زینب الرٹ بل اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود سینیٹ نے منظور کرلیا

اسلام آباد:سینیٹ نے اپوزیشن کے کئی اراکین کی مخالفت کے باوجود زینب الرٹ بل کی منظوری دیدی جس کو قومی اسمبلی پہلے ہی منظور کرچکی ہے۔ بدھ کو چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں سینیٹ کا اجلاس شروع ہوا جہاں وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے زینب الرٹ بل منظوری کے لیے پیش کیا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی نے وفاقی وزیر کی جانب سے بل کو منظوری کے لیے پیش کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ وزیر ایوان میں موجود نہیں ہیں جبکہ بل پر رپورٹ گزشتہ روز پیش کی گئی ہے، بل میں کچھ نکات ہیں جن پر نظر ڈالنی چاہیے، بچوں کو زیادتی اور قتل کے ارادے سے اغوا کرنے والوں کے لیے یہ سزا کم ہے، مجرمان کے لیے سزا بڑھائی جائے، صرف عمر قید کی سزا کم ہے۔جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دباؤ کے ذریعے قصاص کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، قصاص کو ختم کرنے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ زینب الرٹ بل میں کمزوریاں ہیں جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ مشتاق احمد نے ہاؤس کو ڈکٹیٹ کرنا شروع کردیا ہے، اس طرح ایوان نہیں چلے گا۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں جن میں وزن بھی ہے لیکن بل پہلے قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ کمیٹی میں زیر غور رہا اور اب ساری قوم دیکھ رہی ہے کہ بل منظور ہو۔شفقت محمود نے کہا کہ بل کو پاس کر دیں، ترامیم بعد میں شامل کر دیں گے۔حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ ایسے درندوں کو الٹا لٹکانے چاہیے اور پھانسی دینی چاہیے،ترامیم آتی رہیں گی اس لیے اس وقت بل کو منظور کروانا ناگزیر ہے۔فیصل جاوید خان نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ہر جگہ اٹھارویں ترمیم درمیان میں آجاتی ہے جس پر اپوزیشن ارکان نے ان کی تقریر کے خلاف احتجاج کیا۔پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر قراۃ العین مری نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے بات کرنے کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا فیض محمد زینب الرٹ بل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قصاص کا مسئلہ ہے، کوئی کسی کو قتل کرے تو اس کے لیے شریعت میں قصاص ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریپ اور قتل کی سزا میں قصاص کو شامل کریں۔چیئرمین پی پی پی کے ترجمان مصطفی نوا ز کھوکھر نے اس موقع پر کہا کہ بل پر سات یا اٹھ اجلاس منعقد ہوئے، بل میں ہم نے کچھ ترامیم کی اور ملک میں رائج قانون کے مطابق والدین کا بچہ گم ہو تو پولیس فوراً ایف آئی آر درج نہیں کرتی جس کے باعث بچے کے لاپتہ ہونے پر شروع کا وقت ضائع ہوجاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ بل میں کہا ہے گیا کہ جیسے والدین بچے کی اطلاع لے کر آئیں گے تو پولیس پابند ہو گی دو گھنٹے میں ایف آئی آر درج کرکے اطلاع دیں اور اگر پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرے تو دو سال سزا اور ایک لاکھ جرمانہ ہو گا۔مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ خصوصی عدالت 3 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی، بچوں کے خلاف سارے جرائم کو اس بل میں شامل کر دیا گیا ہے، اگر اس قانون میں مزید بہتری کی تجویز دیں تو اسے شامل کرنے کو تیار ہیں۔وفاقی وزیر اعظم سواتی کی جانب سے پیش کیا گیا زینب الرٹ بل کو سینیٹ نے منظور کرلیا جبکہ اپوزیشن اراکین نے بل کی فوری منظوری پر احتجاج کیا۔زینب الرٹ بل کا اطلاق پورے ملک پر ہو گا جس کے تحت زینب الرٹ، ردعمل اور ریکوری ایجنسی زارا (ZARRA) قائم کی جائے گی جو اغوا اور لاپتہ بچوں کی ریکوری کے حوالے سے کام کرے گی، پولیس دو گھنٹے کے اندر بچے کے اغوا یا لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر درج کرے گی۔بل کے مطابق پولیس فیکس، ای میل، موبائل، ٹیلی فون کال کے زریعے زارا کو اطلاع دی گی، اگر زارا کو بچے کے لاپتہ ہونے کی خبر ملے گی تو وہ متعلقہ پولیس اسٹیشن کو فوری آگاہ کرے گی اورپولیس اسٹیشن کا افسر اغوا کو ضابطہ فوجداری کے سیکشن 154 کے تحت قابل شناخت کے تحت درج کرے گا۔تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کے پاس کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے تحت اختیارات ہوں گے، جو پولیس افسر بچے کی گمشدگی کی ایف آئی آر اندراج میں تاخیر کرے گا یا رکاوٹ ڈالے گا اسے دو سال تک سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔بل میں کہا گیا ہے کہ کیس میں پاکستان پینل کوڈ کے تحت سیکشن 292اے 292 بی، سیکشن 328، 328 اے، 361, 362,364, 364A, 365, 369, 369A, 372, 373, 375, 377, 377 A کی دفعات شامل ہوں گی۔زینب الرٹ بل میں واضح کیا گیا ہے کہ ضلع کا سیشن جج خصوصی طور پر کیس مجسٹریٹ یا جج کے حوالے کرے گا جو کیس کو تین ماہ میں نمٹا دے گا۔اجلاس کے دور ان سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ کم عمر لڑکیوں کی شادی کا بل لے کر آئیں، اس بل کو ایجنڈے میں شامل کیوں نہیں کیا جا رہا ہے، حکومت اس بات کا جواب دے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو قانون سازی میں عجلت ہے اور ہونی بھی چاہیے، آج نئے وزرا بھی ایوان میں موجود ہیں جو ہمارے لیے نئی بات ہے۔یاد رہے کہ ریپ اور قتل کا نشانہ بننے والی قصور کی کمسن زینب انصاری کی لاش کے ملنے کے ٹھیک 2 سال بعد رواں برس 10 جنوری کو قومی اسمبلی نے زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایکٹ 2019 متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔مذکورہ بل وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے جون 2019 میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔منظور کردہ بل کے مطابق ‘بچوں کے خلاف جرائم پر عمر قید، کم سے کم 10 سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال سزا دی جاسکے گی جبکہ 10 لاکھ کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا علاوہ ازیں لاپتہ بچوں کی رپورٹ کے لیے ہیلپ لائن قائم کی جائے گی اور 18 سال سے کم عمر بچوں کا اغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے اور گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لیے زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایجنسی بھی قائم کی جائے گی۔بل میں کہا گیا تھا کہ جو افسر بچے کے خلاف جرائم پر دو گھنٹے میں ردعمل نہیں دے گا اسے بھی سزا دی جاسکے گی۔بل کی منظوری کے وقت کہا گیا تھا کہ قانون صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لاگو ہوگا تاہم ا سینیٹ قائمہ کمیٹی نے اس کا دائرہ کار پورے ملک تک وسیع کرنے کی منظوری دے دی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں