چاک گریباں

ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

حبیب جالب کی باغیانہ اور انقلابی شاعری نے انقلابی سوچ اور جمہوریت کی راہ کو متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک قادر الکلام شاعر ہی اس راہ پرچل سکتا ہے۔ جالب کی شاعری لہو کو گرمانے والی شاعری ہے، عوام کا جوش اور حکمرانوں کا ہوش اْڑا دینے والی شاعری ہے طبقاتی نظام کے خلاف جو ارتعاش حبیب جالب نے پیدا کیا شاہد ہی کسی اور شاعر نے کیا ہو۔ حبیب جالب سادہ اور قناعت پسند انسان تھا۔غریبی میں خوش رہنے والا اور بڑی سی بڑی بات کہنے والا شاعر جس کے سامنے جاگیردار، سرمایہ دار، آمرانہ ذہنیت رکھنے والے ٹھہر نہ سکے۔جو اپنے اندر خود ہی انجمن ہوتے ہیں تو وہ دیوا ر بن کھڑے ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی لیڈر اس کے دوست رہے۔ وقت آنے پر اپنی سمت نہیں بدلی، قلم میں کوئی لرزش نہیں آئی۔وہ یہی سمجھتے رہے کہ ایک کپ چائے پینے سے جالب کی زبان چپ ہوجائے گی اور وہ رک جائے گا لیکن راستہ کہاں سورج کا کوئی روک سکا ہے۔
جالب کو یا دکرتے ہوئے ہمیں اپنے اْن اکابرین کی شد ت سے یا د آتی ہے جنہوں نے ان گنت قربانیاں دیں، اذیتیں اور تکلیفیں سہیں، سالوں سال زندانوں میں گزاری اور اْف تک نہیں کی۔ کیا اب ایسا وقت آگیا ہے سب کے سب مٹ چکے ہیں۔ صرف اقتدار ہے، پاور پالیٹکس ہے، بورژوا پارٹیاں ہیں؟ کرسی کی طلب ہے؟ یہ کرسی چاہے کہیں سے بھی ملے۔ جی ہاں آج کی صورتحال ایسی ہی ہے۔یہ حبیب جالب اور ساحر لدھیانوی کی جنگ نہیں، حق حکمرانی کی وہ لڑائی لڑی جاری ہے جس میں عوام کا کوئی حصہ نہیں۔ نام عوام کا ہے اور ووٹ عوام کے ہیں چاہے کہیں سے پڑ جائیں۔ ڈرنا چاہیے عوام کی اصل طاقت اور قوت سے،عوامی ریلا جب آئے گا تو وہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ کرسی رہے گی نہ کرسی والے۔ خلق خدا کی عدالت میں حساب کتا ب نہیں صرف حساب ہوگا اور عوامی عدالت ہوگی جس کے لیے جالب سے لیکر ہمارے کئی اکابرین نے اپنی زندگیا ں وقف کر دی ہیں، وہ دن بھی آئے گا جب تخت والوں کا بھی حساب ہوگا
“یہ جو تخت پر بیٹھے ہیں تمہیں ذلتیں ہی دینگے ”
حبیب جالب جیسے جمہوریت پسند انسان ہی اس معاشرے کی بہتر عکاسی اور اس کے اندر کی برائیوں کو اپنی شاعری میں اتار کر اس کھوکھلے نظام کو بہتر طریقے سے تبدیل کر سکتے ہیں۔ جالب جیسے آوارہ اور چاک گریباں، سچ کی آواز کو سچ کی روشنائی اور سچے دل سے لکھ سکتے ہیں۔ جالب جیسے فقیرانہ مزاج انسان آوارگی کی اس دنیامیں ایک بہادر نہتے انسان کی طرح پرجوش اندازمیں بے خوف وخطر ڈٹ کر حق کی، سچائی کی، صداقت کی، آواز بن کر اس نیم مارشل لاء دور میں بخوبی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جالب جیسے انسان ہی ان ظالم حکمرانوں کے اوپر غالب ہوسکتے ہیں۔ ایسے انسان ہی عوام کے دل کی دھڑکن بن جاتے ہیں۔جن کا دل ہمیشہ ہمارے اور تمہارے لیے دھڑکتا رہا۔جالب جیسے انسان صدیوں میں پیدا ہونے والے لمحوں کی گرفت سے آزاد ہوکر بولتے، لکھتے، ہنستے اور ہنساتے رہتے ہیں۔ زندان کے اندر بھی اور زندان کے باہر بھی۔ لاہور کی آوارہ گلیوں سے لے کر کوئٹہ کے بلدیہ ہوٹل، جناح روڈ کی فٹ پاتھوں پر محفلیں جماتے اور ایسے دستور اور صبح بے نور کو پکارتے ہوئے چلتے چلتے رہ جانے والے حبیب ہمارا جالب تمہارا جالب ہمار ا حبیب تمہارا حبیب ہم پہ ہی ناز کرتا رہا۔ ہمارے لیے ہی تو ہر مارشل لاء کو للکارتا رہا۔ ہمارے لیے ہی تو ہر ظلم سے لڑتا رہا۔ نیب کے خلاف پیپلز پارٹی کا سرگرم عمل ہونا ظلم کی انتہا کا دور تو دیکھیے اور ظلم کے خلاف جالب کی سڑکوں پرسرگردانی، گورنر ہاوس میں مقیم رسول بخش تالپور کا اصرار تھا کہ چلے آو، جالب کی آوارگی اپنی جگہ اور اْن کی خود اری اپنی جگہ کہنے لگے بھٹو کی حکومت ہے اور نیب کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور میں گورنر ہاوس آوں، بھٹو یہی کہیں گے جالب دوپیگ کے لیے گورنر ہاوس چلا گیا۔ میں تو کہتا ہوں آپ بھی اْس جیل خانے سے نکل آئیں۔ بہت دیر آپ بھی اْن جاگیرداروں کے ساتھ نہیں رہ پائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ بھٹو کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود جالب پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہوئے۔جیل کی ہوا ضرور کھائی۔ جالب جب سچ لکھے گا۔ سچ کہے گا اور سچ کی پر چار کرے گا۔ سچائی کیلئے لڑے گا۔ تو وہ سمجھوتہ کیسے کر سکتا ہے۔ مرناقبول ہے۔ دردر کی ٹھوکریں کھاناقبول ہے، فقیری قبول ہے، غریبی پر فخر ہے لیکن سمجھوتہ قبول نہیں۔
24 مارچ 1928عید کے روز ہندوستان کے ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے اس ہونہار انسان نے زندگی کا آغاز ہی تنگ دستی، محنت کشی اور مزدوری سے کیا۔ سند ھ کی ہاری تحریک میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔ حبیب جالب 1956 میں ہی باقاعدہ طور پر سیاسی میدان میں کود پڑاوہ ملک کے گلی کوچوں سڑکوں پر آوارہ آوارہ بے خوف وخطر پھرتا رہا اور کہتا رہا”میں نہیں مانتا’میں نہیں جانتا‘‘۔موجودہ دور میں حالات کم اچھے نہیں طریقہ کار مختلف ہے۔ لیکن جالب جیسے انسانوں کی ہے۔ جہاں روز دھماکے، اسلحہ کی نمائش، قتل وغارت، خون خرابہ بے انصافی اغوا۔ قبائلیت، سرداریت کی بوچھاڑ نظریات کا فقدان۔ امن وامان کی بدترین صورت حال۔ ان کے خلاف عملی اور حقیقی معنوں میں کون بولے آمریت نوازوں کو کون پکارے، کون آج آمیریت کی ٹوکری اْٹھائے، اور گلی کوچوں میں اس آمریت کی ٹوکری کو لیے عوامی محفلوں میں لے آئے۔ حبیب جالب کی شاعری احتجاجی شاعری کا مرکز رہی۔ ملکی حالات کے مطابق عوام کی ترجمانی کرتے رہے ہمیشہ قلم وقرطاس کے ذریعے ان کے لاجواب اشعار پھوٹے جنہوں نے جالب کو زندانوں کی سیر تو کرائی لیکن حوصلے پسپا نہیں کرسکے۔ حبیب جالب کے والد صوفی عنایت لکھتے ہیں مجھے کہا گیا بیٹے کو سمجھا لو کہ یہ حکومتوں کے خلاف نہ بولا کرے۔۔۔۔ مگر میں اْن کے جواب میں یہی کہوں گا کہ میرے حبیب کو کسی قیمت پر خرید انہیں جاسکتا ظاہر ہے مزدور دوست، ترقی پسند انہ خیالات کے مالک جنہوں نے حید ر بخش جتوئی کی بنائی گئی تحریک میں بھی حصہ لیاہو، محنت کشوں مزدوروں کو کچلتے دیکھا ہو۔ طبقاتی جنگ کو اپنے سامنے دیکھا ہو۔جبر کی انتہا روزوشب کی جبر ی محنت کو دیکھا ہو، عورتوں کو روڈوں کے بیچ مارتے اور گھیسٹتے دیکھا ہو۔ ان کی زندگی اور عزت کو نیلام کرتے دیکھا ہو، قتل کے بے جواز الزام کو سامنے دیکھا ہو عوامی تحریکوں میں مزدورں کی یکم مئی میں، مارشل لائی ون یونٹوں کے خلاف لڑتا ہو۔ ایسے انسان کو خریدا جاسکتا ہے کیا؟ ایسے انسان کے خیالات کو تبدیل کیا جاسکتا ہے کیا؟ ایسے انسان کو خوف زدہ کیا جاسکتا ہے کیا؟جو طاقت عوام کے اندر ہوتی ہے اور جوانقلابی عوام کی قوت سے پیدا ہوتی ہے تو وہاں حبیب جالب جیسے انسان جنم لیتے ہیں اور عوامی طاقت ہی انکا سرچشمہ ہوتا ہے۔
جتنا دباو گے جتنی اذیتیں دوگے۔۔ میں پھر طلوع کوہ کے پیچھے سے آفتاب کی مانند چمکتا ہوا ضرور آوں گا اک عہد حسین کی صورت میں یہی کہتا رہوں گا ”جالب سچ کا دم بھرنا سچ ہی لکھتے جانا میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اجالا۔ وزیر سے لیکر گزیر تک جاگیردار سے لے کر سرمایہ داروں تک اسٹیج پر سبھی آکر غلط سلط جالب کے اشعار پڑھتے ہیں جن کے دور حکمرانی میں جالب پس زندان رہا۔ یہ تاریخ کا جبرہے اور جالب کی سچائی ہے۔“کمینے ہوگئے حکمران ”جالب زندگی میں بھرپور طریقے سے حکمرانوں کے خلاف برسر پیکاررہا۔ آپ کی شاعری کا بغور مطالعہ کرنے والے اور آمریت کے خلاف تقریروں کو سننے والے ہی سمجھ اور جان سکتے ہیں کہ آپ نے عوام کی اس جنگ کو جمہوریت کی بقا کیلے ظلم وجبر کیخلاف نہ صرف عوامی طاقت کوللکار کر باہر نکالا بلکہ مارشل لاء دور کے ہرآمرسے لڑتے رہے۔
آپ کی اس جدوجہد اور commitment سے کوئی انکار نہیں کر سکتا واقعی جہاں گئے داستان چھوڑ آئے۔ بھٹو نے جالب سے ملاقات کی جب خواہش ظاہر کی تو جالب نے ملنے سے انکار کیا، جالب نے جوا ب دیا بھٹو کو ملنا ہے تو کافی ہاوس تشریف لائیں (کافی ہاوس لاہو ر میں ان دونوں ترقی پسند قوتوں کا ٹھکانہ ہوتا تھا)۔ دوسری طرف بے نظیر بھٹو جب جالب سے ملنے اْس کے گھر گئی۔ ملاقاتیں اپنی جگہ۔۔۔ جب امریکہ اور بے نظیر کے درمیان پاکستان میں قیادت کی بات چل پڑی۔ تو جالب ہی تھا جس نے اس کی مخالفت کی یہاں تک کہ جب جام ساقی کے اعزاز میں منعقدہ پرگرام میں عوامی شاعر اسیٹج پر آیااور بے نظیرکو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”نہ جا امریکہ نال کڑے ”تو وہ استقبالیہ بدمزگی کا شکار ہوگیا لیکن جالب نے اپنی پوری نظم سنائی۔ اور بعد میں جالب سے بینظیر کے کہنے پر معذرت کی گئی۔ اسکے بعد جالب اکثر و بیشتر بیمار رہتے تھے۔ عوامی درد نے پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، سروسزہسپتال میں داخل کیے گئے۔ اسکے بعد جس طر ح بار بار جیل کی ہوا کھائی اسی طرح اسے ہسپتال کی ہوا بھی کھانی پڑی۔ حیدر وائیں وزیر اعلیٰ پنجاب جب شیخ زید ہسپتال جالب کے پاس پہنچا اْنھیں باہر علاج کرنے کیلئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی تو جالب نے کہایہاں ڈسپرین کی گولی نہیں ہے، پانی کی قلت ہے آپ اسکا انتظام کریں۔چورہدی شجاعت حسین ضیاء کے دور میں وزیر داخلہ تھا جالب کے گھر گیا5لاکھ روپے دینے کی پیشکش کی اور منت سماجت بھی کی۔ جالب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا میرا نام حبیب جالب نہیں رہے گا۔ چوہدری ناراض ہوکر چلے گئے۔ ضیاء دور میں بننے والے فلیٹوں میں سے دو فلیٹوں کی آفر حبیب جالب کو بھی کی گئی کشور ناہید کی کوششوں کے باوجود حبیب جالب نے ان فلیٹوں کو لینے سے انکار کیا تھا۔ اسی طرح ایک مرتبہ گورنر پنجاب غلام جیلانی حبیب جالب سے سروسز ہسپتال میں ملنے کیلئے پیغام بھیجا توجالب صاحب نے کہا ضرور تشریف لائیں مگر تکیے کے نیچے کوئی لفافہ رکھنے سے گریز کریں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں