مختلف طریقوں سے زمین کے اس حصے پر آفات نے گزرگاہیں بنائی ہیں۔
ایک چیز ہوتاہے انسانیت یا انسانی وقار اور حقوق شاید بلوچ بحیثیت قوم اس مخلوق میں شمار ہوتاہے کہ نہیں کیونکہ مہذب معاشروں میں تو انسان انسان ہے حیوان کے بھی حقوق کا خیال رکھا جاتاہے اسے زندگی گزارنے کی بنیادی سہولتیں دی جاتی ہیں مگر واحد خطہ بلوچستان ہے جہاں حیوان کے حقوق کے بارے میں سوچنے کی کوئی غلطی نہیں کرتا بلکہ انسانوں کے ساتھ بھی حیوان سے بدتر سلوک کیاجاتاہے۔
عرصہ دراز قبل ساحل بلوچستان کے ایک سرے میں موجود جیونی نامی علاقے میں پیاس سے بلبلاتی خواتین ونوجوانوں نے پانی کی فراہمی کیلئے ریلی نکالی جلسہ جلوس کیا جہاں مقررین نے خطاب کیا جواب میں انہیں پانی کے بجائے گولیاں ملیں اور معصوم بچیاں یاسمین و ازگل جیسے معصوم پھولوں کو مسل کر ہمیشہ کیلئے سلادیا گیا مگر جیونی میں آج بھی پانی کا بحران ہے اور گوادر کے باسی آج بھی پیاسے ہیں۔
سی پیک کو گیم چینجر ثابت کرنے کیلئے دن رات رٹا لگاکر اہلیان گوادر بالخصوص اور اہلیان بلوچستان کو بالعموم نت نئے خواب دکھائے گئے مگر یہ یقین محکم سب کا تھا کہ جن باسیوں کو پانی مانگنے پر گولیوں سے سلادیا گیا ان کیلئے سی پیک بھی کسی اژدھا سے زیادہ بلا ثابت ہوگا مگر پھر بھی وہ دل بہلاتے رہے کہ نہیں ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں کیسے بچے کو بے یار ومددگار چھوڑتی ہے یقینا ایک نہ ایک دن ریاست مہربان ماں کی طرح بچوں پر دست شفقت رکھ کر انہیں اپنی آغوش میں پناہ دے کر یہ ثابت کرے گا کہ وہ حقیقی ماں ہے مگر یہ بھی سب وہم وگمان ہی رہا اور مہربان ماں نہیں تو سوتیلی ماں سے بھی دو قدم آگے بڑھ گیاہے۔
روز اول سے اہلیان بلوچستان ریاست کی جانب نظریں جمائے منتظر ہیں کہ ایک نہ ایک دن ریاست ایک مہربان ماں بن کر واقعی ہمیں بیٹا تسلیم کرے گا مگر ریاست چلانے والوں نے قسم کھالی ہے کہ آپ کی ہمارے دماغ میں وقعت وحیثیت ہی نہیں چاہے آپ لاکھ جتن کرلیں۔ بلوچ قوم یا بلوچستان جو تین حصوں میں تقسیم ہے ایران،افغانستان وپاکستان تینوں ممالک میں آباد بلوچوں کے کئی قبائل جو بکھر ے ہیں ایک دوسرے کی حال سے واقف نہیں۔افغانستان کی تو بات چھوڑیں کہ وہاں سے مملکت خداداد جان سے پیارے وطن پر دنیاکے کئی ممالک کی ایجنسیاں انگشت بدندان ہیں لہٰذا وہاں تو باڑ لگے ہی رہنا چاہیے مگر کیا کہیں ایران سے متصل سرحدی علاقوں کو جو پنجگور بلیدہ زامران اور مند و دشت و تمپ اور جیونی تک پہنچتی ہیں جہاں سے بلوچستان میں رہنے والے انسان پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں مگر ان بارڈروں کو باڑلگاکر کے ڈیزل وتیل کے کاروبار پر ہمیشہ کیلئے قدغن لگایا گیابظاہر چند ایک مقام پر گزرگاہیں بنائی گئی ہیں مگر یہ گزرگاہیں وقتی ثابت ہوتی ہیں اور ایک مدت کے بعد ان کو بھی بغیر پوچھے بندکیا جاتاہے۔
جالگی بارڈر جو ضلع کیچ کو ایران سے ملانے والا سب سے زیادہ قریب ترین سرحدہے اور اہلیان مکران و رخشان وجھالاوان کیلئے سب سے آسان وشارٹ کٹ راستہ ہے مگر وہ طویل عرصہ سے بند ہے اور تیل بردار گاڑیوں کیلئے ممنوعہ علاقہ بن چکاہے، ریاستیں روزگار دیتے ہیں چھینتے نہیں مگر کس سے شکوہ کریں اور کسے فریاد سنائیں کہ سرزمین پر انسانی روپ میں کئی فرعون خدائی کا دعویدار بنے بیٹھے ہیں۔ چلو یہ بھی مان لیا کہ ایران سے متصل سرحدی علاقے کو باڑ لگاکر بند کرنا از حد ضروری ٹہرا اگر ایک معمولی وقت کیلئے بارڈر بندہوگا تو اس کے بدلے ان علاقوں میں ریاست روزگار کے نئے مواقع پیدا کرکے انہیں بہتر سے بہتر روزگار فراہم کرکے انہیں یہ یقین دلائے گا کہ ریاست نے واقعی انہیں اپنا تسلیم کرلیاہے اور ان کیلئے متفکر ہے۔مگر کریں کیا کہ ایک جانب ایران سے متصل سرحدی علاقے کو باڑ لگاکرکے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کردیاگیا جہاں اکا دکا اگر تیل کا کاروبار جاری ہے وہاں بھی سفارشی لوگوں اور ان لوگوں کو گزرنے کا موقع ملتاہے جنہیں سلام علیک کے سلیقے وطریقے آتے ہوں اور ہر شخص کیلئے نہیں بلکہ من پسند لوگوں کے ذریعے من پسند لوگوں پر کرم نوازیاں جاری ہیں اسی چیز کو بھانپتے ہوئے کئی مرتبہ متاثرین نے احتجاج بھی کیاہے حکام تک اپنی پیغام پہنچائی ہے کہ ہم غریب لوگ بارڈر پر سختیاں جھیل کر دشوار گزار راستوں کا سفر طے کرتے ہیں تو یہ ہماری بھوک ہے جو ہمیں مجبور کردیتی ہے مگر کون سمجھ وبوجھ دے اور انہیں سمجھائے کہ ان کی نظر میں ہر بھوکا پیاسا شخص جو روزی روٹی مانگے اس کی حب الوطنی کو فوراً چیک کرنا۔
ایک جانب ایران سے متصل بارڈر پر باڑ لگائے جارہے ہیں اورلگائے جاچکے ہیں تو دوسری جانب باڑ کے اندر باڑ لگائے جارہے ہیں اگر ایرانی سرحد پر باڑلگائے جاتے ہیں تو اس پر ہم سوال کرنے کی جرات ہی نہیں کرسکتے جبکہ باڑ کے اندر باڑ لگانا سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک ہی شہر کے باسیوں ایک ہی قبیلہ وزبان کے لوگوں کو تقسیم کرکے کچھ کو باڑ کے اندر بند کرنا ور ایک حصے کو باہر رکھنا تاکہ ایک دوسرے کا ملاپ نہ ہو یہ کچھ عجیب وغریب ہی محسوس ہوتی ہے۔
ایک پورٹ کراچی میں بھی ہے اگر پورٹ کو باڑلگانا تھا اور خطرات سے محفوظ بنانا تھا تو اس کا آغاز کراچی سے کرتے زیادہ دھماکے،ٹارگٹ کلنگ تو کراچی میں ہوتے ہیں ناکہ گوادر میں اگر باڑلگانا ترقی کا آغاز ہے تو یقینا اس کی مخالفت نہیں بنتا مگر باڑسے پہلے پانی پلاکر پیا س بجھادیتے سمندر کو ماہی گیروں کیلئے کھول دیتے خدا کی قسم ناہم موٹروے مانگتے نا میٹرو بس بس یہ سمندر یہ ریت ہم سے نہ چھینتے کہ ان پر ہمارے آباء واجداد کے نشان ہیں جن پر چل کر ہم سکھ کاسانس لیتے بڑی نوازش ہوتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں