تاریخ کی بدترین تباہی اور ہمارے سیاستدان

تحریر:انورساجدی
جنوبی ایشیاء کی معلوم تاریخ میں آج تک اتنی بڑی تباہی نہیں آئی جس قطعہ زمین یا منطقہ پر ریاست پاکستان استوار ہے وہ تاریخ کی بدترین بربادی کا سامنا کررہا ہے شمالی علاقہ جات سے لیکر خیبرپختونخوا کوہ سلیمان کا علاقہ پورا بلوچستان اور پورا سندھ مکمل طور پر ڈوبا ہوا ہے انگریزوں نے جوکھربوں روپے کا انفرااسٹرکچر کھڑا کیا تھا وہ نیست ونابود ہوگیا ہے ہزاروں لاکھوں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں پل ڈیم ریلوے ٹریک اور سڑکیں ختم ہوگئی ہیں گزشتہ حکومتون کے کئی ناقص منصوبے بھی تباہ ہوگئے ہیں جن میں داسو ڈیم بھی شامل ہے طوفان خیز بارشوں نے سب سے پسماندہ مفلوک الحال اور بے یارومدد گار صوبہ بلوچستان کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے باقی علاقے تو دنیا سے کافی ہفتوں سے کٹے ہوئے تھے لیکن30گھنٹے کی مسلسل بارشوں نے دارالحکومت کوئٹہ کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے صوبے کا مواصلاتی نظام فیل ہوگیا ہے ریلوے اور پی آئی اے کی سروس بند ہے جبکہ سڑکوں کے ذریعے بھی اس کا رابطہ ساری دنیا سے منقطع ہوگیا ہے اوپر سے ٹیلی فون نیٹ ورک سردست ختم ہوگیا ہے نصیر آباد ڈویژن کے لاکھوں لوگ پانی کے اندر ڈوبے ہوئے امداد کے منتظر ہیں شدید بارشوں کے بعد دریائے سندھ میں آنے والا سیلاب بھی آگے بڑھ رہا ہے پشتون بیلٹ میں سالہا سال سے لگے ہوئے پھلدار باغات بھی جڑ سے اکڑگئے ہیں جبکہ ژوب سے لیکر گوادر تک ہزاروں ٹیوب ویل سولر اور دیگر تنصیبات سیلاب برد ہوگئی ہیں حالات اس قدر مخدوش ہیں کہ وہاں پر امدادی کارروائیاں بھی شروع نہیں ہوسکتیں کوئٹہ جو کہ مون سون کے دائرہ کار سے باہر تھا وہاں طوفانی بارشیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔
سندھ کا تو بہت ہی برا حال ہے ایک کروڑ کچے مکانات گرگئے ہیں اور سندھ کی نصف سے زائد آبادی کھلے آسمان تلے پڑی ہوئی ہے ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے سیم نالے تباہی کا ذریعہ بن گئے ہیں ادھر کوہ سلیمان کے وہ علاقے جو پنجاب میں شامل ہیں بہت بڑے انسانی المیہ سے دوچار ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ پنجاب حکومت کا کوئی ذمہ دار وزیر یار وزیراعلیٰ نے ابھی تک علاقہ کے دورے کی زحمت نہیں فرمائی ہے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کا پروگرام تھا کہ وہ اپنے ہیلی کاپتر میں اپنے لیڈر عمران خان کو لیکر ڈیرہ غازی خان جائے لیکن کوئی ایسی جگہ نہیں بچی تھی کہ وہاں پر ہیلی پیڈ قائم کیاجاسکے اس لئے پنجاب حکومت کے سربراہ اور دیگر اکابرین وہاں پر نہ جاسکے ویسے بھی جناب عمران خان کو ہیلی کاپٹر پر سفر کرنے کی بہت بری عادت پڑ چکی ہے اور وہ دو قدم بھی ہیلی کاپٹر کے بغیرسفر کے روادار نہیں ہیں سیلاب کی تباہ کاری سے کتنا نقصان ہوا ہے یہ تو حکومتی سروے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا البتہ عالمی برادری نے اس تباہی سے نمٹنے کیلئے ابتدائی طور پر50کروڑ ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے جو کہ بہت کم ہے توقع ہے کہ عالمی برادری اس عظیم انسانی تباہی کے ازالہ کیلئے مزید امداد کا اعلان کرے گی ایک اور محسوس کی جانے والی بات یہ ہے کہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کو امداد دینے والے ممالک نے ابھی تک کوئی اعلان نہیں کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہے پاکستان کی تاریخ کی بدترین تباہی کے اس مشکل وقت میں بھی سیاسی لوگ سیاست میں مصروف ہیں حالانکہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہر قسم کی سیاست محاذ آرائی اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ بند کیاجانا چاہئے تھا شہباز حکومت اور عمران خان ایک دوسرے کیخلاف مقدمات کا اندراج کررہے ہیں دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے یہ صورتحال دیکھ کر دنیا کے لوگ پاکستانی سیاستدانوں اور اکابرین کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہونگے قائم کرتے ہونگے یہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا وقت نہیں ہے بلکہ مفلوک الحال سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کا وقت ہے اس وقت جو صورتحال جی نہیں چاہتا کہ سیاست اور سیاستدانوں کا تذکرہ کیاجائے لیکن ان کی جو حرکتیں ہیں ان کو زیربحث لائے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں یہ جو سیلاب ہے یہ شہباز حکومت پر اللہ کا عذاب بن کر نازل ہوا ہے عوام پہلے ہی تیل،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے حکومتی کارکردگی سے نالاں تھے جبکہ حالیہ مصیبتوں سے نمٹنے کی صلاحیت سے عاری حکومت کی دقعت مزید گرگئی ہے حالات خود بخود عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں حالانکہ دوصوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور وہاں پر سیلاب سے متاثرین کی ابھی تک خاطر خواہ پر امداد نہیں ہوئی ہے پنجاب حکومت ابھی تک بے حسی سے کام لے رہی ہے جبکہ جنوبی پنجاب میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں اور لاکھوں مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں اس حقیقت کے باوجود عمران خان کا بول بالا ہے اور رہے گا انہیں موقع ملا ہے کہ وہ اپنی حکومتوں کی نااہلی بھی 25کلو میٹر رقبہ تک محدود شہباز حکومت پر ڈال دے اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کا پروپیگنڈہ بہت زور ہے اس لئے آنیوالے دنوں میں وہ نہ تو اپنی گلگت بلتستان کی انتہائی نااہل حکومت پشتونخوا میں محمود خان کی ناقص کارکردگی اور پنجاب کی اپنی سب سے بڑی حکومت اور اس کے نااہل وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کی کسی خامی کو سامنے نہیں آنے دیں گے بلکہ سندھ اور مرکزی حکومتوں کو آڑے ہاتھوں لیکر عوام کو ان سے مزید برگشتہ کردیں گے۔
اسے قسمت کی دیوی کہہ سکتے ہیں جو عمران پر مہربان ہے وہ مقدمات کا سامنا کررہے ہیں اور ان سے بچ کر نکل رہے ہیں اگر توہین عدالت کے شکنجے میں نہ آئے انہیں محمود غزنوی بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ان کی مقبولیت کاگراف کتنا بڑا ہے9حلقوں کے ضمنی انتخابات میں سامنے آجائیگا اگر عمران خان کیخلاف کوئی موثر اورکارگر حکمت عملی نہیں بنائی گئی تو آئندہ انتخابات میں وہ بھرپور کامیابی حاصل کرلیں گے۔
ادھر ن لیگ کے اندرشدید اختلافات سامنے آرہے ہیں ایک منجوس الحواس شخص فیصل آباد کے عابد شیر علی ہیں جو نوازشریف کے قریبی رشتہ دار ہیں یہ شہباز گل ٹائپ آری ہے نہ جانے ن لیگ نے کیوں انہیں ٹکٹ دے کر عمران خان کیخلاف کھڑا کردیا وہ دو روز قبل اپنی حکومت پر شدید تنقید کررہے تھے اور بجلی کے بل دکھاکر کہہ رہے تھے کہ ہمارا مقابلہ عمراں خان سے نہیں بجلی کے بلوں سے ہے وہ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل پر بھی شدید تنقید کررہے تھے لگتا ہے کہ ضمنی انتخاب میں موصوف کی ضمانت ضبط ہوجائے گی۔
سوشل میڈیا پر نوازشریف کی ایک تقریر نظر سے گزری اگر یہ فیک نہیں ہے تو شہباز حکومت کیلئے تباہ کن ہے پارٹی کے سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ شہبازشریف مکمل طور پر فیل ہوگئے ہیں ملک اور معیشت کو چلانا ان کیس کا کام نہیں ہے نہ صرف معیشت کوٹھیک کرنا مفتاح اسماعیل کے بس میں ہے ان کا کہنا تھا کہ صرف اسحاق ڈار ہی معیشت ٹھیک کرسکتے ہیں ان کی تقریر کا یہ حصہ مشکوک لگا جس میں وہ عمران خان کی تعریف کررہے تھے معروف صحافی اور نوازشریف کے سوانح نگار سہیل وڑائچ نے تصدیق کی ہے کہ نوازشریف اپنے بھائی کی حکومت سے نالاں ہیں وہ واپس آکر پارٹی سنبھالنا چاہتے ہیں لیکن مقدمات کی وجہ سے واپس نہیں آرہے ہیں نوازشریف نے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے کہا ہے کہ ان کی اپیلیں کافی عرصہ سے سردخانے میں پڑی ہیں جبکہ دیگر مقدمات کی سماعت رات کو عدالتیں کھول کر بھی کی جارہی ہیں سہیل وڑائچ نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ نوازشریف جیل جائے بغیر اپنے آپ کونااہل اور قید کی سزا سے بری ہونا دیکھنا چاہتے ہیں ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ن لیگ لندن گروپ اور شہباز گروپ میں بٹ چکی ہے جس کا نقصان اس پارٹی کو آئندہ انتخابات میں ہوگا بلکہ ان اختلافات اور تقسیم کی وجہ سے عمران خان کو پنجاب میں ”واک اوور“ مل جائے گا یہ تو معلوم نہیں کہ آئندہ انتخابات تک پہنچنے میں عمران خان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا لیکن اگر وہ نااہلی سے بچ گئے تو بہت بڑی کامیابی حاصل کریں گے نوازشریف کو سجھائی نہیں دے رہا کہ وہ عمران خان کے مقابلہ میں کیا بیانیہ بنائے اس وقت تو ن لیگ کسی سیاسی فلسفہ اور موثر بیانئے کے بغیر تہی دست ہے سنا ہے کہ نوازشریف اعلیٰ عدلیہ اور مقتدرہ کو ملاکر ان کیخلاف بیانیہ بنانے کاسوچ رہے ہیں لیکن مقتدرہ تو شہباز شریف کو خود لے آئی ہے اس کیخلاف کیا بیانیہ بن سکتا ہے۔عوام ایسی باتوں پر کیا یقین کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں