سینیٹ میں حکومتی اتحادیوں نے اشرافیہ کی مراعات میں بھی کٹوتی کا مطالبہ کر دیا
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سینیٹ میں حکومتی اتحادیوں نے اشرافیہ کی مراعات میں بھی کٹوتی کا مطالبہ کر دیا ۔ اتحادیوں کا کہنا ہے کہ اشرافیہ پر سالانہ 26 کھرب 60 ارب روپے سے زائد اخراجات آ رہے ہیں جو لگ بھگ 17 ارب ڈالر بنتے ہیں ۔ جبکہ حکمران جماعت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے پارلیمنٹ سے متعلق ریمارکس کا معاملہ بھی اٹھاتے ہوئے اسے پارلیمان کے معاملات میں مداخلت قرار دے دیا ۔ حکومتی جماعت کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ عدلیہ قانون میں سقم کی نشاندہی کر سکتی ہے مگر پارلیمان کے کردار پر بات نہیں کر سکتی جو کہ ملک کا نمائندہ عوامی فورم ہے ۔ جمعہ کو عوامی اہمیت کے نکتہ اعتراضات کے موقع پراجلاس سینیٹر مولانا عطا الرحمان کی صدارت میں ہوا ۔ حکومتی اتحادی سینیٹر طاہر بزنجو نے عوامی اہمیت کے نکتے اعتراض پر کہا کہ اشرافیہ پر سالانہ 26 کھرب 60 ارب روپے سے زائد اخراجات آ رہے ہیں جو لگ بھگ 17 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کیا گیا ہے کہ سرکاری افسران مراعات اور اثاثے ظاہر کریں گے مگر ججز اور جرنیلوں کو استثناء دے دی گئی ہے ۔ کیا ہماری اشرافیہ اس زمین پر کوئی بلند ترین مخلوق ہے ریاست کی آئینی شخصیات صدر چیئرمین سینٹ اسپیکر قومی اسمبلی وزیر اعظم اپنے اثاثے ظاہر کرتے ہیں تو اشرافیہ کو بھی اپنے اثاثے ظاہر کرنے چاہئیں ۔ معاشی بدحالی کے پیش نظر وزیر اعظم کو اتنی بڑی کابینہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے ۔ مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے نکتہ اعتراض پر چیف جسٹس آف پاکستان کے پارلیمان سے متعلق ریمارکس پر تحفظات کا اظہار کیا اور اسے پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت کے مترادف قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کی شخصیات کو کسی کے لیے جانبدار نظر نہیں آنا چاہیے ۔ پارلیمنٹ متنازع نہیں ہے قوم کے نمائندہ فورم میں قانون سازی ہو رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے متعلق گفتگو کا باہر کسی کو استحقاق نہیں ہے ہمارے لیے یہ ریمارکس تکلیف دہ ہیں ۔ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور ایک جج نے بعد میں اس غلطی کو تسلیم کیا ۔ انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ کی تحریک سب کے سامنے ہے ارکان پارلیمنٹ سوچ سمجھ کر قانون بناتے ہیں ۔ عدلیہ کے فیصلے قبول ہیں ۔ پارلیمان کے فیصلے بھی قبول کئے جانے چاہئیں ۔ یہ اکثریتی فورم ہے ۔ ہماری پارلیمان کی عزت پر حملہ نہ کرے کوئی ۔ ادب و احترام سب کے لیے لازم ہے ۔ قانون بناتے ہیں کوئی سقم نظر آتا ہے تو عدلیہ ختم کر دے ۔آج تک کسی نے رکاوٹ نہیں ڈالی مگر مارشل لاؤں کی توثیق کی بھی ایک تاریخ ہے ۔ ایک وزیر اعظم پھانسی چڑھ جاتا ہے پھر کہا جاتا ہے کہ غلطی ہو گئی ۔ ریاست تین ستونوں عدلیہ مقننہ انتظامیہ پر کھڑی ہے کسی کو تجاوزات نہیں کرنی چاہئیں ۔ 90 روز میں انتخابات ہونے چاہئیں ۔


