اشرافیہ کا اقتدار کے لئے بے ہودہ کھیل

تحریر:انور ساجدی

ایک طرف پنجابی نوساختہ نو دولتیہ اشرافیہ کے درمیان اقتدار کی لڑائی جاری ہے جبکہ دوسری جانب ٹی ٹی پی نے پشتونخوا کے کئی علاقوں پر قبضہ کرکے قتل و غارت گری شروع کردی ہے اسی دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بدستور خون ناحق بہہ رہا ہے آئے روز گمشدہ نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے بلوچستان میں یہ روایت بھی ڈال دی گئی ہے کہ اگر بڑے بڑے حادثات و واقعات کے مجرم نہ ملیں تو کسی کو بھی مار کر کہا جائے کہ فلاں واقعہ کا مجرم مقابلے میں مارا گیا ہے یہاں سرکاری پالیسیوں کا ایک تسلسل جاری ہے اور سیاسی حکومتیں تبدیل ہونے کے باوجود یہ پالیسی برقرار ہے حتیٰ کہ بولان میں دو نوجوان خواتین کو گرفتار کرکے مچھ جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔اتوار کو ایک مال میں واقع منی چینجر کے بورڈ پر نظر پڑی تو ڈالر کی قیمت 227 سے زیادہ ہوگئی ہے حالانکہ عمران کے مارچ کو ابھی تین دن ہوگئے ہیں جوں جوں مارچ آگے بڑھے گا پنجاب کی سب سے اہم شاہراہ کے بند ہونے سے ملک کی معیشت اور کاروبار پر کاری ضرب پڑے گی اور اگر درمیان میں خفیہ مذاکرات کے ذریعے مارچ ختم نہ ہوا تومنحنی سی کمزور حکومت کی مشکلات میں اور اضافہ ہوجائے گا نہ صرف یہ بلکہ جب عمران خان روات پہنچ کر چاروں طرف سے دارالحکومت کی ناکہ بندی کا فریضہ سرانجام دیں گے تو کیا ملک چلے گا اور کیا حکومت چلے گی اسی دوران وزیراعظم شہباز شریف کو 80 کروڑ ڈالر امداد لینے کے لئے چین بھی جانا ہے اگر عمران خان نے ناطقہ بند کئے رکھا تو عین ممکن ہے کہ وزیراعظم کا دورہ منسوخ ہوجائے اگر نہ ہوا تو انہیں چین جاکر خفت کا سامنا کرنا پڑے گا اگر حالات اسی طرح رہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ سعودی ولی عہد پاکستان کے دورے پر آئیں ویسے بھی عمران خان کی خواہش ہوگی کہ ولی عہد کبھی پاکستان نہ آئیں کیونکہ وہ گھڑی چوری کے مسئلہ پر سعودی ولی عہد سے ناراض ہیں ان کا خیال ہے کہ انہوں نے بیش قیمت گھڑی فروخت کردی تھی تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑی تھی سعودی ولی عہد نے بلاوجہ اس چوری کی تشہیر کرکے عالم اسلام کے سب سے بڑے لیڈر اور ریاست مدینہ کے داعی کپتان کی بے عزتی کا سامان کیا حالانکہ گھڑی تھی 35 کروڑ کی اور کپتان نے نقصان کا سودا کرکے اسے 14 کروڑ میں نیلام کردیا اس نقصان کا غم الگ ہے اسی اثناء شہباز شریف نے انکشاف کیا کہ سعودی ولی عہد نے انہیں عمران خان سے بھی مہنگا تحفہ عنایت کیا ہے ضرور یہ تحفہ پچاس کروڑ مالیت کا ہوگا یہ خبر سن کر کپتان کو غصہ آیا ہوگا کہ یہ کم بخت کہاں سے ٹپک پڑا اگر وہ اب تک وزیراعظم ہوتے تو یہ تحفہ بھی انہیں نصیب ہوتا۔ایکپوری رات لانگ مارچ چھوڑ کر لاہور میں غائب رہنے اور افواہوں کے مطابق ایک اہم شخصیت سے ایک اور ناکام ملاقات کے بعد اتوار کی دوپہر کو مریدکے پہنچ کر کپتان مزید آگ بگولہ تھے انہوں نے جہاں اس بات کی تردید کردی کہ انہوں نے آرمی چیف کی تقرری کے لئے شہباز شریف سے کوئی خفیہ رابطہ کیا تھا ساتھ ہی اپنی کچھ درستگی کرتے ہوئے فرمایا کہ فوجی قیادت پر ان کی تنقید تعمیری ہے کیونکہ فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے لہٰذا میری خواہش ہے کہ پاکستان کی فوج مضبوط رہے جہاں تک لاہور میں پھیلی افواہوں کا تعلق ہے کہ یہ افواہ کسی اور نے نہیں پھیلائی بلکہ ان کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے خود اسٹیج پر آکر پھیلائی انہوں نے نادانستگی میں کہہ دیا کہ کپتان ایک اہم میٹنگ میں شرکت کے لئے لاہور گئے ہیں اگر اس خبر کو مزید کنفرم کرنا مقصود ہو تو بحریہ ٹائون کے ملک ریاض سے رابطہ کیا جاسکتا ہے جنہوں نے ایک ماہ قبل کپتان کا یہ پیغام شہباز شریف تک پہنچایا تھا کہ چلو مل کر آرمی چیف کی تقرری مشاورت سے کریں گے ملک ریاض آج کل سیاسی دلالی کا کام بھی کررہے ہیں انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک کے دوران کپتان کا پیغام آصف علی زرداری کو بھی پہنچایا تھا لیکن اس وقت تک آصف علی زرداری بری طرح سے پھنس چکے تھے کیونکہ عدم اعتماد کی تحریک کے محرک وہ خود تھے اور اس مرحلہ پر ان کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ اچانک پسپائی اختیار کرتے چنانچہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کپتان زرداری کا نام سننے کے روادار نہیں انہوں نے مرید کے میں اپنے خطاب میں کہا کہ نواز شریف کی طرح فوجی نرسری کی پیداوار نہیںاور نہ ہی بھٹو ہیں جو ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کر پکارتے تھے اپنی معزولی کے بعد بھٹوکی تعریف کرتے کرتے کسی نے سمجھایا ہوگا کہ بھٹو اور اس کی پارٹی کو بھی رگیدناہے جب عمران خان اقتدار کے عروج پر تھے تو حضرت مولانا نے ’’منے کے ابا‘‘ کی کہانی سنائی تھی اس کے بعد کئی عالمی اخبارات نے بڑے دلچسپ کارٹون شائع کئے تھے جن میں ’’اباجی‘‘ اپنے منے کو کرکٹ میچ سکھارہے ہیں اور ان کی انگلی پکڑ کر چلانا سکھارہے ہیں کپتان یہ بھی بھول گئے ہیں چند روز قبل جنرل قمر جاوید باجوہ نے برملا کہا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کی جبری کامیابی کیلئے انہیں بڑے بڑے جتن کرنے پڑے تھے اس کے باوجود کپتان اس خوش گمانی میں ہیں کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر یہاں تک آئے ہیں انہیں سمجھنا چاہئے کہ ڈیڈی کا اردو ترجمہ ’’منے کا ابا‘‘ ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ اقتدار سے نکل جانے کے بعد عمران خان نے خود چلنا سیکھ لیا ہے ان کو وقت سے پہلے معزولی کرنا ایک سیاسی و تذویراتی غلطی تھی اس کے بارے میں انہوں نے ایک جاندار مگر مبہم بیانیہ تشکیل دیا بے چارہ عوام اور خاص طور پر اندھی تقلید کرنے والوں نے اس جھوٹے بیانیہ کو دل و جان سے قبول کرلیا وہ اتنے غصے میں تھے کہ فوجی قیادت کیلئے میر جعفر میر صادق غدار اور ہینڈلرز کے القابات استعمال کئے مرید کے