قبائلی رسم و رواج کے تحت عورت کو جائیداد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے رویے تبدیل کرنا ہوں گے، سیمینار

کوئٹہ (انتخاب نیوز) پارلیمانی سیکرٹریز، اراکین صوبائی اسمبلی اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے کہاہے کہ جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی اس وقت تک عورتوں کا استحصال ہوتا رہے گا،خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے، تشدد ایک بہت ہی بڑا صنفی امتیاز، غیر مساویانہ رویہ اور معاشرے میں ناہمواری کا بڑھتا ہوا ذریعہ بن رہا ہے۔ عورتوں کیخلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار مستقبل میں بننے والی پالیسیوں اور قانونی اصلاحات کے سلسلے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور قانون دانوں کو مصالحتی طریقہ کار، ترقیاتی پالیسیوں کے فریم ورک اور ادارتی نظام کے تحت عورتوں کیخلاف تشدد کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہونگے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائج پدرسری نظام کے ساتھ ساتھ قبائلی رسم و رواج کے تحت عورت کو جائیداد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو اس کے حقوق کے برعکس ہے۔ عورت کو قطعی طور پر اس کا مقام دینا مقصود ہو تو انہیں سیاسی، تعلیمی، انتظامی اور مالی طور پر مستحکم کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و پارلیمانی امور، سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی، پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور خلیل جارج، سیکرٹری وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سید سکندر شاہ، مرسی کورپس کے صوبائی سربراہ ڈاکٹر سعید اللہ خان، عورت فاؤنڈیشن کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر علاالدین خلجی، بلوچستان کمیشن آن سٹیٹس آف وومن کی چیئرپرسن فوزیہ شاہین، ڈی آئی جی پولیس جمال ڈوگر، نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کی ممبر فرخندہ اورنگزیب، سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار، ون یو این کی ریحانہ خلجی ودیگر نے عورت فاؤنڈیشن اور مرسی کورپس کے زیر اہتمام وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ، خواتین کی حیثیت پر صوبائی کمیشن (BCSW)، نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (NCHR) اور سول سوسائٹی بلوچستان کے زیراہتمام صنفی تشدد کیخلاف فعالیت کے 16 روزہ مہم کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سال 2022 ء کا موضوع صنفی تشدد کے خلاف تشدد کا خاتمہ، آج اور ابھیGender Based Violence ہے۔ دنیا کی تمام عورتوں کی تحریکیں ان 16 دنوں میں عورتوں پر ہونے والے تشدد اور جبر کیخلاف اپنی آواز بلند کرتی ہے۔ فعالیت کے یہ 16 دن پوری دنیا میں عورتوں پر تشدد اور جبر کے خلاف جدوجہد کی علامت کے طور پر منائے جاتے ہیں۔ مقررین نے کہاکہ ہر سال صنفی تشدد کیخلاف فعالیت کے 16دن منائے جاتے ہیں۔ جو 25نومبر سے شروع ہو کر 10دسمبر تک جاری رہتے ہیں۔ عورتوں کے خلاف تشدد ایک خطرناک حد تک عالمی مظہر کا باعث بن رہا ہے۔ جس سے بے شمار عورتوں کی عزت و ناموس متاثر ہو رہی ہے۔ تشدد ایک بہت ہی بڑا صنفی امتیاز، غیر مساویانہ رویہ اور معاشرے میں نا ہمواری کا بڑھتا ہو ا ذریعہ بن رہا ہے۔ تشدد کے حوالے سے اعداد و شمار برف پگھلنے کا ایک معمولی ذرہ معلوم ہوتا ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار مستقبل میں بننے والی پالیسیوں اور قانونی اصلاحات کے سلسلے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور قانون دانوں کو مصالحتی طریقہ کار، ترقیاتی پالیسیوں کے فریم ورک اور ادارتی نظام کے تحت عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہونگے۔ بلوچستان میں خواتین کی حالت زار بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی عمل میں شمولیت کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مستحکم کیا جائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی دی جائے۔خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی گارنٹی انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں رائج پدرسری نظام کے ساتھ ساتھ قبائلی رسم و رواج کے تحت عورت کو جائیداد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو اس کے حقوق کے برعکس ہے۔ عورت کو واقعی طور پر اس کا مقام دینا مقصود ہو تو انہیں سیاسی، تعلیمی، انتظامی اور مالی طور پر مستحکم کرنا ہوگا۔ ہم نے آج تک عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا۔ ان کو طرح طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ موجودہ صورتحال کے باعث خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ محنت کش عورت جہاں معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے وہاں اسے گھریلو تشدد کا زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ بچیوں کی کم عمری اور جبری شادی کے رجحانات سے بچیوں کی صحت پر خطرنات اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کی وجہ سے 2019 کے ایک سروے کے مطابق سالانہ ایک لاکھ میں سے 782مائیں بچوں کی پیدائش کے دوران دم توڑ جاتی ہیں۔ پاکستان میں 21فیصد بچیوں کی شادی 18سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی اس وقت تک عورت کااستحصال ہوتا رہے گا۔ انہوں نے کہاکہ کابینہ اسمبلی سمیت ہرفورم پر خواتین ودیگر محکوم طبقات کیلئے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔معاشرے کی تشکیل میں خواتین کااہم کردار ہے خواتین پر جسمانی تشدد کے ساتھ ذہنی تشدد کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سلسلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے مرسی کور انٹرنیشنل (Mercy Core)، عورت فاؤنڈیشن، خواتین کی حیثیت پر صوبائی کمیشن (BCSW) اور نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (NCHR) نے سال2022کے موضوع "صنفی تشدد کے خلاف تشدد کا خاتمہ، آج اور ابھی” مد نظر رکھتے ہوئے اس موقع پر ایک چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کررہے ہیں جس میں حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبائی حکومت بشمول تمام سیاسی جماعتیں کم عمری کی شادی کی روک تھام کے حوالے سے بل کو فوری طور پر بلوچستان اسمبلی سے منظور کریں، تیزاب گردی سے متاثرہ خواتین کی بحالی اور آبادکاری کے لئے بل اسمبلی میں فی الفور لا کر منظور کریں، صوبائی کابینہ میں خواتین ارکان اسمبلی کو موثر نمائندگی یا صوبائی وزارت دی جائے، تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے اندر مقام ِکار پر مرد اور خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون 2016کا نفاذ ہو چکا ہے اس سلسلے میں محکموں میں کمیٹیوں کی تشکیل اور عوامی سطح پر اس کی آگاہی کو یقینی بنایا جائے۔ گھریلو سطح پر ہونے والے تشدد کے خلاف بنائے گئے قانون کو لاگو کرنے کے لئے حکومتی سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے۔ ہوم بیسڈ ورکرز کے سماجی اور معاشی تحفظ کے لئے صوبائی سطح پر پالیسی منظور ہو چکی ہیں، اس سلسلہ میں خواتین کی معاشی حالت کوبنانے کے لئے ترقیاتی اسکیمیں تشکیل دی جائیں نیز خواتین کی تیار کردہ مصنوعات کو آخری شکل دینے کے لئے صوبائی سطح پر پروڈکٹ فنیشنگ یونٹس قائم کئے جائیں۔ بلوچستان میں امن اور بھائی چارے کی فضا کو بحال کرنے کے لئے حکومتی سطح پر عوام کے تعاون سے پالیسی تشکیل دیجائے۔ ہم حکومت وقت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ قدرتی آفات سے بروقت نمٹنے کے لئے صوبائی و ضلعی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھا رٹیز کے علاوہ مخیر حضرات، سول سوسائٹیز کے اراکین، مقامی نمائندوں خصوصاً خواتین اور سکاؤٹس کے اشتراک سے ازسر نو کمیٹیاں تشکیل دے کر منظم کیا جائے تاکہ بوقتِ ضرورت خواتین اور بچوں پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے فعال کردار ادا کر سکیں۔سرکاری اداروں میں ہر سطح پر خواتین کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی،تمام سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں معذور افراد کی آسان رسائی کے لئے اقدامات،سنڈیمن صوبائی ہسپتال میں نفسیاتی صحت کا مرکز اور خواتین فزیوتراپسٹ کے علحدہ مراکز کا قیام،تمام بنیادی مرکز صحت میں موبائل فیسٹیولا سینٹر کا قیام،محکمہ سماجی بہبود کے تحت کام کرنے والے اداروں جیسا کہ دارالامان اور مخصوص بچوں کے تربیتی مراکز میں ماہر نفسیات کی تعیناتی،جنرل نشستوں پر خواتین کو برابری کی بنیاد پر نامزد اور انہیں کامیابی کی زیادہ امید والی حلقوں پر مواقع،سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بشمول ِ سیکرٹریٹ، چیمبر آف کامرس، عدالتیں، میڈیا ہاؤسز اور پارکوں میں وومن فرینڈلی سپیس یسا ڈے کیئر سینٹر، باتھ روم، آرام گاہ اور معلوماتی ڈیسک کا قیام،ایچ آر پالیسی برائے میڈیا ہاؤسز کو صنفی حساسیت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دینا،خواتین کے حقوق کے حوالے سے فوری اور تیز ترین سماعت کے لئے عدالتوں میں موثر اقدامات،بلوچستان میں ڈویژنل سطح پر دارالامان کا قیام عمل میں لایا جائے اور تشدد سے متاثرہ خواتین کی فوری قانونی رہنمائی اور مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کے لئے وکلا پینل کی تعیناتی، خواجہ سراہ کے سماجی اور معاشی تحفظ کے لئے صوبائی سطح پر پالیسی ترتیب اور تشکیل اورمعاشی حالت کی بہتری کیلئے حکومتی کوٹہ کے مطابق روز گار کی فراہمی یقینی بنائی جائیں۔ انہوں نے حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ اس چارٹر آف ڈیمانڈ کو اپنی ترجیحات میں رکھتے ہوئے اس پر عملدرآمد کروائیں اور جو قوانین اب تک اسمبلی میں پیش نہیں ہوئے ان کو اسمبلی میں پیش کروانے کے ساتھ ساتھ ان کو منظور کروائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں