بات کرنی مجھے مشکل ایسی تو نہ تھی

بایزید خان خروٹی
بلوچستان کی رائے عامہ بھی اپنی نہیں ہے بلکہ بنی بنائی آتی ہے۔ مقامی کمزوررائے عامہ اور مصلحتوں کے شکار ابلاغ نے یہاں کی حکومت کو بے لگام بنا رکھا ہے جو نظام کی پہلے سے تباہ حال کشتی میں مزید چھید کی وجہ بن رہا ہے یہاں ایماندار اور قانون کی عمل داری پر پختہ یقین رکھنے والا آفیسر خودکو غیرمحفوظ تصورکرتا ہے کیونکہ یہاں ایسی شنوائی کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی ہے کہ جہاں جاکر رویا جائے جس کا خوف نظام پر مسلط لوگوں کے دلوں میں ہو۔ یہاں ہر غلط اقدام سب کو نظر آتا ہے لیکن ہر طرف خوف سے بھرا ماحول نے سناٹا طاری کر رکھا ہے۔ جس میں کمزور سی آہ بھی اتنی گونج پیدا کرتی ہے کہ چار سو نظریں آہ کو گھیرتی ہیں مسئلے کو نہیں۔یہی وجہ ہے کہ انجانے میں منہ سے کوئی آہ نہ نکلے ہر شخص نے منہ پر ہاتھ رکھا ہے۔ گویا یہاں غلط اقدام جرم نہیں بلکہ توجہ دلانے والی آہیں گنہگارتصورکیجاتی ہیں۔ صوبے میں سب سے بڑی عدالت عالیہ کے احکامات کوبھی مکمل طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے بلوچستان ہائی کورٹ میں گزشتہ پانچ ماہ سے ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں نان کیڈرشخص کو اہم ترین محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں بطور سیکریٹری اور دیگر خلاف قانونی تعیناتیوں کے عمل کو خلاف قانون قرار دیتے ہوئے کالعدم کرنے دینے کی استدعا کی گئی ہے جس کی متعدد بار سماعتیں بھی ہوئی ہیں۔ معزز عدالت کو بھی حکومت خاطر میں نہیں لا رہی ہے صوبائی حکومت کو بارہا عدالت عالیہ کی طرف سے جواب طلبی کے نوٹسز ہوئے ہیں بلکہ سماعت کے دوران اس تعیناتی کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے برخلاف عمل قرار دیاجارہا ہے تقرری منسوخ کرنا تو درکنار حکومت عدالت میں تحریری جواب جمع کرانے کی زحمت محسوس نہیں کررہی ہے یہی نہیں بلکہ اب صوبائی حکومت نے ایک حکم نامے کے تحت 14 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو تبدیل کیا تھا جس کو بھی عدالت عالیہ میں چیلنج کیا گیااور عدالت عالیہ نے تمام ڈپٹی کمشنر زکے تبادلے منسوخ کرنے کا حکم دیا لیکن دو دن بعد ایک الگ آرڈر کے ذریعے بعض آفیسران کو توہین عدالت کرتے ہوئے دوبارہ اسی اضلاع میں تعینات کردیا گیا ہے جب قانونی شکنی کا یہ عالم ہو کہ معزز عدالت عالیہ کے احکامات کی توہین کی جائے وہاں عام آدمی کی شنوائی کا حکومتی سطح پر یقین کیسے کیا جا سکتا ہے جبکہ کچھ عرصہ قبل ڈپٹی کمشنر چاغی کے غیرقانونی احکامات کے خلاف پریس کانفرنس جس کو بین الاقومی میڈیابھی رپورٹ کرچکا ہے کی کرنے والی صوبائی سروس کی دلیر خاتون آفیسراسسٹنٹ کمشنر دالبندین عائشہ زہری کو بھی سیاسی احکامات نہ ماننے کی پاداش میں تبدیل کردیا گیا یہ وہ ضلع ہے جس میں ایران بارڈرکے ساتھ تفتان واقع ہے اس بابت کمشنر رخشان ڈویژن نے چیف سکریٹری بلوچستان کویہ تبادلہ منسوخ کرنے کیلئے سیاسی طور پر کئے گئے تبادلے کے تمام عوامل کے ساتھ ایک مفصل خط لکھا ہے کہ مذکورہ آفیسر نے انکے اور ڈپٹی کمشنر چاغی کے اطمینان کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دئیے ہیں۔ وہ سینئر حکام کی جانب سے تفویض کردہ احکامات کی بجا آوری میں کبھی ناکام نہیں ہوئیں۔ حتی کہ وہ نو دن تفتان میں رہ کر دن رات کام کرتی رہیں باوجود یہ کہ یہ ان کا سب ڈویژن نہیں تھا۔وہاں ایک گروپ ہے جو ان کی بحیثیت اے سی دالبندین پوسٹنگ کے وقت سے ان کے خلاف سر گرم ہے۔ انہیں غلط فائدہ اٹھانے کے لئے خاتون ہونے کے باوجود باقاعدہ خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی۔اے سی نے حکومتی احکامات کی تعمیل کی اور اپنے آپ کو کسی گروپ کی بجائے سرکاری ملازم ثابت کیا۔ اس لئے اے سی دالبندین کے تبادلہ کے احکامات منسوخ کئے جائیں۔ بلوچستان میں جو کام عوامی نمائندوں کے کرنے کا ہے وہ سرکاری آفیسران کررہے ہیں جبکہ جو کام سرکاری آفیسران کے کرنے کا ہے وہ عوامی نمائندے کررہے ہیں۔حکومت کی حالت یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے کورونا سے نمٹنے کے لیے ایک 13 رکنی پارلیمانی کمیٹی جس کی کنوینر شپ سرکاری ملازم چیف کوبذریعہ نوٹیفکیشن دی گئی تھی۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ کوئی بھی منتخب نمائندہ چاہے وزیرہی کیوں نا ہو اس اہلیت سے محروم ہے۔اللہ بھلا کرے سینیٹر رضا ربانی کا کہ ان کے بیان سے اس بارے میں پورے ملک کو معلوم ہوااور صوبائی حکومت نے ملکی سطح پر بدنامی کی وجہ سے یہ آرڈر واپس لیااس سے بلوچستان میں عوامی سطح پر قائم یہ تاثر کہ بلوچستان میں پہلے ہی سیلیکٹڈ جمہوریت تھی۔ اب تو سیلیکٹڈ کے ساتھ ساتھ کنٹرولڈ بھی ہے کے بیانیہ کو تقویت بخشی گئی ہے جب تک بلوچستان میں عدالتی فیصلوں کا احترام اور انتظامی آفیسران
کو ریاستی تحفظ کا احساس نہیں دلایا جاتا اور ان کے عوام کے مفادات میں کئے گئے فیصلوں کو ریاستی فیصلے نہیں قرار دیا جاتا ہے تب تک یہی خاموش آہ و فغاں ہر شخص کے منہ بند رکھنے کیلئے ڈالی ہوئی روئی کی مانند ہو گی۔ اور دل میں ہر شخص کے یہی الفاظ ہونگے کہ بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

اپنا تبصرہ بھیجیں