جمہوریت،انصاف اور آزادی اظہار

تحریر: انور ساجدی
کیا26 ویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستان انصاف،آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے حوالے سے ایک بار پھر ایک تاریک دور میں چلا گیا ہے؟ ملک کے نامور وکلاءکا یہی کہنا ہے۔گویا پاکستان حسب سابق ایک بار پھر جمہوریت کی پہلی کلاس میں چلا گیا ہے۔وکلاءزور دے رہے ہیں کہ ایک ملک گیر تحریک چلائی جائے تاکہ عدلیہ کی آزادی کو دوبارہ حاصل کیا جا سکے۔معلوم نہیں کہ وکلاءمیں وہ دم خم ہے کہ نہیں جو ایک بڑی تحریک چلا سکیں البتہ یہ نظر آتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی پر مشتمل نام نہاد منتخب اور سیاسی حکومت نے اپنے پیروں پر کلہاڑا مارا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ترمیم کی منظوری سے قبل 18اکتوبر کو حیدرآباد میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے واضح دھمکی دی تھی کہ اگر اپوزیشن نہ مانی تو ہم بروٹل میجارٹی یعنی اکثریت یا زبردستی بنائی گئی اکثریت کے ذریعے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کروائیں گے۔بلاول یادرکھیں کہ ان کے ادا کئے گئے الفاظ نہ صرف تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں لیکن جب وہ آئندہ چل کر کسی مخالف قوت کے بروٹل میجارٹی کا شکار بن جائیں گے تو کوئی پوچھنے والا اور شنوائی کرنے والا نہیں ہوگا۔
22اکتوبر کی تاریک رات اور23کی صبح صادق ہونے والے سانحہ نے جمہوریت ، انصاف، آزادی عدلیہ اور آزادی صحافت کو ہمیشہ کے لئے رخصت کر دیا ہے۔ ن لیگ کی تو سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی اٹھان ہی مارشل لاءاور آئین کی پامالی کے ذریعے ہوئی تھی لیکن یہ پیپلزپارٹی کو دورہ کیوںپڑا؟۔زرداری نے اقتدار اور وعدہ فردا کے لئے اتنی بڑی سودے بازی کیسے کرلی؟۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ بلاول ایک بے اختیار پارلیمان ایک لاش نما عدلیہ اور ایک غیر اعلانیہ فسطائیت کے ذریعے برائے نام وزیراعظم بن جائیں گے۔ایک بے اختیار وزیراعظم کبھی کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ پابند اورگماشتہ عدلیہ اسے کام کرنے نہیں دے گی۔جو طاقت کے عناصر ہیں وہ ہمیشہ پابند عدلیہ سے اپنی مرضی کے کام لیں گے۔
ن لیگ زیادہ دور سوچنے والی جماعت نہیں ہے اس کا وقتی فائدہ اس میں ہے کہ عمران خان سے مظالم کا انتقام لیا جائے اور کچھ وقت اقتدار میں رہا جائے۔وہ یہ سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہے کہ جب عمران خان نے2014 میں اس کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا تھا تو وہ صرف استعمال ہوا تھا اس کے پیچھے اصل اقتدار پر قابض گروہ تھا جس طرح ضیاءالحق کی باقیات نے1990،1997 اور2013 میں نوازشریف کو حکومت میں لایا گیا تھا اسی طرح جنرل باجوہ اینڈکمپنی نے2018 کے انتخابات میں عمران خان کے اقتدار کی راہ ہموار کی تھی اس صورت حال سے لگتا ہے کہ اگرچہ نوازشریف نے میثاق جمہوریت کی دستاویز پر دستخط تو کئے تھے لیکن اسے پڑھا نہیں تھا۔اگر پڑھا ہوتا تو وہ جنرل کیانی کے ہاتھوں استعمال نہ ہوتے اور میمو گیٹ اسکینڈل کے مدعی نہ بنتے۔میثاق جمہوریت کیا ہے؟ غیر جمہوری قوتوں کا ر استہ روکنے کی حکمت ہے۔یہ میثاق تو بے نظیر کے بے رحمانہ قتل کے ساتھ ہی دفن ہوگیا تھا اور اس کی افادیت دم توڑ گئی تھی لیکن نظریہ ضرورت کے تحت آئین کا حلیہ بگاڑنے کے لئے میثاق کو ایک بار پھر زندہ کیا گیا اور اس کا حوالے دے کر26ویں ترمیم منظور کی گئی جبکہ اس ترمیم کی منظوری میثاق جمہوریت کی روح کے منافی ہے کیونکہ اس میں آزاد عدلیہ کا تذکرہ ہے پابند اور گماشتہ عدلیہ کا نہیں۔26ویں ترمیم کی منظور کوئی عام واقعہ نہیں ہے حکمرانوں کے نزدیک اس کے ذریعے سیاسی استحکام آئے گا لیکن یہ بدترین عدم استحکام کا باعث بنے گی۔تقسیم در تقسیم کا مسئلہ اور بڑھے گا۔سیاست دان دست و گریباں ہوں گے۔وکلاءمزید گروہوں میں بٹ جائیں گے ۔ حکومتی رٹ جو کہ بہت کمزور ہے نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔کئی نئے آئینی سیاسی اور سماجی تنازعات سر اٹھائیں گے جن کے حل کے لئے پارلیمان بے اختیار ہوگی۔جو موجودہ حکومت ہے اس کے قائم رہنے کا جواز ختم ہو جائے گا کیونکہ اس سے ایک بڑا کام لے لیا گیا ہے۔ شہبازشریف ایک تابع فرمان وزیراعظم کی حیثیت سے کام کریں گے لیکن انہیں کسی وقت بھی ہاؤس چینج کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔حالانکہ ان کا کوئی متبادل نظر نہیں آتا کیونکہ اتنا زیادہ تابعدار بندہ اور کون ہوسکتا ہے لیکن دستور یہی ہے کہ ہر بڑے کام کے بعد مذکورہ شخص کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔اسی طرح دو صوبوں میں بھی ردوبدل ہوسکتا ہے کیونکہ مولانا بہت ہی جہاندیدہ شخص ہیں انہوں نے 26 ویں ترمیم کی منظوری کی سروس مفت میں انجام نہیں دی ہوگی۔انہیں ایک صوبہ کی گورنری مل سکتی ہے اور بلوچستان میں حکومت کی ازسرنو تشکیل میں بڑا حصہ دیا جا سکتا ہے۔بے شک وہ وزارت اعلیٰ کے طلب گار نہ ہوں لیکن وہ آدھی کابینہ اور سینئر وزارت لے سکتے ہیں اور اہم محکمے حاصل کرسکتے ہیں۔ترمیم کی منظوری کے بعد ہی پی ٹی آئی والوں کو سمجھ میں آیا ہے کہ ان کے ساتھ مولانا نے کیا ہاتھ کر دیا ہے جس شیش ناگ کا ذکر ہو رہا تھا اس کے ذریعے تو تحریک انصاف کو ڈسوایا گیا ہے پاکستانی سیاست کا اہم عنصردوغلی پالیسی اور منافقت ہے۔ پیپلزپارٹی کو دیکھئے ایک طرف حکومت کا اہم ستون ہے لیکن دعویٰ ہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہے۔سب نے دیکھا کہ26 ویں ترمیم کی منظوری میں ن لیگ سے زیادہ زور بلاول نے لگایا۔پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ اس حکومت کا سارا ڈس کریڈٹ ن لیگ کو جائے گا اور وہ ناکامی کی صورت میں عوامی تنقید سے بچ جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔عوام بہت باشعور ہیں اور وہ سوشل میڈیا کے موجودہ قیامت خیز دور میں سب کچھ جانتے ہیں۔اسی طرح اگر تحریک انصاف کے لیڈر نظام کا حصہ بنے ہوئے ہیں قومی اسمبلی کی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں حتیٰ کہ چیف جسٹس کو مقرر کرنے والی پارلیمانی کمیٹی میں اپنے نام بھی بھیج رہے ہیں اور عین موقع پر بائیکاٹ کر کے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ اس عمل کا حصہ نہیں ہیں یہ لوگ اپنے لیڈر کو اندھیرے میں رکھ کر دراصل حکومت سے تعاون کر رہے ہیں اورمراعات حاصل کر رہے ہیں۔عمران خان نے جو غلطیاں کی ہیں اس کا خمیازہ وہ ذاتی طور پر بھگت رہے ہیں ان کی جماعت ایک صوبہ میں برسراقتدار ہے جبکہ وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں براجمان ہے۔عمران خان جیل کے اندررہ کر زمینی حقائق سے بے خبر ہیں ان کی خوش فہمی ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں اور ان کو بچانے کے لئے سڑکوں پر آ سکتے ہیں لیکن سو فیصد ایسا نہیں ہے عمران خان کی طرح بھٹو بھی پاپولر تھے لیکن ان کی پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد لاہور میں صرف18 کارکن زندہ جل مرے لیکن سارے لیڈر اندر سے حکومت سے ملے ہوئے تھے۔
ایک پنجابی دانشور کا معقولہ ہے کہ پنجابی اپنے پسندیدہ رہنما کو ووٹ تو دیتے ہیں لیکن اس کے لئے جان کی بازی لگانے کو تیار نہیں ہوتے کچھ ایسی ہی صورت حال اس وقت پنجاب میں عمران خان کو درپیش ہے۔رہی بات وکلاءکی تو اکیلے علی احمد کرد کیا کرسکتے ہیں۔افتخار محمد چوہدری کی بحالی تحریک کو پیچھے سے فوج کی حمایت حاصل تھی ورنہ مثبت نتائج حاصل نہ ہوتے۔اس وقت صورتحال مختلف ہے۔عمران خان کے لئے پلان یہ ہے کہ ان کا ٹرائل ملٹری کورٹ کے ذریعے کروایا جائے تاکہ ایک بار پھر ایسی نظیر قائم ہو جائے کہ اپنا بنا ہوا کوئی لیڈر سرکشی کی جسارت نہ کرسکے۔
سردار اختر مینگل کے دو سینیٹرز نے جو کچھ کیا وہ ان کے لئے افسوس ناک صورتحال ہے۔اگر سردار صاحب نے واقعی میں قومی اسمبلی سے سنجیدہ استعفیٰ دیا ہے تو پارلیمانی سیاست سے ان کا سروکار ختم ہو جاتا ہے لہٰذا ان کے لئے کوئی تشویش کی بات نہیں ہونی چاہیے ہاں اگر وہ دوبارہ پارلیمانی سیاست کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں تو انہیں ازسرنو منصوبہ بندی کر لینا چاہیے۔انہوں نے اسلام آباد میں یہ بیان دے کر سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ وہ آئندہ نئی نسل کے ساتھ چلیں گے اور نوجوان جو مشورہ دیں گے اس پر عمل کریں گے۔سردار صاحب کے ان الفاظ کی صداقت جلد عوام کے سامنے آ جائے گی یعنی کچھ انتظار کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں