آقاؤں میں انتخاب

انورساجدی

یہ بات آہستہ آہستہ ثابت ہورہی ہے کہ کرونا وائرس قدرتی آفت نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کی لیبارٹریوں میں تیار شدہ ہے یہ الگ بات کہ اس آفت کی زد میں اس وبا کو تیار کرنے والے ممالک خود بھی آگئے ہیں اور انکے لوگ بھی بڑے پیمانے پر ہلاک ہورہے ہیں کرونا کے حوالے سے سازشتی تھیوری ووہان میں وبا پھیلنے کے بعد اس وقت سامنے آئی تھی جب چین کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نے الزام لگایا تھا کہ امریکہ نے یہ وائرس یہاں پر چھوڑا تھا اسکے جواب میں صدر ٹرمپ نے کرونا کو چائنا وائرس کانام دیا تھا شروع میں امریکہ نے کوئی پروا نہیں کی لیکن اب اسکے ہزاروں لوگ بیماری میں مبتلا ہوگئے خدشہ یہی ہے کہ امریکہ میں یہ وبا اس تیزی کے ساتھ پھیلے گی کہ دنیا کانمبر ایک سپرپاور بے بس ہوجائیگا اور یہ کرونا کا سب سے بڑامرکز بن جائیگا۔
سازشی تھیوری تو مارچ کے شروع میں سامنے آئی تھی لیکن اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر عبداللہ حسین ہارون نے سوشل میڈیا پر اسکے بارے میں تفصیلات دی ہیں یہ تفصیلات اگرچہ نئی نہیں ہیں لیکن انہوں نے کرونا وائرس پھیلانے کی سازش کو مزید بے نقاب کردیا ہے یہ جدید بائیولوجیکل جنگ کا ایک ادنیٰ نمونہ ہے آثار بتارہے ہیں امریکہ پورپ اور انکے لاڈلے اسرائیل نے بہت ہی خطرناک وائرس اپنی لیبارٹریوں میں تیار کرکے رکھے ہیں وہ ایٹم اور ہائیڈروجن ہتھیاروں کی جگہ ان جرثومی ہتھیاروں کواستعمال کرکے دنیا پر اپنا سیاسی ومعاشی غلبہ برقراررکھنے کی کوشش کریں گے کہا جاتا ہے کہ کرونا کی تیاری کاپینٹنٹ 2006ء میں امریکہ میں کروایا گیا جبکہ اسکی ویکسین کی تیاری کی منظوری گزشتہ سال نومبر میں دی گئی اس کام کیلئے مائیکروسافٹ کے مالک بل اینڈ ملنڈا فاؤنڈیشن کے چیئرمین بل گیٹس نے سرمایہ فراہم کیا جبکہ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ورلڈ اکانومک فورم نے بھی فنڈز مہیا کئے ہیں عبداللہ حسین ہارون کے مطابق اسرائیل نے دوا تیار کرکے رکھی ہے جو ان ممالک کو مہیا کرے گا جو اسے تسلیم کریں گے اگریہ خیال سچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل اپنی سائنسی برتری کو ایک نیوورلڈ آرڈر کیلئے استعمال کرے گا یہ ورلڈ آرڈریہودی تھنک ٹینکس نے کئی دہائی پہلے تیار کیاتھا اور یہ صدرریگن کے نیوورلڈ آرڈر سے پہلے کا منصوبہ ہے اب جبکہ چائنا ایک سپر پاور بن چکا تو امریکہ کا پرانا ورلڈ آرڈر منسوخ ہوچکا ہے نیا آرڈر اسرائیل امریکہ اور یورپی اتحادیوں کے ذریعے نافذ کرے گا بے شک بظاہر امریکہ سامنے ہو لیکن پیچھے یہودی تھنک ٹینک ہونگے یہ دنیا کو مطیع بنانے اور اسکے وسائل کو لوٹنے کا نیاذریعہ ہوگا۔
حال ہی میں اسرائیل کے انتہا پسند وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل نہ صرف حالت جنگ میں ہے بلکہ اسے تاریخ کی ایک بڑی جنگ کا سامناہے یہ بات انہوں نے کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد کہی تھی لیکن لوگ سمجھے نہیں کہ اسرائیل کو کس طرح تاریخ کی سب سے ہولناک جنگ کا سامنا ہے کیونکہ ظاہری طور پر اسرائیل ہی امن کاجزیرہ دکھائی دیتا ہے تمام دنیا اور خاص طور پر عرب ممالک نے فلسطینی عوام کو بے یارو مددگار چھوڑدیا ہے تمام عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ جنگ لڑنے کی پوزیشن میں بھی نہیں اس کا روایتی دشمن ایران خود کرونا کی تباہ کاری سے دوچار ہے سوال یہ ہے کہ اسرائیل کو کس طرح کاخطرہ اور جنگ درپیش ہے جوں جوں وقت آگے بڑھے گا تو اسرائیل کے وزیراعظم کی بات واضح ہوگی اور دنیا اسکی باتوں کا مطلب سمجھے گی۔
اگریہ بات درست ہے کہ کرونا کی تیاری کا خیال امریکہ میں پیش ہوا اسے تیار انگلینڈ میں کیا گیا اور اسے امریکہ کے ذریعے چین میں آزمایا گیا تو بالآخر یہ بات چھپی نہیں رہ سکتی چین اور روس اس کا کھوج ضرور لگائیں گے اور اس کا جواب بھی دیں گے لیکن خدشہ ہے کہ یہ جواب انسان کش اور خطرناک ہوگا۔اگر انہوں نے بھی کرونا سے زیادہ خطرناک جراثیمی ہتھیار تیار کرکے امریکہ اور یورپ پر آزمایا تو اس سے بنی نوع انسان کا وجود خطرے میں پڑجائیگا اور آخر کار چین اور روس بھی اسکی زد میں آجائیں گے لہٰذا توقع یہی ہے کہ چین اس حملے کاجواب صبروتحمل اور دوسرے طریقے سے دے گا وہ روس کے ساتھ مل کر اپناورلڈ آرڈر جاری کرے گا جو ممالک اس کا ساتھ دیں گے چین ان کا پاور بلاک بنائے گا زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ جاپان اور انڈیا کو چھوڑ کر سارے ایشیائی ممالک چین کے بلاک میں شامل ہوجائیں گے امریکہ نے ساؤتھ چائنا سی کے مسئلہ پر چین اور جاپان کی محاذ آرائی کی بنیاد رکھ دی ہے لیکن تبدیل شدہ حالات میں جاپان،چین کاعشرعشیر بھی نہیں ہے جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے مودی نے اس کا بیڑہ غرق کردیا ہے البتہ انڈیا اور اسرائیل کے کافی عرصہ سے قریبی تعلقات قائم ہیں اور اسرائیل دنیا میں سب سے زیادہ اگر کسی ملک کی مدد کرہا ہے تو وہ ہندوستان ہے اسرائیل نے اپنی ٹیکنالوجی کے ذریعے انڈیا کی زرعی پیداوار میں پانچ گنا اضافہ کردیا ہے وہ انڈیا کو انتہائی حساس جنگی اور جاسوسی ٹیکنالوجی بھی فراہم کررہا ہے جن کا مقصد چین کو نیچا دکھانا ہے لیکن ابھی تک انڈیا کوئی کمال دکھا نہیں سکا اور اسرائیل کی موجودگی اورٹیکنالوجی سے اپنے دشمنوں کا بال بھی بیکا نہیں کرسکا۔چین کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ پاکستان کی مدد کرکے انڈیا کو اپنے منصوبوں سے باز رکھ سکتا ہے اگرچہ مودی انسان کا بچہ ہوتا تو انڈیا چین کے بعد ایشیا کا دوسرا بڑا لیڈر ہوتا لیکن اس نے اپنی جمہوریت سیکولرازم تیز رفتار ترقی سب کچھ انتہا پسندی کی نذرکردیا ہے لیکن چین اسرائیل کی سازشوں سے بے خبر نہیں ہے وہ ہمالیہ کے اس پاراپنے دشمن پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اسکی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے تیار ہے لیکن چین اپنے چھوٹے سے دوست اور اتحادی پاکستان کیلئے کیا کرے گا؟یہ ایک مشکل سوال ہے کیونکہ1970ء کی دہائی میں پاکستان چین سے آگے تھا لیکن اسکے بعد چین آگے بڑھنا شروع ہوا اور محض 30سال کے عرصے میں وہ دنیا کادوسرا بڑا معاشی پاور بن گیا اسکی صنعتی پیداوار اتنی بڑھ گئی کہ دنیاکے ایک سرے سے دوسرے سرے تک صرف اس کا تیار کردہ مال بک رہا ہے اس نے تیس سال میں اپناانفرااسٹرکچر اتنا ڈویلپ کیا ہے کہ امریکہ بھی اسکے مقابلہ میں پیچھے ہے امریکہ کے شہر آج جدید چینی شہروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔یہ جوووہان ہے نیویارک اور لاس اینجلس اسکے سامنے کچھ نہیں بیچتے اس شہر کے اندر ایسے پل اور شاہراہیں ہیں کہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے شنگھائی اور شین جن کو چھوڑیئے جو نئے شہر زیرتعمیر ہیں وہ ٹیکنالوجی اور جدید طرز تعمیر کا شاہکار ہیں حال ہی میں جب ووہان میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا تو اس پر عملدرآمد انسانوں نے نہیں بلکہ روبوٹس اور ڈرونز نے کروایاشہر کی تمام آبادی ایک کنٹرول روم سے کنٹرول کی جارہی تھی اگر کسی نے ماسک نہیں پہنا تھا تو روبوٹس آگے بڑھ کو پوچھتا کہ ماسک کیوں نہیں پہنا ہے کرونا کی وبا کے دوران چین نے ایسا لاک ڈاؤن کرکے دکھایا جو انگلینڈ،اٹلی،جرمنی،امریکہ اور سوئٹزر لینڈبھی نہیں کرسکے امریکہ اور یورپی ممالک کا نظام صحت پوری طرح سے بے نقاب ہوچکا ہے جبکہ چین نے ایک ہفتہ میں دنیا کا سب سے بڑا آئسولیشن سینٹربناکردکھایا۔
چین کی یہ ترقی اپنی جگہ لیکن پاکستان کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک امریکی ورلڈ آرڈر کے زیراثر ہے قرضوں اور امداد کیلئے وہ امریکہ کے زیر کنٹرول اداروں آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف دیکھتا ہے جبکہ فوری امداد کیلئے اسکی دوڑسعودی عرب اور عرب امارات تک ہے وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پاکستان کو فیصلہ کرنا پڑے گا۔
چین کی دوستی یا امریکی دوستی
خیردوستی تودور کی بات ہے کیونکہ دوستی برابر کی سطح پر ہوتی ہے پاکستان جس طرح جدید دنیا میں پیچھے رہ گیا ہے وہ صرف اتحادی بن سکتا ہے چاہے چین کا ہو یا امریکہ کا وہ زیادہ تر ایک تابع فرمان دوست کا کردار ادا کرے گا کیونکہ کسی نادارا ور مفلس کیلئے یہ انتخاب کرنا مشکل ہے کہ کونسا آقا اچھا ثابت ہوگا اپناورلڈ آرڈر نافذ کرنے کیلئے چین کو پاکستان کے ساحلوں کی زیادہ ضرورت پڑے گی۔کیونکہ اسکے بغیر وہ مشرق وسطیٰ کے اہم ترین تذدیراتی علاقے پر کنٹرول حاصل نہیں کرسکے گا اس مقصد کیلئے چین زیادہ تیزی کے ساتھ آئیگا اور کئی چیزیں روند کر آگے بڑھے گا۔ہوسکتا ہے کہ وہ خوشحالی کا تھوڑا ساحصہ غریبوں کی جھولی میں ڈال دے اسے راہداری چاہئے دلداری نہیں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں