کھلاڑی اور سلیکٹر کا امتحان
بایزید خان خروٹی
میرا ماننا ہے کہ حکمرانوں کو ہمیشہ تنقید کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ کچھ ان کی خواہشات ہوتی ہیں کبھی انہیں بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ کورونا وائرس سے نمٹنے میں جس طرح ہمارے حکمرانوں نے جان فشانی سے کام کیا ہے اور اپنے آرام کا خیال نہیں رکھا اس کی مثال حالیہ تاریخ میں مشکل سے ہی ملے گی۔ بھئی آخر امریکہ کا صدر بھی چھٹیوں پر جاتا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ میں گالف کھیلتا ہے۔ اور کسی سے ملاقات کرنی ہو تو وہ بھی کر لیتا ہے۔ لیکن کیا کریں ساری زندگی کام کے عادی میڈیا اور صحافی حضرات کو یہ فرصت اور چھٹی ہضم نہیں ہوئی اور تنقید کے تیر برسانے شروع کر دئیے کہ ملک آفت میں مبتلا ہے اور وزیراعلی بلوچستان پکنک منا رہے ہیں۔ شکار کھیلا جا رہا ہے۔ پھر مجبوروزیراعلی کو گنداوہ جھل مگسی اور نصیرآباد میں مختلف جگہوں کا دورہ کرنا پڑا اور سند کے طور پر ان کی تصاویر بھی ٹویٹ کرنا پڑیں۔ معروف صحافی طلعت حسین کو بذریعہ ٹویٹ فرمایا کہ آپ اپنی انفارمیشن کی درستگی کر لیں میں تو ان جگہوں پر ان انتظامات کو دیکھ رہا تھا کہ جو میں نے اپنے دور حکومت میں وینٹی لیٹر اور نیبولائزرز ہسپتالوں میں مہیا کیے ہیں وہ درست حالت میں ہیں یا نہیں۔ ڈاکٹرز اور نرسز بھی موجود ہیں یا نہیں۔لیکن میرے دوست موٹا بھائی کی اس بارے میں خیال کچھ یوں ہے کہ یہ کیسا عالم ہے کہ جس کے مناظر نہ تو سلیکٹڈ اور نہ ہی سلیکٹر دیکھنا پسند کرتا ہے لیکن وہ ددیکھیں بھی کیوں؟ کیونکہ ایک تو اس بیماری کے مریض جن کے نزدیک جاتے ہوئے ہی بیماری لگنے کا وہم شروع ہوتا ہے اور خدانخواستہ ان عظیم ہستیوں میں سے کسی کو یہ بیماری لاحق ہوئی تو یہ بہتر جانتے ہیں کہ اس کے علاج معالجے کی سہولیات یہاں کیا ہیں؟۔کوئٹہ کو چھوڑ کر بلوچستان کے باقی کسی بھی ہسپتال میں کہیں بھی وینٹی لیٹر نہیں ہے نیبولائزرز اگرچہ اتنے مہنگے نہیں ہیں لیکن ان کی دستیابی بھی ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کے ہسپتالوں میں ایک دو سے زیادہ نہیں ہو گی۔ بلکہ گنداواہ اور جھل مگسی کے ہسپتالوں میں تو شاید کوالیفائڈ ڈاکٹر بھی ایک آدھ ہی ہو گا۔ کوئٹہ میں انتظامات پورے نہیں ہو رہے اور موصوف گنداواہ، جھل مگسی کا دورہ کرنے پہنچ گئے۔ اگر وزیراعلی صوبائی دارالحکومت کے قریب ترین قصبوں کچلاک اور کولپور کا ہی دورہ کر لیتے تو انہیں اپنے محکمہ صحت کی صورتحال سے مکمل آگاہی مل جاتی اتنی دور فیملی کے ہمراہ ہیلی کاپٹر پر آنے کی کیا ضرورت تھی۔ جب موٹا بھائی مجھ سے یہ بات کر ہی رہے تھے تو ایک اورخبر آئی کہ ژوب سے کورونا کے ایک مشتبہ مریض کو ٹیسٹ وغیرہ کے لیے کوئٹہ منتقل کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا۔ موٹا بھائی نے سوال کیا کہ مریض کو اسی طرح منتقل کیا جا رہا ہو گا جیسا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں؟ ان کے بقول تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بلوچستان میں کل وینٹی لیٹرز کی تعداد 34 ہے جس میں 12فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتا ل کوئٹہ، 7 بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کوئٹہ، 8 سول ہسپتال کوئٹہ اور 7 شیخ زید ہسپتال کوئٹہ میں ہیں جبکہ بلوچستان میں کوئٹہ کے علاوہ کسی بھی ضلع کے سرکاری ہسپتال میں وینٹی لیٹر دستیاب نہیں۔ اگر بلوچستان کی 1 کروڑ 23 لاکھ کی آبادی میں 5 ہزار افراد کرونا وائرس سے پیچیدگیوں کا شکار ہوگئے تو یہ 34 وینٹر لیٹرز سمندر کے سامنے پانی کے ایک قطرہ کی مانند ہوں گے۔ اب جب ان کو سیاسی سکور کا خیال آیا تو اخبار میں وینٹی لیٹر اور دیگر آلات کی خریداری کیلئے مالی قوانین میں نرمی کرکے اشتہار دیا گیا تاکہ مارکیٹ سے وینٹی لیٹر خرید سکیں تاہم یہ گاڑی نہیں جو کوئی چند دن میں سیکھ کر چلا سکیں بلکہ اس کیلئے اعلیٰ تربیت یافتہ ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملے کی ضرورت ہے جنہیں وینٹی لیٹر چلانے کی خاص مہارت حاصل ہو۔ یہ خریداری اس وقت کی جارہی ہے جب حکومتی نااہلی کی وجہ سے مارکیٹ میں 150 روپے کے سرجیکل ماسک کا ڈبہ 1600 میں فروخت ہورہا ہے یعنی طبی آلات کی قیمتوں میں 500 سے 600 گنا اضافہ ہوا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ گزشتہ سال مشینری اور ادویات کی خریداری کیلئے مختص کئے گئے اربوں روپے نا اہلی کی وجہ سے لیپس ہوگئے۔ جبکہ اس سال 20-2019 میں مشینری اور ادویات کی خریداری کیلئے 2 ارب 34 کروڑ روپے مختص ہوئے ہیں جو کہ ابھی تک سرخ فیتہ کا شکار ہیں اور کوئی امکان نہیں کہ جون تک خریداری مکمل کی جائے گی۔موٹا بھائی کہتے ہیں کہ ناکام ٹیم نے سلیکٹر کو امتحان میں ڈال دیا ہے کہ وہ ٹیم بدل کرمزید میچز کھیلنا چاہتے ہیں یا ہٹ دھرمی کرتے ہوئے ناکام کھلاڑیوں کے ساتھ ہی کھیلنا چاہتے ہیں۔اب بھلا میرے پاس ان سوالوں کا کیا جواب تھا۔بس خاموشی میں عافیت جانی اور دعا کرنے لگا کہ یا اللہ اور کرونا کے مریض نہ ہوں ورنہ تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سے کون اور کتنا متاثر ہوا ہو گا۔