قومی و طبقاتی سیاست کی پہچان یوسف مستی خان !!

تحریر : منان باچا ایڈووکیٹ
یوسف مستی خان 16 جولائی 1948ءکو کراچی میں واجہ اکبر مستی خان کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق بلوچوں کے مشہور قبیلے گورگیج سے تھا۔ اس قبیلے کو کسی زمانے میں بلوچ تاریخ کے دراز قد شخصیت، قومی ہیرو اور نامور بلوچی شاعر بالاچ کی وجہ سے بہت شہرت اور عروج حاصل رہا۔ بالاچ نہ صرف گورگیج قبیلے کے سردار تھے بلکہ وہ بلوچ قبائل میں ایک اہم کردار کے بھی حامل تھے۔ بالاچ کی وفات کے بعد اس قبیلے کا شیرازہ بکھر گیا اور اس کے بڑی تعداد میں لوگ افغانستان ہجرت کرگئے اور قندھار کے گرد و نواح میں کرز کے علاقے میں آباد ہوگئے۔ ڈھائی سو سال قبل اس قبیلے کے کچھ لوگ افغانستان سے آکر قلات میں آباد ہوئے جہاں سے کچھ لوگ بلوچستان کے علاقے سبی میں آباد ہوئے جبکہ یوسف مستی خان کا خاندان کراچی میں آکر آباد ہوا۔ ان کا شمار کراچی کے حکمران خاندان میں تھا ایک طرف ان کے والد واجہ اکبر مستی خان فشری سے متعلق کاروبار اور فیکٹریوں کے مالک رہے تو دوسری جانب ان کے چچا ستار مستی خان انگریزی حکومت میں خان آف قلات کے سفیر رہے۔ یوسف مستی خان نے ابتدائی تعلیم کراچی اور پھر مری میں حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی پاکستان برماشلز میں بحیثیت منیجر ملازمت اختیار کی۔ بھٹو کے دور میں جب دو صوبوں میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومتوں کو ختم کیا گیا اور پارٹی پر پابندی لگا کر بلوچستان پر فوج کشی کی گئی تو یوسف مستی خان ملازمت چھوڑ کر سیاست کے میدان میں آئے، حکومت نے انکو اپنے چاچا عبدالستار مستی خان کے ساتھ بلوچ مزاحمت کاروں کی مدد کرنے کے الزام میں گرفتار کرکے قلی کیمپ میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے باقاعدہ سیاست کا آغاز سردار شیرباز خان مزاری اور بی بی نسیم ولی خان کی قیادت میں نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی سے کیا وہ اس جماعت کے کراچی کے صدر رہے اور بھٹو مخالف تحریک میں ان کا ایک کلیدی کردار رہا۔ انہوں نے لیاری کے علاقے سے پیپلز پارٹی کیخلاف قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا لیکن جنرل ضیا نے یہ الیکشن نہیں ہونے دئیے۔ افغان انقلاب کے بعد وہ میر غوث بخش بزنجو کی قیادت میں بننے والی پاکستان نیشنل پارٹی سے وابستہ ہوئے اور آخری دم تک میر غوث بخش بزنجو کے نظریات پر قائم و دائم رہے۔ انہوں نے بحالی جمہوریت کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا اور جنرل ضیا کے حکومت میں کئی مرتبہ قید وبند کا شکار رہے۔ بھٹو سے لیکر جنرل ضیا تک حکومت میں ان کے تمام کاروبار کو تباہ کیا گیا، وہ قومی مسئلے کو طبقاتی مسئلے کے ساتھ جوڑ کر پاکستان میں سامراج مخالف جاگیرداری کے خاتمے اور محنت کش طبقات کے حقوق کے حصول کیلئے برسرپیکار رہے۔ وہ 1993ءسے 1996ءتک پاکستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر رہے اور اس حیثیت میں انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کی طرز پر ایک بڑی پارٹی بنانے کی کوشش کی، انہوں نے خان عبدالولی خان سے مسلسل ملاقاتیں کیں اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ سیاست سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لیں اور دفاعی ان تمام دھڑوں کو اکٹھا کرکے ان کے سربراہ بنیں تاہم ان کی اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ 1997ءمیں جب پاکستان نیشنل پارٹی کے ایک دھڑے نے میر بیزن بزنجو کی قیادت میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کے ساتھ ملکر سردار عطا اللہ مینگل کی سربراہی میں بلوچستان نیشنل پارٹی بنائی تو یوسف مستی خان نے اپنی راہ ان سے الگ کی اور پاکستان نیشنل پارٹی کو منظم کیا اور بعد میں بائیں بازو کی پارٹی پاکستان ورکرز پارٹی سے انضمام کیا اور نیشنل ورکرز پارٹی کے نام سے نئی جماعت بنائی جس کے صدر عابد منٹو تھے اور یوسف مستی خان جنرل سیکرٹری تھے، بعد میں چار دیگر پارٹیوں نے نیشنل ورکرز پارٹی سے الحاق کرکے عوامی ورکرز پارٹی تشکیل دی جس کے پہلے صدر عابد حسین منٹو تھے اور دوسرے سیشن میں فانوس گجر اس جماعت کے صدر اور یوسف مستی خان نائب صدر رہے۔ فانوس گجر کی وفات کے بعد وہ پارٹی کے قائم مقام صدر رہے اور اپریل 2022ءکے لاہور میں منعقد مرکزی کنونشن میں ان کو مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔ وہ لمبے عرصے سے کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے لیکن انہوں نے کبھی بیماری کو خاطر میں نہیں لایا۔ وہ کہتے تھے کہ میں ایک طرف اپنے جسمانی کینسر سے لڑ رہا ہوں تو دوسری طرف معاشرے میں پھیلے ہوئے کینسر کیخلاف جدوجہد سے باز نہیں آﺅں گا۔ ان پر اس خطرناک بیماری کے باوجود گوادر میں جانے پر پاپندی لگائی گئی اور ان کیخلاف بغاوت کا مقدمہ بناکر ان کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے زبردستی کراچی کے مقامی لوگوں کی زمینوں پر ملک ریاض اور بحریہ ٹاﺅن کے قبضے کیخلاف سخت مزاحمت کی اور ہر طرح سے ملک ریاض کا راستہ روکا۔ انہوں نے اپنی انتہائی نامساعد حالات اور بیماری کے باجود آخری سانس تک جدوجہد جاری رکھی اور کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کو انقلابی نعروں کے ساتھ آبائی قبرستان میوہ شاہ کراچی میں اپنے پردادا مستی خان کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ انہوں نے ساری عمر محکوم اقوام اور محنت کش طبقات کیلئے جدوجہد کی، ان کا کردار آنے والی نسلوں کیلئے مشعل کا کام کریگا اور اس راہ پر چلنے والوں کو روشنی فراہم کرتا رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں