برطانیہ عظمیٰ کا پہلا کالا وزیراعظم
تحریر: انور ساجدی
نسل پرست برطانوی لیڈر اینک پاول نے 55 سال پہلے پیشنگوئی کی تھی کہ اگر برصغیر سے تارکین وطن اسی تعداد میں آتے رہے تو 25 سال بعد برطانیہ کا وزیراعظم کوئی انگریز نہیں بلکہ ’’چودھری نوردین‘‘ ہوگا یہ پیشنگوئی 25 سال تو نہیں 50 سال میں پوری ہورہی ہے ’’رشی سونک‘‘ انگلستان کی تاریخ کے پہلے انڈین پہلے ہندو اور پہلے کالے وزیراعظم بن گئے ہیں اس سے پہلے پاکستانی نژاد صادق خان عمران خان کے برادر نسبتی کو شکست دے کر لندن کے میئر بن گئے تھے معزول وزیراعظم بورس جانسن کی کابینہ میں کئی بھارتی اور پاکستانی وزیر تھے اوررشی سونک خزانہ کے وزیر تھے یہ جو معجزہ ہوا ہے یا انقلاب آیا ہے یہ غیر جمہوری مسلمان ممالک اور بادشاہتوں میں ممکن نہیں ہے کسی بھی مسلمان ملک کولیجئے وہاں آپ کی کئی نسلیں بھی گزر جائیں وہ آپ کو نیشنلٹی نہیں دیتے لیکن یورپی اقوام قانون کی حد تک اپنے تمام شہریوں کو برابر کا درجہ دیتے ہیں رشی سونک کے دادا نے تقسیم ہند کی وجہ سے گوجرانوالہ سے بھارتی ہجرت کی اور پھر 1960 کی دہائی میں انگلینڈ چلے گئے اس زمانے میں شہریت بہت آسانی سے مل جاتی تھی چنانچہ وہ برطانوی شہری بن گئے 42 سالہ رشی سونک وہاں پر پیدا ہوئے پلے بڑھے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے اکانومکس میں ڈگری حاصل کی وہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر جانسن کی کابینہ میں وزیر خزانہ بن گئے چند ماہ قبل انہوں نے قدامت پسند پارٹی کے اندر قیادت لینے کی کوشش کی تھی لیکن گورے اراکین نے خاتون لزٹروس کو ان پر ترجیح دی تھی لیکن وہ برطانیہ کی تاریخ کے ناکام ترین وزیراعظم ثابت ہوئے اس لئے گوروں کو مجبوراً ایک کالے کا انتخاب کرنا پڑا ایسے حالات میں جبکہ برطانیہ سمیت پورا مغربی یورپ اقتصادی زبوں حالی کا شکار ہے رشی سونک کو بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا بدقسمتی سے غریب ہونے کے باوجود برطانیہ فلاحی ریاست ہونے کا اسٹیٹس تبدیل کرنے سے انکاری ہے ملک میں لاکھوں لوگ روزگاری الائونس لے رہے ہیں تعلیم اور صحت مفت ہے جبکہ اب اس کے وسائل ایک فلاحی ریاست کو چلانے کیلئے ناکافی ہیں اوپر سے روس اور یوکرین کی جنگ نے پوری معیشتوں کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔یورپ کا بڑا حصہ اس جنگ کی وجہ سے توانائی کے بحران کاشکار ہے فرانس میں روزانہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے سردیوں میں جلانے کیلئے ایندھن نہیں ہے تقریباً یہی حال سب سے بڑی معیشت جرمنی کا ہے اس جنگ نے جرمنی کو آسمان سے نیچے گرادیا ہے اس کے تمام کاروباری ادارے خسارے کاشکار ہیں قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے جبکہ برطانیہ سوچ رہا ہے کہ کیوں نہ آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے قرضے حاصل کئے جائیں صدر پوٹن جان بوجھ کر جنگ کو طول دے رہا ہے وہ جنگ عظیم دوئم کے بعد یورپ کو اقتصادی طور پر ملیا میٹ دیکھنا چاہتا ہے اور بتارہا ہے کہ سرمایہ دار یورپ کی خوشحالی روسی وسائل کی بدولت تھی ادھر امریکہ وہی کررہا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اس نے کیا تھا وہ یورپ کی جنگ سے براہ راست متاثر نہیں ہے دھڑا دھڑ یوکرین کو اربوں ڈالر کا اسلحہ بیچ رہا ہے اور اس کا بل بھی جرمنی فرانس اور دیگر خوشحال ممالک سے لے رہا ہے امریکہ ایسے حالات پیدا کررہا ہے کہ روس محدود پیمانے کی ایٹمی جنگ پر مجبور ہوجائے امریکہ بار بار کہہ رہا ہے کہ صدر پوٹن ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر سوچ رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ روس کوئی ایسی حرکت کرے حالانکہ اگر روس یہ غلطی کربیٹھا تو نہ صرف یوکرین اور قرب و جوار کی انسانی آبادی تباہ ہوجائے گی بلکہ روس بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گا اس کے علاوہ پوری دنیا کی معیشت دگردوں ہوجائے گی توقع یہی ہے کہ پوٹن اس انتہا تک نہیں جائیں گے اور انسانیت کو موت کے دروازے تک نہیں پہنچائیں گے۔پاکستان کے عوام کا زیادہ تعلق چونکہ برطانیہ سے ہے اس لئے انہیں وہاں کے معاملات سے دلچسپی ہے اگر رشی سونک اپنے عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ اور ناقابل برداشت یوٹیلیٹی بلوں اور کمرتوڑ مہنگائی سے نجات دلانے میں کامیاب ہوگئے تو آئندہ دوٹرم قدامت پسند پارٹی کی حکومت کو کوئی نہیں ہلا سکے گاناکامی کی صورت میں کمزور لیبر پارٹی کو دوبارہ موقع ملے گا کہ وہ اقتدار میں آئے اس وقت یورپ کی حالت پاکستان جیسی یا اس سے بھی بدتر ہے برسوں پہلے امریکی ماہرین نے یہ کہا تھا کہ یہ صدی ایشیائی صدی ہوگی اور یورپی اقوام کو زوال آئیگا یہ بات سچ ثابت ہورہی ہے اس وقت چین انڈیا ویٹ نام بنگلہ دیش اور دیگر ممالک تیزی کے ساتھ ترقی کررہے ہیں وہ زمانہ گیا جب ملک لوہا بیچنے مشینری فروخت کرنے تیل یا اسٹاک کے کاروبار سے دولت مند ہوتے تھے یہ دور نئی ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر کا ہے اس کام میں چین پہلے اور انڈیا دوسرے نمبر پر ہے تمام امریکی دیوہیکل کارپوریشنز کے آدھے سے زیادہ سی ای او بھارتی ہیں جبکہ انڈیا سافٹ ویئر برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے ھیران کن بات یہ ہے کہ مودی جیسے متعصب اور انتہا پسند وزیراعظم کے باوجود انڈیا 6 فیصد سے زیادہ شرح سے ترقی کررہا ہے گزشتہ ماہ بلوم برگ نے اعلان کیا تھا کہ انڈیا فرانس کی جگہ لیکر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے معاشی ماہرین یہ پیشنگوئی پہلے ہی کرچکے ہیں کہ انڈیا 2030 میں جرمنی کی جگہ لے گا اب تو یہ مرحلہ اور قریب آگیا ہے جبکہ چند سال کے دوران چین امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر نمبر ون معاشی طاقت بن جائیگا چین میں صدر ژی لی پنگ کی آمرانہ پالیسیوں نے انسانیت اور بنیادی حقوق کو تو کچل کر رکھ دیا ہے لیکن معاشی ترقی کو مہیمز لگارہی ہیں صدر شی نے چند سال کے دوران ایک اور کلچرریولوشن برپا کردیا ہے جس کے تحت سیاسی مخالفین کا صفایا اور مذہبی اقلیتوں کو نیست و نابود کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس نے کئی بھانڈے پھوڑ دیئے ہیں اور کئی لوگوں کا سافٹ ویئر اپڈیٹ کردیا ہے ان لوگوں میں وزیر خارجہ بلاول زرداری ان کے والد محترم آصف زرداری بھی شامل ہیں بلاول نے جوش خطابت میں کئی باتیں کیں اور علی وزیر کی رہائی کے نعروں پر کہا کہ آپ وہاں جاکر نعرے لگائیں جنہوں نے علی وزیر کو قید کررکھا ہے۔اگلے روز ہی انہیں اپنا خطاب واپس لینا پڑا اور معافی بھی مانگنا پڑ ی وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ جن کی موجودگی میں حساس نعرے لگے تھے انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا جبکہ آصف علی زرداری کو بھی قابل اعتراض نعروں اور خطابات کی مذمت کرنا پڑی ایک اور اہم واقعہ ن لیگ کا نئے جج صاحبان کی تقرری پر خفیہ سمجھوتہ ہے کل یہ پارٹی جب اپوزیشن میں تھی تو جمہوریت کی بقاء کے گن گاتی تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنی پرانی روش پر چل پڑی اس نے اپنے وزیر قانون کو مجبور کیا کہ وہ فرمان برداری کا مظاہرہ کریں چنانچہ وزیر نے ایسا کیا اور پھر استعفیٰ دیدیا دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی بھی اسی طرح کی مجبوریوں کی شکار نظر آتی ہے آج تحریک انصاف جو نعرے لگارہی ہے اور مداخلت کی مخالفت کررہی ہے لیکن در پردہ وہ بھی معافی تلافی کی کوششیں کررہی ہے کیونکہ اس ریاست میں جمہوریت نام کی چیز ابھی بہت دور ہے پارلیمنٹ کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی آئین کی بالادستی ابھی تک ایک خواب ہے پاکستانی قوم ماضی کی طرح دوبارہ جمہوریت کی پہلی کلاس میں پہنچ گئی ہے اور اس کے سیاسی قائدین تعلیم بالغاں کے اسکول میںایک دھونا دھونادو دھونے چارکی مشق کررہے ہیں اس کے باوجود کسی میں انکار کی ہمت نہیں ہے یہ لوگ اقتدار کے اتنے دلدارہ ہیں کہ اپنی ہتک کے بدلے میں انہیں نام نہاد اقتدار چاہئے آئندہ ماہ یعنی نومبر میں جو تبدیلی آئیگی اس کے بعد سیاستدانوں کا کیاحال ہوگا یہ اسی وقت ہی پتہ چلے گا۔