ناکو چار شمبے کا گدھااور ہمارا خواب

تحریر: رشید بلوچ
پاکستان میں گدھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، گدھوں کی افزائش نسل حوصلہ افزاء ہے،گدھوں کی تعداد میں اضافے کا کریڈٹ پی ٹی آئی اور محکمہ حیوانات کو ہی جاتا ہے، گدھا معصوم سا جانور ہے جس میں بہت ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں، گدھے کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی اس کے پیٹھ پر کوئلہ لادا گیا ہے یا کتابیں، بس اس نے بوجھ ہی اٹھا نا ہوتا ہے، گدھافرماں برداری میں اپنی مثال آپ ہے،دن بھر وزن اٹھا تا ہے لیکن مالک سے ایک لمحے کیلئے بھی شکایت نہیں کرتا، گدھوں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں،کالے، سفید، بھورے،آدھے کالے آدھے سفید، گدھوں کا رنگ بلے ہی مختلف ہوں لیکن انکی خصلت ایک جیسی ہوتی ہے،گدھا ترقی یافتہ یورپ کی ہو یا ترقی پزیر پاکستان کا، گدھا۔۔گدھا۔ہی ہوتا ہے،دنیا جیسے جیسے ترقی کرتی گئی تمام جانوروں کی پالنے پوسنے،کام لینے کا طریقہ بدلتا گیا، گھوڑا ایک دور میں میدان جنگ کاکروز میزائل ہوا کرتاتھا اب اس سے صرف دوڑنے کا کام لیا جاتا ہے،اونٹ مال برادری سے عربوں کیلئے ریس لگانے کا ٹائم پاس بن گیا،کتے۔۔۔کتے۔۔سے ڈوگی، پپی اور شیر وسے پتہ نہیں کیا سے کیا بن گیاہے، تمام جانور وں میں کسی نہ کسی طریقے کی تبدیلی لائی گئی ہے لیکن گدھا ارتقائی عمل میں آگے نہیں بڑھا، ہزاروں سال گزرنے کے باوجود گدھے نے اپنی شناخت نہیں بدلی،اپنی شناخت کے ساتھ کمنٹمنٹ رہنے کی وجہ سے گدھے کی مقبولیت میں زرا برابر بھی کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے، آج بھی جب کسی کو ڈانٹنا ہو اسے،گدھے سے منسوب کیا جاتا ہے، جیسے۔۔ گدھے کا بچہ۔۔۔تم گدھے ہو۔۔۔اس گدھے کو کیا پتہ۔۔تم گدھے کے گدھا ہی رہو گے۔۔بلکہ بہت سے باپ اپنے بچے کو پیار سے۔گدھا۔۔بھی بولتے ہیں۔۔جب آپ کسی کو، گدھا۔کہہ رہے ہیں تو سننے والا آپ کی باڈی لینگویج سے اخز کر سکتا ہے کہ آپ نے پیار سے۔گدھا بولا ہے یا اپنے غصے کا اظہار کیا ہے،دنیا بھر میں امریکہ واحد ملک ہے جہاں گدھوں کی مقبولیت سب سے زیادہ ہے،امریکہ میں گدھے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی ڈیمو کریٹک پارٹی کا انتخابی نشان۔گدھا۔ہے، ڈیموکریٹک کے ایک لیڈر جیکسن نے 1837 میں گدھے پر بیٹھ کراپنی انتخابی مہم چلائی تھی کیونکہ اس دور میں لگژری گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں جس پر لیڈر صاحبان بیٹھ کر انتخابی مہم چلا لیتے،گدھا آسان دستیاب سواری ہوتا تھا جس سے جیکسن نے فائدہ اٹھا یا، اب یہ نہیں معلوم جیکسن نے گدھے کو تو قیر بخشی یا گدھے نے جیکسن کو لیڈر بنا یا؟بہ عینہی یہ سمجھنا مشکل ہے کہ امریکہ گدھے کی وجہ سے سپر پاور بنا یا امریکہ نے گدھے کو شرف عزت عطا کی؟ جو بھی ہو لیکن 184سال سے گدھا امریکہ پر حکمرانی کر تا آرہا ہے، موجودہ امریکی صدر جو بائڈن ڈیموکریٹک ہیں،جوبائیڈن گدھے کی وجہ سے امریکہ کے صدر بن گئے، حالانکہ باہمی قربت و مماثلت کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کو ہاتھی کی جگہ گدھے کو اپنا نا چاہئے تھا تاکہ دو پیروں اور چار پائے والے گدھے کی جوڑی جم جاتی لیکن دو گدھے ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ایک دوسرے کو دولتیاں مارتے ہیں اس لئے امریکہ میں یہ جوڑی نہیں بن سکی، امریکہ ہی کیوں ہمارے ہاں بھی گدھوں کی مقبولیت کہیں سے کم نہیں،ہمارے بچپن میں ناکو چار شمبے گدھے پر گاجر اور پیاز بیچا کرتا تھا،ناکو شمبے نے اپنے گدھے کی کمال کی تربیت کر رکھی تھی، گدھے کو پتہ ہوتا تھا کہ ناکو چار شمبے کو کس گدان سے چائے ملنی ہے اور کہاں کھانا ملنا ہے،؟گدھا عین کھانے اور چائے بنتے وقت اسی گدان کے سامنے پہنچ کر ڈھینچو،ڈھینچو کرنے لگتا،ناکو چار شمبے نے بڑی سوچ و بچار کے بعد اپنے گدھے کا نام,, سیری،، رکھا تھا،سیری خود دن بھر بھوکا رہتا لیکن اپنی ہوشیاری سے مالک کی شکم سیری کرادیتا، آج کے گدھے سیری کی طرح سادھے نہیں ہیں وہ سیانے ہوگئے ہیں وہ پہلے خود کھاتے ہیں مالک کو بعد میں کھلاتے ہیں، مگر مالک تو مالک ہوتا ہے، مالک کبھی گدھے کی چالاقی کامیاب نہیں ہونے دیتا۔۔۔
گدھوں کی تعداد میں اضافے سے ہم اپنے معیشت مضبوط کر سکتے ہیں،اس کام میں چائنا ہماری مدد کرسکتا ہے،دنیا میں چائنا واحد ملک ہے جس کی مخلوق کتے بلیوں کے علاوہ گدھے کا گوشت بڑے شوق سے کھاتی ہیں، خیر سے ہمارے لاہوریئے بھائی بھی کھوتے کا مزہ چھک چکے ہیں،شاید چینوں کے بعد لاہوریئے دوسری قوم ہوگی جنہوں نے گدھے کی تکے بوٹیاں کرکے بیف کا مزہ لیا ہے،جس طرح کراچی والے کوؤں کو تیتر،بٹیر سمجھ کر کھاتے رہے ہیں شاید اب بھی کھارہے ہوں،کھوتے کی سپلائی لاہوریوں کیلئے زیادہ پڑ گیا ہے اب پی ٹی آئی حکومت کو کٹے،مرغیوں کی تمسخرانہ ایڈیا سے نکل کر گدھوں کی بر آمد جیسے منافع بخش کاروبار کے منصوبے بنانے چاہئے، گدھوں کی بر آمدگی کی یک طرفہ معاہدہ ہم صرف اپنے شہد سے میٹھے اور ہمالیہ سے اونچے دوست چین سے کر سکتے ہیں،اس سے ہمیں بھاری زر مبادلہ ملے گا، اس زر مبا دلے سے چائنا سے لئے گئے ادھار چکتا کر دیں گے، برآمدگی کو مزید وسعت دے کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے منہ پر 42ہزار ارب کا قرضہ دہ ماریں گے،عربوں نے اگر سیاڑاں پنتی کی تو انکے قرضے بھی سیدھا ماتے پر کھسکا دیں گے،تاکہ نہ رہے بھانس اور نہ بجے بانسری،موجودہ حکومت کیلئے یہ ایک سنہرا موقع ہے،ہمیں امید ہے حکومت میں بیٹھے معاشی افلاطون اس نادر موقع کو ضائع نہیں ہونے دیں گے،بس پالیسی بنانے اور چین سے معاہدے کی دیر ہے،اسکے بعد ہم بھی چار پیسے کی صحافت کی نوکری چھوڑ کر کسی گوادری سے سی پیک روٹ پر ایک چھوٹا سا زمین کا ٹکڑے کرایہ پر لیکر گدھوں کی افزائش نسل کریں گے جس سے ہماری معیشت بھلی چنگی ہوجائے گی،ہم بھی آپ و لاپ ہوں گے، اگر ہم قسمت و گدھوں کی مہربانی سے سرمایہ دار بن گئے تو اپنی ایک سیاسی جماعت بنائیں گے،ہماری جماعتی منشور کا پہلا شق,, گدھے بڑھاؤ سرمایہ بنا ؤ،، ہوگی،مگرکبھی کبھی سوچتا ہوں گدھے دولتیاں مارتے ہی ہیں لیکن ساتھ وقت بے وقت رگو شنکا بھی کرتے ہیں چلیں کوئی بات نہیں یہ دقت اٹھانے کو تیار ہیں لیکن پریشانی یہ ہے کہ ہمارے شمالی پڑوسی ہمیں یہ کام بھی نہیں کرنے دیں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں