نوجوانوں نے پہاڑوں کا رخ کیا تو مزید تباہی کی طرف جائیں گے، امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر وزیر داخلہ کا تقرر ناگزیر ہے، ضیا لانگو
کوئٹہ (یو این اے) بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات، سابق وزیر داخلہ ضیاءاللہ لانگو نے کہا ہے کہ بلوچستان میں امن وامان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر وزیر داخلہ کا تقرر ضروری ہے۔ بلوچستان حکومت کا ڈھائی سالہ معاہدہ صوبے کے مفاد میں نہیں ہے قلات کے عوام گزشتہ ڈیڑھ سال سے اسمبلی میں اپنی نمائندگی سے محروم ہیں۔ مایوسی کفر ہے، بندوق نہیں قلم اٹھا کر ہی ترقی یافتہ قوموں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہی، میر ضیاءاللہ لانگو نے کہا ہے کہ بلوچستان کے حالات گزشتہ 25 سال سے زیر نگرانی رہے ہیں، لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال سے صورتحال پہلے کی نسبت مختلف اور نسبتاً تیز رفتار ہے۔ صوبے میں امن و امان کی موجودہ صورتحال بہتر نہیں ہے اور وزیر داخلہ کا عہدہ اس وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ صوبے کے داخلی معاملات، سیکیورٹی اور امن و امان کو سنبھالنا انہی کی ذمہ داری ہے بلوچستان کے امن اومان کے مخدوش صورتحال پر وزیر داخلہ ضروری ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ قلات کے عوام گزشتہ ڈیڑھ سال سے اسمبلی میں اپنی نمائندگی سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے مقامی مسائل پر توجہ دینے میں کمی ہوئی ہے انہوں نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کے اقدامات میں کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے، لیکن مکمل طور پر حالات بہتر نہیں ہوئے وزیر داخلہ کی موجودگی ناگزیر ہے تاکہ عوامی مسائل اور صوبے کے امن و امان کے معاملات پر فوری توجہ دی جا سکے بلوچستان میں باصلاحیت لوگ موجود ہیں جو صوبے کے امن و ترقی کے لیے موثر کردار ادا کر سکتے ہیں صوبائی حکومت کی جانب سے عوام کے لیے کیے جانے والے اقدامات جیسے بسز، صحت کارڈز، اسکالرشپ پروگرام اور ڈسٹرکٹ سطح پر ترقیاتی منصوبوں کو خوش آئند قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تجربات بتاتے ہیں کہ مختلف حکومتیں اپنی پالیسیوں کے مطابق فیصلے کرتی رہی ہیں اور نئی قیادت آنے پر پچھلی پالیسیوں میں تبدیلیاں ممکن ہیں، جس سے عوام متاثر ہوسکتے ہیں، امن و امان کے سنگین مسائل پر فوری توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے اور وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ کی موثر موجودگی صوبے میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ناگزیر ہے بلوچستان میں عوامی نمائندگی، ترقیاتی اقدامات اور امن و امان پر توجہ ہر حکومتی ترجیح ہونی چاہیے، تاکہ صوبے میں پائیدار ترقی اور امن قائم ہو سکے موجودہ وقت کا سب سے بڑا اور اہم تقاضا صوبے میں امن و امان کی بحالی ہے، اور حکومت سمیت تمام اداروں کو اپنی تمام تر توجہ اسی جانب مرکوز کرنی چاہیے بلوچستان حکومت کا ڈھائی سالہ معاہدہ صوبے کے مفاد میں نہیں ہے انہوں نے کہا کہ میرا بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے ان کا ہمیشہ یہی پیغام رہا ہے کہ پاکستان کوئی مکمل ترقی یافتہ ملک نہیں بلکہ ایک مشکل اور عبوری دور سے گزر رہا ہے، جس پر فخر کی بجائے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ محرومی صرف بلوچستان تک محدود نہیں، خیبر پختونخوا، اندرونی پنجاب اور اندرونی سندھ میں بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں لوگ بلوچستان سے زیادہ محروم ہیں اسلام میں مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے، اس لیے نوجوانوں کو کسی بھی صورت مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ بندوق کے بجائے قلم اٹھا کر ہی ہم ترقی یافتہ قوموں اور ممالک کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔اگر نوجوان یہ سوچ کر مایوس ہو جائیں کہ ریاست نے انہیں کیا دیا یا نہیں دیا اور اس بنیاد پر پہاڑوں کا رخ کریں تو اس سے معاشرہ اور نوجوان نسل مزید تباہی کی طرف جائے گی۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ تعلیم، شعور اور مثبت جدوجہد کے ذریعے اپنے اور صوبے کے مستقبل کو بہتر بنائیں۔بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں گزشتہ 25 سال سے دہشت گردی کی لہر جاری رہی ہے، اور اس میں نہ صرف داخلی مسائل بلکہ بیرونی مداخلت بھی شامل رہی ہے۔ ان کے بقول اس صورتحال میں صوبائی سیاستدانوں، فوج اور دیگر اداروں کا ایک صفحے پر ہونا ضروری ہے تاکہ صوبے کے تمام اسٹیک ہولڈرز امن و امان کے مسائل اور دیگر اہم پالیسیاں باہمی مشاورت سے طے کریں۔اس وقت صوبے میں سیاسی جماعتیں اور سیکورٹی ادارے ایک پیج پر کام کر رہے ہیں اور عوام کو کسی بھی معاملے میں اندھیرے میں نہیں رکھا جاتا، جس سے صوبے میں امن و استحکام کے لیے ماحول بہتر ہوا ہے۔پارٹی ہمیشہ اپنے منشور اور اصولوں پر قائم ہے، اور جو بھی رہنما یا کارکنان اس سے ہٹتے ہیں، انہیں پارٹی اور عوام دونوں ہی درست سمت کی طرف لے آتے ہیں صوبے کے عوام کی نمائندگی بڑھانے کے لیے 26 ویں اور 27 ویں آئینی ترمیم کی جدوجہد کی گئی ہے۔ ان کے مطابق پارٹی نے ہمیشہ صوبے کی مفاد میں تعمیری سیاست کو ترجیح دی ہے اور آئندہ بھی عوام کے لیے اسی راستے پر عمل جاری رکھے گی قلات کے صوبائی اسمبلی حلقے میں فوری انتخابات کرائیں، قلات انتخابات الیکشن کمیشن نے پہلے دو، تین مرتبہ انتخابات کی تاریخیں اعلان کیں، مگر افسوسناک واقعات اور سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے پولنگ نہیں ہو سکی۔ میر ضیا اللہ لانگو کے مطابق اس حلقے میں ڈیڑھ سال سے عوام اپنی نمائندگی سے محروم ہیں اور اس تاخیر کی وجہ سے وہاں کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ہ الیکشن کمیشن پاکستان اور بلوچستان کی متعلقہ انتظامیہ فوری طور پر اقدامات کریں تاکہ قلات کے عوام کا حقِ نمائندگی بحال ہو اور ان کا منتخب نمائندہ صوبائی اسمبلی میں شامل ہو سکے صوبائی حکومت کو بھی صورتحال کا ادراک ہونا چاہیے اور مناسب وقت پر انتخابی عمل مکمل کرانا ضروری ہے تاکہ عوام کی محرومی دور ہوقلات کے بلدیاتی انتخابات میں عوام کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ روا رکھا گیا ہے۔یہ انتخابات ساڑھے تین سال قبل ہونے چاہیے تھے، جبکہ باقی اضلاع میں بلدیاتی عمل بروقت مکمل ہو گیا۔ قلات میں اب تک الیکشن کے انعقاد کے لیے مناسب قانون اور ضابطہ کار بھی مکمل نہیں بنایا گیا کہ کس اصول کے تحت فنڈنگ اور سیلریز کی جائیں گی۔ساڑھے تین سال کی تاخیر کے بعد فوری انتخابات کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ منتخب نمائندے صرف اٹھ مہینے کے لیے عوام کی خدمت کر سکیں گے، جو کسی بھی حوالے سے کارگر نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بہتر یہ ہے کہ قلات کے انتخابات صوبے کے باقی بلدیاتی انتخابات کے ساتھ ایک ہی وقت میں کروائے جائیں تاکہ عوام کا حق ضائع نہ ہو اور انتظامی عمل بھی مثر اور شفاف ہو۔جماعت اور گروہ کی اپنی اہمیت ہوتی ہے، تاہم کسی ایک گروہ کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ دیگر سیاسی جماعتیں ختم ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی اسمبلی میں مثر نمائندگی رکھتی ہے جبکہ جمعیت علما اسلام، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)سمیت دیگر جماعتیں بھی سیاسی عمل میں موجود ہیں اگر کسی جماعت یا گروہ کا بنیادی مقصد لاپتا افراد کی بازیابی ہے تو انہیں پاکستان کے آئین، قانون اور ریاستی اداروں کے احترام کے ساتھ جدوجہد کرنی چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جلسے جلوس اور احتجاج ہر کسی کا جمہوری حق ہیں، مگر ریاست کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ یا تقاریر کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ہوتیں۔انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بیرونی عناصر کا کردار شامل ہے اور افغانستان کی زمین بعض وارداتوں کے لیے استعمال ہوتی ہے عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کے سامنے بھی یہ شواہد پیش کیے جا چکے ہیں کہ کچھ دہشت گرد گروہ بیرونی حمایت سے پاکستان میں وارداتیں کرتے ہیں۔جب یہی نیٹ ورک کے لوگ مارے جاتے ہیں یا غائب ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے احتجاج کیوں کیا جاتا ہے، جبکہ قبائلی دشمنی یا چوری کے دیگر واقعات میں متاثرین کے لیے عوامی مظاہرہ یا احتجاج نہیں ہوتا۔