میں بھی انہوں نے یہی کہا کہ مجھے نکال کر چوروں اور ڈاکوئوں کو ملک پر مسلط کیا گیا انہوں نے کہا کہ مقتدرہ سن لے ہم کسی صورت ان چوروں اور ڈاکوئوں کو قبول نہیں کریں گے البتہ کپتان یہ بھول گئے ہیں ان کی اپنی پارسائی کا دعویٰ بھی ہوا میں تحلیل ہوگیا ہے ان کے مارچ کے دوران بھی گھڑی چور اور توشہ خانہ چور کے نعرے لگے توشہ خانہ ریفرنس کے فیصلہ فارن فنڈنگ کیس میں انہیں مجرم قرار دینے القادر یونیورسٹی کیلئے ملک ریاض سے اربوں روپے کی زمین ہتھیانا اور لندن کی عدالت سے ملک ریاض پر عائد جرمانہ کی 50 ارب روپے کی رقم بظاہر ان کے حوالے کرنا اور اس کی منظوری کابینہ سے حاصل کرنا وہ واقعات ہیں کہ اگر عمران خان کوئی اور ہوتا تو شرم کے مارے اپنی پارسائی کے دعوے نہ کرتا لیکن کیا کریں بندہ زور آور ہے وہ اپنی کوئی کمی کوتاہی اور غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور مرنے مارنے پر آمادہ ہیں کہ ہر قیمت پر جلد انتخابات کروا کر دوبارہ کرسی ان کے حوالے کی جائے باالفرض محال اگر وہ آنے والے الیکشن میں ہار گئے تو اپنی ہار تسلیم کرکے گھر نہیں بیٹھیں گے بلکہ دھاندلی کے خلاف ایک اور تحریک کا آغاز کریں گے وہ صرف اس صورت مطمئن ہونگے کے ان کی جیت کا اعلان کیا جائے وہ ایک پیشگی پلان بناچکے ہیں جس کے تحت انہوں نے پہلے ارشد شریف کو باہر بھیجا لیکن وہ قتل ہوگئے اب انہوں نے اپنے دو جنونی پیروکاروںعمران ریاض خان اور ڈاکٹر معید پیرزادہ کو بیرون ملک بھیجا ہے وہ ضرورت کے تحت کپتان کیلئے ایک نئی جنگ کا آغاز کریں گے یہ دونوں حضرات ارشد شریف کی طرح بھولے نہیں بلکہ زیادہ چالاک ہیں ڈاکٹر پیرزادہ نے کہا کہ وہ کینیا میں نہیں بلکہ انگلینڈ پہنچ چکے ہیں یہ دونوں حضرات اچھا خاصا زادراہ بھی ساتھ لے جاچکے ہیں ارشد شریف کی طرح خالی ہاتھ نہیں گئے ہیں ویسے بھی عمران ریاض فرح گوگی کے کاروبار کے سہولت کار ہیں ان کے پاس اچھا خاصا سرمایہ ہے جسے وہ لندن جاکر ٹھکانے لگائیں گے جبکہ ساتھ ہی سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف ایک نیا محاذ بھی کھولیں گے۔اگرچہ یہ معلوم نہیں کہ کپتان آئندہ چل کر کیا کریں گے اگر ان کے مارچ کے دوران علی امین گنڈاپور جیسے ناسمجھ لوگوں کے ذریعے کچھ گڑبڑ ہوگئی یا کشت و خون کا بازار گرم ہوگیا تو کپتان 11 ماہ تو کیا 11 سال بعد بھی برسر اقتدار نہیں آسکیں گے کیونکہ بہت بڑے انتشار کو روکنے کیلئے مارشل لاء بھی لگ سکتا ہے اور اسلام آباد کو بچانے کیلئے کرفیو کا نفاذ بھی ہوسکتا ہے صورتحال انتہائی گھمبیر ہے جسے حل کرنے کیلئے بہت صبروتحمل اور سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے جہاں تک لاہور سے چلنے والے مارچ کا تعلق ہے تو اس میں لوگوں کی بڑی تعداد شامل نہیں ہے البتہ آگے جاکر یہ تعداد کافی بڑھ سکتی ہے اگر پشتونخواء حکومت ایک لاکھ لوگ بھیجنے کا بندوست کرے تب کپتان کی مرادیں پوری ہوسکتی ہیں موجودہ ہجوم کے ذریعے وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں