سی پیک کی خوشخبری اور سرینا ہوٹل دھماکہ

تحریر: راحت ملک
21اپریل کی شب تقریبا دس بجے کوئٹہ کے واحد پانچ ستارہ سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں کار بم کا خوفناک دھماکہ ہوا جس میں پانچ افراد شہید جبکہ 9زخمی ہوئے کوئٹہ شہر جو کئی ماہ سے بم دھماکوں جیسی دھشت گردی سے محفوظ ہو چکا تھا اس دھماکے سے ایک بار پھر گہرے خوف میں ڈوب گیا ہے وفاقی وزیر داخلہ نے اس دھماکے کے بعد ملک کے بڑے شہروں میں مزید دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کا انتباہ جاری کر دیا ہے رمضان کے مہینے میں عید سے قبل بازاروں میں خریداروں کے ہجوم کی روایت مذکورہ تنبیہ سے مانند پڑ سکتی ہے تو ثانوی طور پر بازاروں میں خریداری کیلئے بڑھتے ہوئے ہجوم کی وجہ سے جن میں کرونا سے احتیاط برتنے کے اقدامات ہوا میں اڑائے جا رہے ہیں کرونا وباءکے بے قابو ہو جانے کے خطرات میں اضافہ کا خدشہ دو چند ہوگیا ہے ہمسایہ ملک بھارت میں کرونا کی موجودہ (تیسری ) لہر نے تباہی مچائی ہے لاکھوں افراد کی ہلاکت کی اطلاعات آ رہی ہیں بھارت میں کرونا ویکسین کی دستیابی اور ویکسین لگوانے کا رجحان و مقدار پاکستان کے مقابل بہت زیادہ رہا ہے خدانخواستہ اگر ملک عزیز پاکستان میں کرونا کی وباﺅ بے قابو ہو گئی (جس کا خطرہ موجود ہے ) تو کیا صورتحال ہوگی؟ کیا تاجر برادری اور خود عام صارفین کرونا کے پیش نظر تجارتی سرگرمیوں یا خریداری میں تعطل پر آمادہ ہو پائیں گے ؟ کیا حکومت بڑے شہروں میں مجوزہ لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کر پائے گی ؟ یا ایسے فیصلے پر عمل کرانے کی استطاعت کا عملی مظاہرہ کر سکے گی؟ لاپرواہی غفلت اور بروقت ٹھوس و موثر فیصلہ سازی کے فقدان سے بازاروں میں کرونا ایس او پیز سے بے نیاز صارفین کا ہجوم کرونا کے پھیلاﺅ کا بڑا سبب نہیں بنے گا ؟ علاوہ ازیں بڑے شہرون میں بے تحاشہ ہجوم ان دہشت گردوں کیلئے آسان ہدف ثابت نہیں ہوگا جس کا انتباہ وزیر داخلہ نے جاری کیا ہے ؟ یہ سوال معاشرتی اجتماعی مخمصے کی کیفیت لئے ریاستی حکام اور عوام کے غفلت شعار۔ رویوں کی بنا پر ہمارے اجتماعی لاشعور میں یقینا کھلبلی پیدا کر رہا ہے جس سے عیدالفطر کی تیاریوں اورمسرتوں پر برے اثرات مرتب ہونگے تاہم تاجر برادری کرونا اور دہشت گردی سے بے نیاز ہو کر اس ماہ مبارک کی برکتوںکی بجایے زیادہ سے زیادہ تجارت اور سال بھر کیلئے منافع کمانے میں کمربستہ ہے اسے تو دونوں خدشات محض قیاس آرائی لگتے ہیں جنہیں ملائیت توانائی عطا کرتی نظر آ رہی ہے روز محشر سوال و جواب پر پختہ یقین رکھنے والے تاجر حلقے میں یہ خوف اور احساس ٍ گناہ البتہ موجود نہیں کہ اشیاءکی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کر کے صارفین کا استحصال کرنا گناہ عظیم ہے اور اس کا جواب روز حساب دینا پڑے گا۔
مہنگائی کے عفریت کے ساتھ اس رمضان و عید پر تو دو مزید خوف وابستہ ہوگئے ہیں ایک کرونا‘ دوسرا دہشت گردی کی تازہ لہر۔
کوئٹہ کار بم دھماکہ جسے پولیس نے خود کش قرار دے دیا ہے دہشت گردی کے بھیانک واقعہ سے بڑھ کر بہت سے سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں جن کا تعلق دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق ریاستی استعدادکار اور خود پانچ ستارہ سرینا ہوٹل انتظامیہ کے غیر سنجیدہ دکھاے پر مبنی معمولی نوعیت کے خفاظتی اختیاطی اقدامات سے ہے جبکہ ہوٹل کا محل ٍ وقوع اپنی حساسیت کےپس منظر میں سے دھماکے کے منفی اثرات مزید گہرے کر رہا ہے انتظامی اعتبار سے سرینا ہوٹل کوئٹہ کی سول انتظامیہ کی حدود میں واقع نہیں۔ بلکہ کوئٹہ کینٹ کی جغرافیائی و انتظامی حدود میں ہے جس کے داخلی دروازے کے بالمقابل نیوی کا بھرتی دفتر ہے جبکہ خارجی راستے کے سامنے بلوچستان ہائی کورٹ کی عمارت ہے اسی رخ پر ہوٹل سے متصل ایران کا قونصلیٹ آفس موجود ہے ذرا آگے بڑھیں تو ریڈیو پاکستان کی عمارت ہے سرینا چوک کے دوسری جانب بلوچستان اسمبلی ہے پھر آئی جی ایف سی کا صدر دفتر اور پی ٹی وی کی عمارتیں آمنے سامنے ہیں یوں یہ ہوٹل کوئٹہ کے انتہائی حساس ترین مقام پر واقع ہے جس وقت سرینا ہوٹل میں کار بم دھماکہ ہوا اس وقت پاکستان میں تعینات چین کے سفیر اپنے عملہ کے ہمراہ وہاں قیام پذیر تھے چینی سفیر ایک روز قبل کوئٹہ کے دورے پر تشریف لائے تھے پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کار بم میں ایک سو کلو گرام سے زیادہ بارودی مواد استعمال کیا گیا ہے خیر کا پہلو یہ ہے کہ دھماکے سے ہوٹل کے مرکزی حصے قیام گاہیں کمرے اور خوردونوش کیلئے مختص جگہیں محفوظ رہی ہیں۔
ہفتہ رواں میں شاید کوئٹہ آنے سے قبل چینی سفیر متعین اسلام آباد نے ایک اخباری بیان جاری کیا تھا جو دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات کے آداب مزین تھا جس میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی تاریخی اور روایتی سفارتی تاریخ کا اظہارنمایاں تھا اس بیان کا ایک جملہ بہت اہم اور حساس پہلو کا حامل تھا جناب سفیر نے فرمایا تھا کہ ” اہل بلوچستان بہت جلد سی پیک منصوبے کے متعلق خوشخبری سنیں گے "
سی پیک منصوبہ سابقہ دور میں طے ہوا جس پر عملدرآمد کا سلسلہ بھی زور و شور سے شروع جاری رہا گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور اسے اہم تجارتی گذرگاہ کے طور پر جدید و سریع العمل بنانے کیلئے تجدید نو کا عمل شروع تھا گوادر سے چین کی سرحد خنجراب تک سڑک کے دو مختلف راستے منصوبے میں شامل تھے جنہیں مشرقی اور مغربی روٹ کہا گیا مغربی روٹ کا زیادہ تر حصہ بلوچستان سے گزرنا تھا جو دوسرے راستے کے مقابل 400کلو میٹر کم فاصلے کا حامل ہے 400کلو میٹر کم فاصلے کے پس منطر میں مغربی روٹ کی افادیت چین کے علاوہ اس شاہراہ کو وسط ایشیاءسے منسلک کرنے کے زیادہ موثر اور کارآمد مواقع مہیا کرتا ہے لیکن شومئی قسمت مغربی روٹ کی تعمیر تعطل کا شکار ہو گئی اس پر سیاسی تنازعات کی کیفیت بھی موجود ہے اس روٹ کو گوادر سے خضدار ، قلات ، کوئٹہ ، کچلاک ، قلعہ عبداللہ ، ژوب سے ہوتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان تک پہنچتا جہاں سے خنجراب تک جاتا ہے۔ کیا جناب سفیر نے اپنے بیان میں اہل بلوچستان کیلئے جلد خوشخبری کی جس نوید کا امکان ظاہر کیا تھا اس کا تعلق مغربی روٹ کے احیاءسے ہے ؟ اس بارے قیاس آرائی کرنا آسان نہیں کیونکہ سی پیک کا منصوبہ اس وقت سست روی کا شکار ہے اور کئی جہات سے شکوک کی زد میں بھی ہے گزشٹہ ماہ چینی وزیر خارجہ نے ایران کے ساتھ چار سو ارب ڈالر پر مشتمل سرمایہ کاری کے باہمی تجارتی معاہدے پر تہران میں دستخط کئے تھے واضح رہے کہ چین کو مشرق وسطیٰ خلیج فارس تک محفوظ اورکم خرچ رسائی و ترسیل گوادر کے علاوہ چاہ بہار ( ایرانی بلوچستان ) کی بندرگاہ مہیا کرتی ہے گوادر کو چاہ بہار بندرگاہ پر متعدد اعتبار سے فوقیت و ترجیح حاصل ہے جس پر علیحدہ سے بات ہو سکتی ہے چینی وزیر خارجہ نے مذکورہ معاہدہ پر دستخظ کرتے ہوئے کہا تھا
” ایران ایسا ملک نہیں جو ایک فون کال پر لیٹ جاتا ہے” یہ بلیغ اشارہ کس جانب اسے فی الحال پردہ راز میں ہی رہنے دیں گوکہ راز ٍ نہاں اب اوپن سیکرٹ کا رتبہ اختیار کر چکا پھر بھی اس پر بحث سے اپنا ہی خون جگر سوختن ہوگا۔۔
موجودہ حکومت پر دو الزام انتہائی واضح مگر تشویشناک ہیں اول موجودہ وزیراعظم کی قیادت میں پی ٹی آئی نے حکومت وقت کے خلاف بدنام زمانہ 120روزہ دھرنے کے ذریعے چینی صدر کے دورہ پاکستان کو التواءکا شکار کرایا چینی صدر ڑنگ سی پیک معاہدے پر دستخط کیلئے اسلام آباد آ رہے تھے التواءکے ساتھ جناب عمران کان نے سی پیک کو خام خیالی بھی قرار دیا تھا وہ ایسا کیوں اور کس لئے کہہ رہے تھے؟ تاریخ اس کا جواب دے گئی۔ خیر پھر جب سے وہ مسند اقتدار پر براجمان ہوئے ہیں ملک میں کسی بھی نوعیت کا کوئی اہم ترقیاتی بڑا منصوبہ شروع نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیر تعمیر منصوبے سست روی کا شکار ہیں جیسے اورنج لائن۔ مجموعی طور پر سی پیک بھی مفلوج ہو کر رہی گیا ہے اس حوالے سے مختلف ممالک کے دباﺅکے ساتھ ساتھ منصوبے کیلئے ہونے والی مخصوص تعیناتیوں نے بھی سوالات اٹھائے۔ شکوک و شہبات کو جنم دیا ہے حتمی طور پر آئی ایم ایف سے پانچ ارب ڈالر قرضہ کے پیکیج نے ملکی معیشت اور جی ڈی پی کی سالانہ شرح نمو پر بدترین منفی اثرات مرتب کئے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ رواں پیکیج پر اتفاق تب ہوا تھا جب پاکستان کی وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جیسے عہدوں پر آئی ایم ایف کے اہلکار ہی جلوہ افروز ہو گئے تھے یعنی ملک کی مالی اور معاشی شہہ رگوں پر جب ان عالمی مالیاتی دہشت گرد اداروں ( بقول جان پرکنز ) قبضہ ہو گیا۔ حالیہ پیکیج کی مختلف شرائط ہیں جن ایک انتہائی اہم اور براہ راست سی پیک سے متعلق ہے۔
سی پیک معاہدہ دو طرفہ نوعیت کا ہے چین کا پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم چین کی مجموعی تجارت کا صفر اعشاریہ چار فیصد ہے تجارتی عدم توازن دور کرنے کیلئے وزیراعظم نواز شریف نے چینی ہم منصب سے ذاتی سطح پر معاملہ اٹھایا تاکہ سی پیک کے ذریعے پاکستانی صنعتی ترقی و تجارت پر اس کے منفی اثرات کم کئے جائیں چنانچہ بیجنگ نے پاکستان سے درآمد کی جانے والی 350 مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کم کر دی۔
اطلاعات کے مطابق سی پیک معاہدے میں باہمی اتفاق ہوا تھا کہ معاہدہ دو طرفہ ہوگا اور کسی بھی تیسرے فریق ( ملک یا ادارے ) کو اس کی دستاویز تک رسائی نہیں دی جائے گی مگر بد قسمتی سے 2019ءمیں حکومت پاکستان نے ( مقتدرہ حلقے کی رضا مندی ؟ ) معاہدے کی دستاویز آئی ایم ایف کو فراہم کر دیں یہ سفارتی نوعیت کا ایسا سانحہ تھا جس نے دونوں ممالک کی دوستی جو ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری بیان ہوتی تھی کو بداعتمادی کا شکار کر دیا آئی ایم ایف نے قرصے کیلئے جو شرط نامہ مرتب کیا اس میں سی پیک کے تمام مندرجات کو مدنظر رکھا گیا یہ کہنا ضروری نہیں کہ آئی ایم ایف سی پیک مخالف ملکوں کا مشترکہ ایجنٹ یا نمائندہ ادارہ اور سی پیک کے مخالفین میں شامل ہے آئی ایم ایف نے اپنے قرضے کیلئے معاہدے میں ایک شق شامل کی جس کے تحت پاکستان کسی بھی ملک یا مالی ایجنسی سے آءایم ایف کی مقرر کردہ مالی حد تک سے زیادہ قرض حاصل نہیں کر سکتا سی پیک کا سب سے بڑا اور اہم منصوبہ جو گوادر کو ریل کے ذریعے خنجراب سے منسلک کرتا ہے نیز ملک میں ریل کے نظام کو جدید بنانے میں معاون ہے اس کے قرضے کی مالیت آئی ایم ایف کی عائد کردہ مالی حد سے زیادہ ہے چینی بینک ایم ایل ون کیلئے قرضہ کی منظوری دے چکا ہے مگر پاکستان جو آئی ایم ایف کے ملازمین کی گرفت میں ایسے شنکجے میں پھنس چکا ہے کہ وہ ایم ایل ون کیلئے منظور شدہ چینی قرضہ حاصل کرنے سے معذور ہے یہی وجہ ہے کہ رسل و سائل کا سب سے اھم بنیادی منصوبہ جو سی پیک کو تیز تر راہداری بناتا ہے اب تک التواءکا شکار ہے اس منصوبے پر لاگت چونکہ سب سے زیادہ تھی اگر یہ روبہ عمل رہتا تو حکومت پر سی پیک کو سست روی کا شکار کرنے کا الزام عائد کرنا مشکل ہوتا یا پھر اس طرح کا عوامی تاثر پیدا ہی نہ ہوتا افسوسناک پہلو یہ ہے دونوں ملکوں (چین اور پاکستان ) کے درمیان سی پیک کے متعلق فیصلہ سازی کا ایک مشترکہ فورم جے سی سی ہے جو غیر فعال ہو چکا ہے نومبر 19 سے اب تک جے سی سی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔
میری خوش گمانی یہ ہے کہ شاید چینی سفیر اپنے حالیہ دورہ ٍ بلوچستان کے دوران سی پیک کے معاملات میں بلوچستان حکومت کو براہ راست یا بطور فعال رکن شامل کر کے مغربی روٹ یا پھر ایم ایل ون کیلئے منظور شدہ قرضے کے اجراءکی کوئی سبیل نکالنے کی امید لے کر آئے ہوں؟ اس قیاس آرائی کے ساتھ ہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ان کے دورے کے موقع پر ہوٹل میں جہاں سفیر موصوف قیام گزیں تھے دھماکہ کیونکر ہو گیا؟ اس کے پس پردہ کونسے عناصر کارفرما تھے؟ سیکورٹی نظام دورے کی حساسیت پر فول پروف سیکورٹی کا بندوبست کیوں نہیں کر پایا؟
غیر ملکی قوتوں کی کارستانی سے انکار ممکن نہیں لیکن اپنے ملکی دفاعی اداروں کی چوکسی اور کام کردگی کے متعلق تو ہم سوال اٹھانے کا حق رکھتے ہیں !!!
گزشتہ چند ماہ سے بلوچستان کے متعدد علاقوں اور شاہرات پر قائم ایف سی کی چیک پوسٹس ختم ہوگئی تھیں یہ اقدام بذات خود حوصلہ افزاءاور بدامنی پر قابو پانے جانے کے مترادف تھا جسکی عوامی سیاسی حلقوں میں توصیف ہوئی تھی۔ کوئٹہ شہر سے بھی بیشتر چیک پوسٹیں ہٹالی گئیں تھیں۔مگر 21 آپریل کی شب سرینا ہوٹل جیسے اھم حساس مقام پر بم دھماکہ کے فوری بعد وفاقی وزیر داخلہ کے بیان نے سراسیمگی اور ہیجانی کیفیت مع سوالات پیدا کردی ہے انہوں نے ارشاد فرمایا ہے۔
” حکومت فیصلہ کرچکی تھی کہ بلوچستان سے امن و امان کے لیے ایف سی کی خدمات واپس لے لی جائیں گی مگر سرینا ہوٹل دھماکے کے بعد ایسا ہونا ممکن نہیں ہوگا ” اس بیان میں پیوستہ مضمرات سنجیدہ سوالات پر غور کی ترغیب و توجہ دلاتے ہیں۔ آئینی جمہوری کلچر اس طرح کے سوالات اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے مگر ہمارے سیاسی ابواب سوال اٹھانے سے لرزنے کی کہنہ روایت کے امین ہیں۔ پھر عوام اور ریاست کا رشتہ کیسے مضبوط ہوگا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں