رسوائیاں کیا کیا

تحریر: انور ساجدی
عمران خان کا پکا فیصلہ ہے کہ جب تک انہیں دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھایا نہیں جاتا اور ان کی پسند کی تقرریاں نہیں کی جاتیں وہ ملک کو چلنے نہیں دیں گے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پیروں پر کچھ لگنے اور زخمی ہونے کے باوجود گھیرائو جلائو جاری رکھنے اور لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے یہ پہلا موقع ہے کہ ایک لیڈر براہ راست حکومت ریاست اور اس کے سب سے طاقتور اداروں کو چیلنج کررہا ہے لیکن ریاست اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے معذور ہے اگر ان کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا تو متعدد الزامات کے تحت جیل میں ہوتا‘ شہباز شریف کی لولی لنگڑی حکومت تو ہے کمزور اور وہ کچھ کرنے سے قاصر ہے لیکن دیگر ادارے بھی بے بس ہیں۔یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کے شاہ سوار تفصیل کے ساتھ بتارہے ہیں کہ عمران خان کے حالیہ لانگ مارچ اور ایجی ٹیشن کا واحد مقصد اپنے مطلب کی تقرری کا حصول ہے اور یہ بھی پاکستان کی تاریخ کی پہلی مثال ہے کہ طاقت سے مغلوب ایک لیڈر اہم اداروں کے اندر رخنہ ڈال کر اہم تقرری کو متنازع بنارہا ہے اور غالباً یہ بھی پہلا واقع ہے کہ وہ اپنے اوپر حملے کی ایف آئی آر وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار کے خلاف درج کروانا چاہتے ہیں یہ انہی کا طرہ ہے کہ پنجاب میں ان کی حکومت ہے وزیراعلیٰ انہی کے ہیں اور پولیس بھی اپنی ہے لیکن وہ واویلا مچارہے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا اور ایف آئی آر درج نہیں کی جارہی ہے کیا بہادری اور دیدہ دلیری ہے موصوف کا موقف ہے کہ اعظم سواتی نے اگر ایک اہم شخصیت پر تنقید کی تو کیا ہوا قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ایک طرف وہ قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ اپنی ذات کو قانون اصول اور ہر چیز سے بالاتر سمجھتے ہیں سب کو نظر آرہا ہے کہ وہ ملک کو چلنے نہیں دے رہے ہیں۔ معیشت کا پہیہ انہی کی وجہ سے جام ہے حکومت ان کے رویہ کی وجہ سے بے حد کمزور ہے‘ ساری دنیا میں بحیثیت ریاست پاکستان کا مذاق بنا ہوا ہے مارچ شروع کرنے کے بعد ان کا یہ سب سوشل میڈیا بریگیڈ ’’ہنومان‘‘ کی طرح جگہ جگہ آگ لگارہا ہے لیکن سارے ادارے ان کے سامنے بے بس ہیں تحریک انصاف کا فدائی اینکر اور سوشل میڈیا کمانڈر عمران ریاض خان نام لے لے کر نہ صرف اہم شخصیات کو تنقید کا نشانہ بنارہا ہے بلکہ حکومتی شخصیات ان کی دشنام طرازی کی توپوں کے نشانہ پر ہیں۔اینکر عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ عمران خان تب تک طرح طرح کے ڈرامے جاری رکھیں گے جب تک کہ اہم تقرری نہیں ہوجاتی جس کی بھی تقرری ہوئی یہ راولپنڈی پہنچ کر ایک جلسہ کریں گے اور بولیں گے کہ تقرری میرٹ پر ہوئی ہے اس لئے ’’مٹی کی ناک‘‘ رکھ کر وہ اپنے مارچ کے خاتمے کا اعلان کریں گے تاہم ان کی تحریک کا اگلا مرحلہ جلد انتخابات کے لئے فوری طور پر شروع ہوجائے گا۔ عمران خان جانتے ہیں کہ آئندہ چند ماہ کے دوران جب بھی انتخابات ہوجائیں ان کی کامیابی یقینی ہے کیونکہ پی ڈی ایم کی حکومت معیشت کی بحالی میں ناکامی‘ مہنگائی میں ہوشربا اضافہ‘ بجلی اور گیس کی ناقابل برداشت قیمتوں نے عام آدمی اور مڈل کلاس کی کمر توڑ دی ہے اس کے علاوہ حکومتی بیانیہ بھی بہت کمزور ہے اگر وہ عوام کے سامنے کوئی ایسی چیز پیش نہیں کرسکی کہ وہ اپنی مدت تک عوام کو ریلیف دینے کے لئے کیا اقدامات کرے گی۔عمران خان بوجوہ ایک ڈائنا سور بن چکے ہیں اور یہ ’’کوموڈو ڈریگن‘‘ کی طرح بغیر چبائے ہر چیز کھاتے اور ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں حتیٰ کہ وہ اپنے خالق کو بھی کھانے کے چکر میں ہیں چونکہ حد درجہ کے جھوٹے ڈرامے باز بلکہ چکر باز ہیں لہٰذا آخر کار ان کے سارے سفید جھوٹ باطل ہوجائیں گے اور وہ عوام کے سامنے بری طرح بے نقاب ہوجائیں گے جیسے کہ انہوں نے وزیر آباد میں اپنے اوپر حملے کا جو ڈرامہ کھیلا وہ ایک سربستہ راز ہے حالانکہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرے کہ ان کے پیروں کے معائنہ کے لئے ماہرین کی ایک ٹیم بنائی جائے اگر تو ٹیم بن گئی اور معائنہ کی نوبت آئی تو گولیاں لگنے کا سارا ڈرامہ فلاپ ہوجائے گا کیونکہ انہیں لوہے اور گولیوں کے ٹکڑے لگے ہیں کوئی گولی نہیں لگی وہ کبھی بھی ماہرین سے طبی معائنہ کروانے پر راضی نہیں ہوں گے کیونکہ ان کا پول کھل جائے گا۔عمران خان کی رعونت اور دیدہ دلیری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں اعلیٰ عدالتوں سے ہمیشہ ریلیف مل جاتا ہے جس کا وہ ناجائز فائدہ اٹھاکر اپنی مہم جوئی جاری رکھتے ہیں عدلیہ کے علاوہ انہیں صدر علوی کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔ علوی نے عمران خان پر حملے کے بعد آرمی چیف سے ایک طویل ملاقات کی اور بھرپور کوشش کی کہ عمران خان سے صلح کی جائے اور ان کے مطالبات تسلیم کئے جائیں لگتا ہے کہ ملاقات کامیاب نہ ہوسکی اس لئے عمران خان نے دوبارہ لانگ مارچ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔اس کے علاوہ موصوف کو کئی مقتدر شخصیات کی حمایت بھی حاصل ہے لیکن اگر آئندہ دو ہفتوں میں نئی تقرری ہوئی تو موصوف کا جوش و جذبہ کچھ ٹھنڈا ہوجائے گا تاہم یہ بات طے ہے کہ عمران خان آرام سے گھر بیٹھنے والے نہیں ہیں اب تک وہ متعدد خطرناک اور نازک مقدمات میں گرفتاری سے بچے ہوئے ہیں اگر وہ ایک دفعہ ہاتھ آجائے اور حکومت اسے جیل بھیجنے میں کامیاب ہوجائے تو ان کی بہادری اور مردانہ جوہر کا پتہ چلے گا بے شک انہیں مچھ جیل کی مرچی وارڈ میں نہ رکھا جائے ان کے لئے کوئی بھی جیل ناقابل برداشت ہوگا یہ ہنوز معلوم نہیں کہ سپریم کورٹ نے عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا جو حکم دیا ہے اس میں عمران خان کے حسب طلب تیسرے شخص کا نام بھی ڈالنے کا کہا گیا ہے کہ نہیں اب تو وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑے گا اور وہ کپتان کی پوشیدہ طاقتوں سے سہم جائیں گے اندازہ لگائیں کہ عمران خان کئی درجن مقدمات میں مختلف عدالتوں سے ریلیف حاصل کرچکے ہیں اور اس کا سلسلہ جاری ہے اور مستقبل میں بھی جاری رہے گا وہ عدالتوں کا نام لیکر بنیادی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن خود سڑکوں کو بند کرکے ایمبولینس کا راستہ روک کر عورتوں اور بچوں کی مشکلات بڑھاکر بنیادی حقوق کی جو خلاف ورزی کررہے ہیں وہ انہیں نظر نہیںآتا بہرحال آئندہ چند ہفتے بہت اہم ہیں کیونکہ اشرافیہ کے دونوں گروپ سربکف اور صف آراء ہیں ان کی لڑائی سیاسی و غیر سیاسی بالادستی کے لئے ہے اور یہ آئندہ انتخابات تک جاری رہے گی تشویش کی بات یہ ہے کہ لڑائی کئی رسوا کن مرحلوں سے گزرے گی جیسے کہ اعظم سواتی سمیت متعدد دیگر ویڈیوز لیکز ہیں ایسا تو شاہد دنیا کے کسی اور ملک میں نہ ہوتا ہو اعظم سواتی کے مسئلے کا بھی نوٹس لے لیا گیا ہے۔ یقینی طور پر ان کی دلجوئی بھی کی جائے گی۔سپریم کورٹ کے ایف آئی آر درج کرنے کے حکم کے بعد شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ قاتلانہ حملے کے ملزم نامزد ہوئے ہیں لہٰذا ان پر اخلاقی دبائو آئے گا کہ آپ مستعفیٰ ہوجائیں واہ کیا انصاف ہے حکومت توہین عدالت کا مقدمہ لیکر سپریم کورٹ گئی تھی اس کا تو فیصلہ نہ ہوسکا الٹا وزیراعظم اور وزیر داخلہ ملزم نامزد ہوگئے ماننا چاہئے کہ زور ہے عمران خان زور ہے۔